حکومت اور اپوزیشن قائدین معاملہ فہمی سے کام لیںاور جمہوریت کو گزند پہنچنے سے بچائیں
مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر پولیس اور لیگی کارکنوں میں جھڑپیں‘ گرفتاریاں اور نیب کی مدعیت میں اندراج مقدمہ
مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز کی نیب لاہور آفس میں پیشی کے موقع پر گزشتہ روز پولیس اور لیگی کارکنوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں اور ٹھوکر نیازبیگ کا علاقہ کئی گھنٹے تک میدان جنگ بنا رہا۔ لیگی کارکنوں نے پولیس پر پتھرائو کیا اور بیریئر توڑنے کی بھی کوشش کی جبکہ جوابی پتھرائو میں مریم نواز کی بلٹ پروف گاڑی کی ونڈ سکرین بھی ٹوٹ گئی۔ لوگوں کو منتشر کرنے کیلئے پولیس نے لاٹھی چارج‘ ہوائی فائرنگ اور شیلنگ کی جس سے خواتین سمیت متعدد کارکن اور کچھ پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے۔ پولیس نے خواتین سمیت کئی مظاہرین کو گرفتار کرلیا اور تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس خطرناک صورتحال کے پیش نظر نیب کی جانب سے مریم نواز کی پیشی ملتوی کردی گئی جبکہ مریم نواز کافی دیر تک پیشی پر اصرار کرتی رہیں تاہم نیب حکام نے انہیں پیشی کی اجازت نہ دی۔
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کو نیب نے اراضی الاٹمنٹ کیس میں منگل کے روز طلب کر رکھا تھا جبکہ انکی پیشی سے پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کے عہدیداران اور کارکن بشمول ارکان اسمبلی کثیر تعداد میں نیب آفس کے باہر اکٹھے ہوگئے اور جیسے ہی مریم نواز وہاں پہنچیں تو کارکنوں نے انکے ہمراہ ہی جلوس کی شکل میں نیب آفس کے اندر گھسنے کی کوشش کی جس پر انکے اور پولیس کے مابین جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ کارکنوں نے اس موقع پر نیب اور حکومت کیخلاف نعرے بازی بھی کی۔ پولیس کے روکنے پر کارکن بپھر گئے اور انکے اور پولیس کے مابین ہاتھا پائی بھی شروع ہو گئی جبکہ پولیس نے ان پر لاٹھی چارج کے علاوہ واٹر کینن بھی استعمال کیا۔ نیب آفس سے واپسی پر مریم نواز نے مسلم لیگی قائدین شاہد خاقان عباسی‘ رانا ثناء اللہ‘ پرویز رشید‘ مریم اورنگزیب اور سابق گورنر سندھ محمدزبیر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انہیں نیب کے دفتر میں بلانے کے پیچھے ایک سازش تھی جس کا مقصد انہیں جانی نقصان پہنچانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ انکی گاڑی بلٹ پروف نہ ہوتی تو ان کا جانی نقصان ہو جاتا اور ونڈ سکرین پر لگنے والے پتھر انکے سر پر لگتے۔ انکے بقول انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے قائدین اور کارکنوں کے ہمراہ نیب کی دہشت گردی کا سامنا کیا۔ انہوں نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ پتھر پولیس وردی میں ملبوس لوگ پھینک رہے تھے۔
دوسری جانب صوبائی وزراء فیاض الحسن چوہان اور راجہ محمد بشارت نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ نیب آفس کے باہر لیگی کارکنوں کی جانب سے پولیس پر پتھرائو منصوبے کے تحت کیا گیا۔ پتھر مریم نواز کی سکیورٹی گاڑی میں لائے گئے جبکہ جاتی امراء میں پولیس پر حملے کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے 25 ہزار روپے فی کارکن تقسیم کئے گئے۔ مریم کی گاڑی پر حملہ بھی اسی منصوبہ بندی کا حصہ تھا اور گاڑی پر پتھر مارنے والے کو ایک لاکھ روپے ملے۔ انکے بقول نیب آفس پر لیگی کارکنوں کے اس حملے سے سپریم کورٹ پر حملے کی یاد تازہ ہو گئی ہے۔
