افغان مہاجرین کے انخلاء کا مسئلہ
حکومت پاکستان اور عوام نے ہمیشہ برادراسلامی ملک افغانستان کے لوگوں کو مصیبت کی گھڑی میں سینے سے لگایاجب انکو بیرونی جارحیت کا سامنا کرنا پڑاتو لاکھوں افغانیوں کو اپنے ہان پناہ دی بلکہ انکی کاروباری سرگرمیوں میں بھی مداخلت نہ کی حالانکہ انکے زیادہ کاروبار اسمگلگ ،منشیات اور لوٹ مار کے تھے نہ ضرف یہ کہ ہمارے ملک میںکئی لوگ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث میں بلکہ افغانستان حکومت بھی دوسروں کی آلہ کار بن کر پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہی ۔ گزشتہ ہفتے بلوچستان کے بارڈر پر پاکستانی حدود کے اندر ہمارے فوجیوں پر براہ راست فائرنگ کی جس سے کئی لوگ شہید ہوئے اور کئی زخمی اسطرح کا ایک واقعہ گزشتہ سال kpk بارڈر میں پیش آیا تھا جہان ہماری چو کی پر افغان فوجیوں نے بلااشتعال فائرنگ کرکے کئی جوانوں کو شیہد کیا تھا۔ہمارا ایک فوجی بھی سارے افغانستان سے زاید قیمتی ہے وہ افغانستان جسکی آزادی صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی مہربانی ،پاکستانی حکومت اور عوام کی مرہون منت ہے ۔ بے وفاہی کا عنصر افغان عوام کی رگ رگ میں ازل سے شامل ہے یہ تمام سہولیتں ہم سے حاصل کرتے ہیں لیکن وفاداری انڈیا سے کرتے ہیں انکے بعض صدور جنکا زیادہ قیام اسلام آباد اور پشاور میں رہا اپنے دور اقتدار میں انہوں نے ہمیشہ پاکستان کی مخالفت کی گزشتہ سال ہمارے کر کٹر سے کو چنگ حاصل کرنے والے افغان کھلاڑیوں نے ایک میچ کے دوران پاکستان کے خلاف اور انڈیا کی حمایت میں نعرے لگائے۔ ان تمام معاملات میں ہمارے حکمران سابق اور موجودہ ذمہ دار ہیں ہیں جو بے حس ہوچکے ہیں ۔ جو فوج دن رات محاذوں پر موسم کی سختیوں میں دن رات ملک کی حفاطت میں لگی ہے اور وہ جوان جو افغانستان کے فوجیوں کی بلااشتعال فائرنگ کا شکار ہوکر اپنی جانوں کانذانہ پیش کرتے ہیں۔ان فوجیوں کے لئے افغانستان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی نہیں کرتی اور ہماری بے حسی اس حدتک بڑھ گئی ہے کہ ہردور میں بعض وزرام، اور ملک کی ایک سیاسی جماعت جوازل سے پاکستان کی دشمن ہے اورجس کے لیڈر نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا ۔ان غیر قانونی افغان مہاجرین حمایت میں غیر ضروری حدتک بیان بازی کرتے ہیں موجودہ حکومت کے بھی ایک آدھ وزیرنے ان کو پاکستانی شہریت شناختی کارڈ وغیرہ دینے کی پرزور وکالت کی تھی ان غیرقانونی مہاجرین کے اثرورسوخ کایہ عالم ہے کہ جب انکے جعلی پاکستانی کارڈ کومنسوح کیا جاتا ہے توملک کے اعلیٰ سول اداروں سے انکے لیے سفارشی کالزآتی شروع ہوجاتی ہیں اس طرح گزشتہ سال نادرا میں ایک ایسے افسر کا کیسں آیا جوکہ اصل میں افغان شہری تھا اور نادرا میں کئی سال سے نوکری کررہا تھا اور اس نے افغان مہاجرین کو کارڈ جاری کیلئے تھے اسی طرح بلوچستان اسمبلی کے ایک رکن جوکہ افغان شہری ہے کا کیس بھی سامنے آیا تھا اب بخوبی انداز لگایا جاسکتا ہے کہ ہم ملک کے ساتھ کس حدتک وفادار ہیں ضرورت اس امرکی ہے کہ ان واقعات کے بعد کسی غیر ملکی دبادئو کی پرواہ کرتے ہوئے ان مہاجرین کو فوری طور پر پاکستان سے نکالا جائے کیونکہ انکے قیام کی مدت بار بار توسیع کے بعد ختم ہوچکی ہے جسکو نا عاقبت اندیش حکمران مزید توسیع دینے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ۔