یوم آزادی کا جوش وجذبہ
اگست کی آمد کے ساتھ ہی یوم آزادی منانے کا جذبہ اور جنون نیا رنگ لے لیتا ہے ۔ یہ جذبے تحریک پاکستان‘ قیام پاکستان اور استحکام پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں 73 برس قبل برصغیر کے مظلوم اورمجبور مسلمانوں نے حضرت قائداعظم کی عدیم المثال قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے آزاد اور خودمختار مملکت کے حصول کے لیے جو تاریخ ساز جدوجہد کی وہ کوشیش اور قربانیوں کے لمحات ناقابل فراموش ہیں ابھی تقسیم برصغیر کا ایجنڈا مکمل ہونا باقی ہے۔ کشمیر کی آزادی سے انشاء اللہ مصور پاکستان اور بانی پاکستان کے خوابوں کو جلا ملے گی۔ 4 اگست 2020ء کو حکومت پاکستان کی جانب سے مملکت خداداد کا نیا نقشہ جاری ہوا جس میں مقبوضہ وادی کے ساتھ ریاست جونا گڑھ اور مناواراکو بھی پاکستان کا حصہ دکھایا گیا ،پاکستانی قیادت یہ نقشہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک کو بھی فراہم کرے گی پاکستان کا نیا نقشہ بننا دراصل تحریک پاکستان کے جذبوں کا ہی تسلسل ہے۔ 5 اگست کو یوم استحصال کے طور پر منا کر جہاں اہل وطن سے کشمیریوں سے اپنی بے مثال محبت کا اظہار کیا وہاں اقوام متحدہ اور بڑی طاقتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر پہ کشمیری اور پاکستانی دو قالب اور یک جان ہیں۔
پاکستانی قوم کورونا وائرس‘ لاک ڈاؤن کے ماحول میں یوم آزادی منانے کے قریب ہے یہ وہ لمحات ہیں جب مسلمان اطراف سے مسائل ومشکلات کا شکار ہیں اسلام دشمن طاقتیں یک نکاتی ایجنڈے کے تحت پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں اس صورت حال میں ہمیں اپنے قومی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے کلمہ طیبہ کی روح کو زندہ وبیدار رکھنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر 14اگست 1947ء کو رب کائنات نے پاکستان عطاء کیا۔ بانی پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ پاکستان کا حصول محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ یہ ایسا ملک بنے گا جو اسلام کا مظہر اور امت مسلمہ کو تقویت دے گا ۔پاکستان کے اس منفرد مقام کو پانے کے لیے ہمیں اتحاد‘ یکجہتی اور استحکام کے گلاب اپنے پاس رکھنے ہوں گے خواندہ، مضبوط اور خوشحال ایٹمی پاکستان ہی ہماری اور امت مسلمہ کی آروزوں کا مرکز محور بنے گا جس طرح سورج کی روشنی سچ کا اعلان کرتی ہے اسی طرح یہ بھی سچ ہے کہ اسلام دشمنی کی حامل قوتیں یک نکاتی ایجنڈے کے تحت پاکستان کو کمزور کرنے کے لیے مسلسل برسر پیکار ہیں 86 برس بعد آیا صوفیہ میں تلاوت‘ اذان اور نماز کے ساتھ ترک صدر طیب اردگان کا فکرانگیز خطاب نے بتادیا ہے کہ اسلام دشمنی کا سلسلہ کس حد تک جاری ہے۔ یہ امت مسلمہ کی بیداری کا وقت ہے انشاء اللہ حضرت اقبالؒ کی پیشن گوئی پوری ہونے کو ہے
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابغاک کا شغر