قطع نظر اسکے کہ نیب کی کارروائیوں‘ مقدمات اور تفتیش کے طریق کار پر اپوزیشن جماعتوں اور بعض حکومتی حلقوں کے علاوہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار کیا جارہا ہے اور نیب کی تشکیل کے قانون میں ردوبدل کا تقاضا ہورہا ہے۔ نیب کے کسی کیس اور اس میں ملوث کسی فرد سے تفتیش کے موقع پر ملزم فریق کی جانب سے پیشی کیلئے جلوس کی شکل میں آنا اور پولیس کے ساتھ الجھ کر کشیدگی کی فضا پیدا کرنا بادی النظر میں نیب پر دبائو ڈالنے کے مترادف ہی سمجھا جائیگا۔ اگر کوئی فریق یہ سمجھتا ہو کہ اس کیخلاف نیب کی کارروائی یا تفتیش ناجائز طور پر ہو رہی ہے تو اسکے پاس نیب کے کسی اقدام یا فیصلے کیخلاف دادرسی کے مجاز فورم موجود ہیں۔ اس سے ہٹ کر کوئی راستہ اختیار کیا جائیگا تو وہ قابل دست اندازیٔ پولیس ہوگا اور قانون ہاتھ میں لینے سے تعبیر کیا جائیگا۔ بدقسمتی سے مریم نواز کی نیب میں طلبی اور پیشی کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی جانب سے قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کی گئی۔ اگر مریم نواز اس موقع کو سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کرنے کے بجائے ایک قانون و امن پسند شہری کی حیثیت سے خاموشی کے ساتھ نیب کے آفس میں پیش ہو جاتیں جیسا کہ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نیب کی طلبی پر گزشتہ روز اپنے حکومتی اختیارات اور سکیورٹی تقاضوں کے باوصف خاموشی سے نیب کی انکوائری ٹیم کے روبرو پیش ہوئے۔ تو کسی ہنگامہ آرائی کی نوبت ہی نہ آتی۔ مریم نواز نیب کی کارروائی پر مطمئن نہ ہوتیں تو انکے پاس دادرسی کیلئے عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے فورم موجود تھے تاہم انکی پیشی کے موقع پر جس طرح لیگی کارکن نیب کے آفس کے باہر جمع ہوئے اور ہنگامہ آرائی کی اس سے مسلم لیگ (ن) کی منصوبہ بندی کا ہی عندیہ ملتا ہے اور ایسے مواقع پر پولیس اپنے کلچر کے مطابق ضرورت سے زیادہ ہی سخت گیری کا مظاہرہ کرتی ہے جس کی ماضی کی اپوزیشن تحریکوں کے حوالے سے کئی مثالیں موجود ہیں۔ چنانچہ گزشتہ روز بھی پولیس نے اپنے ’’حسن کارکردگی‘‘ سے مسلم لیگ (ن) کی مبینہ منصوبہ بندی کو ہی تقویت پہنچائی۔ ہنگامہ آرائی کے اس واقعہ پر پولیس تھانہ چوہنگ نے نیب کی مدعیت میں مریم نواز‘ کیپٹن صفدر‘ رانا ثناء اللہ اور شائستہ پرویز ملک سمیت مسلم لیگ (ن) کے تین سو کارکنوں کیخلاف مقدمہ درج کرلیا ہے جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے باور کرایا ہے کہ نیب آفس کے باہر ہنگامہ کرنیوالوں کیخلاف قانون حرکت میں آئیگا۔ دوسری جانب اپوزیشن اس واقعہ کو حکومت کیخلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کیلئے استعمال کررہی ہے اور شہبازشریف‘ بلاول بھٹو زرداری‘ مولانا فضل الرحمان‘ اسفندیار ولی اور دوسرے اپوزیشن قائدین مریم نواز کی گاڑی پر پتھرائو کو حکومتی انتقامی سیاسی کارروائی سے تعبیر کررہے ہیں۔ گزشتہ روز قومی اسمبلی میں بھی اس واقعہ کی صدائے بازگشت سنی گئی جہاں خواجہ محمد آصف نے الزام عائد کیا کہ وفاق اور پنجاب سیاسی ماحول خراب کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ انکے بقول ریاستی جبر کے کبھی اچھے نتائج نہیں نکلتے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے باور کرایا کہ ایسے واقعات سے کسی کو فائدہ ہوگا تو یہ اسکی غلط فہمی ہے تاہم اس واقعہ کی انکوائری ہونی چاہیے۔
ہماری ماضی کی سیاسی تاریخ اس امر کی ہی شاہد ہے کہ سیاسی محاذآرائی کے جمہوریت کی بقاء و استحکام کے حوالے سے کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے جبکہ ایسے حالات سے ماورائے آئین اقدام کیلئے غیرجمہوری عناصر کو فائدہ اٹھانے کا زیادہ موقع ملتا ہے۔ بے شک نیب کے حوالے سے اپوزیشن کے تحفظات ہیں تاہم اسکی بنیاد پر ملک میں سیاسی کشیدگی اور انتشار کو ہوا دی جائیگی تو اس سے جمہوری نظام کے پھر پٹڑی سے اترنے کی راہ ہی ہموار ہوگی۔ اس وقت فریقین جس طرح آپس میں الجھ رہے ہیں اس سے جمہوریت کی بوٹی کسی اور کے ہاتھ لگنے کا زیادہ اندیشہ ہے اس لئے بہتر یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں جانب سے معاملہ فہمی سے کام لیا جائے اور مزید اشتعال پیدا نہ ہونے دیا جائے۔ اگر خدانخواستہ جمہوریت کو گزند پہنچی تو اس سے سسٹم ہی نہیں‘ ملک کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