یوم آزادی پر کشمیری ہمارے ساتھ ہیں
وطن عزیز کو انگریز سرکار سے آزاد ہوئے کل ایک سال اور گزر جائیگا ، جسے ہم یوم آزادی کا نام دیتے ہیں ، کسی بھی وطن کی تاریخ میں آزادی کا دن اسکے عوام کیلئے ایک خوشی کا احساس پیدا کرتا ہے۔ آزادی کے بعد آزادی کو قائم رکھنا زیادہ اہم ہوتا ہے گو کہ آزادی کیلئے بھی ہزاروں جانوں کا نذرانہ دیا گیا ، انگریز سرکار سے تو بانی ٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور انکے رفقاء نے نہائت تدبر اور قتل و غارت کے بغیر آزادی حاصل کرلی مگر جن ہندو دہشت گردوں ، سکھوںکو یہ آزادی ایک آنکھ نہیں پسند آئی انہوںنے اپنی زمین پر جانے کے خواہش مند ہزاروں خاندانوںکو بھیڑ بکریوںکی طرح ذبح کردیا ۔ کسی مقصد کیلئے اگر ایک بھی انسانی جان قربان ہو جائے تو وہ مقصد مقدس بن جاتا ہے اور یہاںتو وطن عزیز کیلئے ہزاروںجانوں کا نذرانہ دیا گیا ، نہائت نا مساعد حالات میں قائد اور انکے رفقاء نے ملک کو چلانا شروع کیا ، قائد نے طرز حکومت کیلئے کچھ اصول اور ضوابط وضع کئے ، مگر افسوس، آزادی کے بعد اپنے حاصل کردہ ملک میںایک سال سے زائد عرصے تک سانس نہ لے سکے ، انگریز چلا گیا ، اپنے تنخواہ دار وہ لوگ جنہیں سردار ، ملک ، خان اور نہ جانے کیا کیا القابات اور دولت دے گیا تھا وہ ان انگریزوں، اور ہندوئوں کے قائم مقام کے طور پر کام کرتے رہے اور نہ صرف اس ملک کو دولخت کرنے میںوہ بھر پور معاون بنے بلکہ قائد کے خواب و خواہش جو جنت نظیرکشمیر سے متعلق تھی سالوں اسکی آزادی کیلئے آواز صرف نام کو ہی اٹھائی گئی اور وہ حصہ تاحال ہندوبنیوں اورظالموں کے قبضے میںہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی مسلمانوں کیلئے علیحدہ زمین کیلئے پرامن جدوجہد سات سالوں پر محیط تھی، جبکہ آج جنت کشمیر کو ہندوئوںکے قبضے میں 73 سال ہورہے ہیں۔گو کہ پاکستان کشمیر کیلئے ایک سفارتی کردار ادا کرتا ہے مگر ہماری تاریخ کے ان 72 سالوں میں ہم نے کتنے سال اپنا سفارتی کردار ایمانداری سے ادا کیا ؟؟اس سوال کا جواب وہ ہزاروںکشمیری شہداء ہر پاکستانی حکمران اور عوام سے بھی روز قیامت مانگیں گے ۔ ہم یوم آزادی بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کے ویژن کے مطابق مادر وطن کو امن‘ ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے پختہ عزم کی تجدید کے ساتھ قومی و ملی جوش و جذبہ سے مناتے ہیں۔ملک میں عام تعطیل کرتے ہیں جھنڈا لہراتے ہیں ، دھواںدار تقاریر کرتے ہیں، ترانے گاتے ہیں اور سو جاتے ہیں ۔ جبکہ وہ کشمیری جو آزادی کے منتظر ہیں جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں اور پاکستان پر نظر جمائیں بیٹھے ہیں کہ کب پاکستان اپنی سفارتی کوششوںمیں کامیابی حاصل کریگا ۔ ہم جشنِ آزادی مناتے ہیں۔ کشمیری عوام اپنے گھروںپر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لہراتے ہیں ، ہندو فوج اسی الزام پر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑتی ہے ، دوسرے دن ہندوستان کا قومی دن ہوتا ہے وہ اس روز یوم سیاہ مناتے ہیں اور پھر ہندو فوج کے ظلم کا شکار بنتے ہیں۔آج یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرکے اور انہیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دیکر خود دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی‘ جس میں قائداعظمؒ کی قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خودمختار پاکستان کا تصور متعین ہوا‘ جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انہیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیاء ذہنیت اور انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطہ کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہونیوالی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائیگا مگر بد قسمتی سے قائد کی رحلت کے بعد قیادت ’’کھوٹے سکوں‘‘ کے ہاتھ آگئی جنہوںنے آج تک صرف اپنے مفادات کی بجاآوری میں پاکستان کو اسلام کا گہوارہ بنانے کے بجائے اپنے مفادات اور مسائل کی آماجگاہ بنا دیا۔ سیاست دانوںکے آپس کے اختلاف کی وجہ سے ملک کو بار بار غیر جمہوری حکومتوں کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاست دان تاحال اپنی مفاداتی سیاست سے باز نہیںآرہے۔ آپس میں دست و گریباںہیں، یہ عجیب ملک ہے جہاںسیاست دان سارا سال دست و گریبان رہتے ہیں تو پھر معاشی ترقی کیسے ہوگی ؟؟
معاشی ترقی نہیں ہوگی تو ہم عالمی طاقتوںاور امیر ممالک کے طفیلی کا کردار کرتے رہینگے اور ایسے ممالک کی عالمی اداروں میںکوئی شنوائی نہیں ہوتی۔ ہم چھپ چھپا کر روتے ہیں کہ عالمی ادارے ہمارا ساتھ نہیں دیتے ، جب عالمی ادارے ساتھ نہیںدینگے تو قائد کا خواب کشمیر کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ گوکہ آفریں ہے کشمیری مجاہدین پر جو اس صورتحال کے باو جود بھی ہندوستان کے آگے اپنا سر تسلم خم نہیں کرتے اور جانوں کا نذرآنہ دے رہے ہیںکہ عالمی اداروںکی توجہ انکی جانب ہو ۔ یقینا عالمی اداروں، بڑی طاقتوںکو صورتحال سے مزید آگہی ہے ، پاکستان کی کوششیں بھی ہیں مگر جس ملک کی معیشت ہی کمزور اور ’’کشکول ‘‘مارکہ ہواسکی شنوائی کہاں ہوتی ہے۔ اسوقت اسلامی تعاون تنظیم ، 57 اسلامی ممالک کا اتحاد او آئی سی وہ واحد ادارہ ہے جسکے ممبران ہندوستان سے دوستی کے باوجود مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے شانہ بشانہ ہیں ، oicکی کوئی فوج نہیںکہ وہ جاکر کشمیر کو آزاد کرالے ۔ کشمیر پر OIC کی جانب سے کسی پیش رفت کا ہونا یا اس میں سست روی دکھانے کا الزام سراسر بہتان طرازی اور اپنے مسائل کی پردہ پوشی کے علاوہ کچھ نہیں۔او آئی سی واحد بین الاقوامی تنظیم ہے جو مستقل طور پر اور واضح طور پر، ایک سلسلہ کے ذریعے کشمیر کاز کی حمایت کرتی ہے۔ ممبر ممالک پر مشتمل چھ رکنی ممالک کا کشمیر رابطہ گروپ ہے جو یقینا 57 ممالک کے ایماء پر بنایا گیا ۔