تحریک پاکستان کا جو نقشہ علامہ اقبال کے ذہن میں تھا اس میں یہ بات بڑی واضح ہے جو آپ نے اپنے خطبہ الہ آباد 1930 میں بھی ارشاد فرمایا اسلام اب بھی ایک زندہ قوت ہے جو ذہن انسانی کو وطن اور نسل کی قید سے آزاد کر سکتی ہیں جس کا عقیدہ یہ ہے کہ مذہب کو فرد اور ریاست دونوں کی زندگی میں غیر معمولی اہمیت اور حیثیت حاصل ہے اور مجھے یقین ہے کہ اسلام کی تقدیر پر خود اس کے اپنے ہاتھ میں ہے اسے دوسری تقدیہ کے حوالے نہیں کیا جا سکتا پھر 1937میں قائد اعظم کے نام اپنے خط میں انہوں نے وہ بات فرماتی ہے جو بیک نگاہ اس بات کو واضح کر دیتی ہے کہ وہ اقتصادی خوشحالی اور سیاسی معاملات کو اسلام کی رہنمائی کے بغیر امت مسلمہ کے لیے غیر مفید تصور کرتے ہیں۔ظاہر ہے کہ پاکستان کسی فوجی مہم جوئی کے زریعے وجود میں نہیں آیا نہ ہی کسی نے اسے زور طاقت اور بذریعہ ہتھیار حاصل کیا بلکہ ووٹ کے ذریعے بننے والی دنیا کی تاریخ کی واحد منفرد اسلامی ریاست ہے اور اس میں ان مسلمانوں کے ووٹ کا تناسب مسلم لیگی امیدوار ان کے حق میں سو فیصد تھا جن کے علاقوں میں پاکستان نہیں بننا تھا یہ اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ پاکستان کا نصب العین اسلامی ریاست کا قیام ہی تھا کسی سیکولر اسٹیٹ کا قیام مسلمانوں یا قائد اعظم کی نصب العین ہر گز نہیں تھا تاریخ کا سفر جو سن 1940سے شروع ہوا اس میں 1947تک قدم بہ قدم پر جلسے ہیں کانفرنسزہیں اور قائد اعظم کے مختلف خطابات ہیں پنجاب مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوتے ہوئے کہا کہ خوب یاد رکھیے یہ کوئی معمولی کا م نہیں ہے یہ سلطنت مغلیہ کے زوال سے لے کراب تک سب سے بڑا کام ہے جو آپ نے اپنے ذمہ لیا ہے اچھی طرح سمجھ لیجے کہ منزل تک پہنچنے کے لیے تمام وسائل کو کام میں لانا پڑے گا ہر مکمن طریقے سے مکمل تیاری کرنی پڑے گئی جو جدوجہدآزادی کا یہ کام زور شور سے جاری ہے اسی دوران جا لندھر میں منعقد آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن سے 15نومبر 1942میں قائد اعظم نے فرمایا مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کا ہو گا پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن کریم نے وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا تھا الحمد اللہ قران مجید ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور صبح قیامت تک موجود رہے گا یہ اس قائد اعظم کے الفاظ ہیں جنہیں جھوٹ سے نفرت ہے اور وہ کسی دباو میں آکے اپنی رائے کے اظہار میں کبھی بھی کسی مداہنت سے کام نہیں لیتے قائد کے یہ بیانات اور تقاریر ہر طبقے کے لیے جہاں مشعل راہ تھی منزل کی نشان دہی کر رہی تھی وہی امت مسلمہ کو اس مرکز اتحاد کی طرف بلا رہی تھی جو ہمیشہ سے ان کا مطلوب و محبوب رہا ہے ۔
اور وہ ہے ایک آزاد اسلامی فلاحی ریاست جو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کر سکے پاکستان کی بقا اور استحکام کے کیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ملک کو انہی بنیادوں پر پھر سے استوار کریں۔
اور اپنے قائدین کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا واحد زریعہ ہے کہ ہم اس کے استحکام اور ترقی کے لیے کام کریں۔
اور اپنی آنے والی نسل کو اس ملک کے قیام کی جدوجہد اور اس میں دی جانے والی قربانیوں سے روشناس کرائیں