ان مہاجرین کو ملک بدر کرتے وقت کسی قسم کا روپیہ یا سامان ساتھ لے جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ پاکستان سے ناجائز طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ ضروری کام یہ ہے کہ انکے جاتے وقت ایک ایک فرد کا ریکارڈ ہونا چاہیے ۔ان کو دی جانے والی تمام سہولتوں کو بھی ختم کیا جائے اس طرح افغانستان سے ہونے والی اسمگلنگ تقریبا ختم ہو جائے گی اور ہمارا ریونیو بڑھے گا اور قانونی طور پر کاروبار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جو کہ اس وقت اس اسمگلرز کا مقابلہ نہ کرتے ہوئے اپنے کاروباروں کو بند کرنے پر مجبور ہوگئے ہیںگزشتہ چند سالوں میں ملک کے اندر بالخصوص اسلام آباد میں ہر بڑی واردات میں افغانستان کے لوگ ملوث پائے گئے ہیں جنکی اکثریت واردات کے بعد افغانستان فرار ہو جاتی ہے اور کچھ عرصہ بعد واپس آکر دوبارہ وارداتوں میں مشغول ہو جاتی ہے اسکے علاوہ غیر قانونی قبضے منشیات، اغواء برائے تاوان اورقتل کی وارداتوں میںیہ لوگ ملوث ہوتے ہیں اور پاکستان میں ہر حکومت کی حمایت اور بددیانت افسران واہلکاروں کی سر پرستی کی وجہ سے انکے خلاف آج تک کو ئی موثر کارروائی نہ ہو سکی ہے۔ چند سال قبل ان مہاجرین نے سیکٹر آئی گیارہ ون میٹرو کے سامنے والے سیکٹر کے زیادہ حصہ پر قبضہ کرکے غیر قانونی طور پر اپنے مکانات بنا لئے تھے بلکہ اپنا ایک قبرستان بھی بنا لیا تھا۔ کیا ایسا ایک دن میں ہوا ہے اور کیا ایسا سی ڈی اے کے بددیانت لوگوں کے بغیر ممکن ہے؟ ہرگز نہیں۔یہ علاقہ عوام اور پولیس کے لئے نو گو ایریا بن چکا تھا سننے میں آرہا تھا کہ اگر پولیس نے کسی مجرم کو پکڑنے کے لئے اس علاقہ میں جانا ہوتا تو پہلے ان کے ایک سربراہ سے اجازت لینی پڑتی تھی اور تمام سوال و جواب اسکی کی موجودگی میں کرنے کی اجازت ہوتی تھی۔ اسلام آباد کے مرکز میں واقع آئی گیارہ ون علاقہ غیر سے بھی بڑھ چکا تھا۔عوامی شکایات اور وارداتوں کی زیادتی کے بعد مجبورا اسلام آباد ہائی کورٹ کو از خود نوٹس لینا پڑا اور کئی ماہ کی عدالتی کارروائی کے بعد ان افغانیوں کو یہاں سے نکالنے کا حکم جاری کیا اور اپنے حکم پر عدالت عالیہ نے فورس کے مدد سے عمل بھی کرایا۔ یہ ان لوگوں کے خلاف بڑا آپریشن تھا لیکن ان کے ذمہ داروں کے خلاف آج تک کوئی کارروائی نہ ہوئی ہے بلکہ افغانی لوگ یہاں سے نکل کر 9/11 اور ترنول میں منتقل ہوگئے اور وہاں غیر قانونی رہائش گاہیںتعمیر کرلی ہیں۔ اسلام آباد میں انتظامیہ وہی ہے اور حسب سابق اپنی آنکھیں بند کئے ہوئے آخر کار پھر عدالت عالیہ کو مداخلت کرنی پڑے گی۔ ادارے اور انتظامیہ خود کیوں نہیں اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہیں یہ کام عدالتوں کے نہیں ہیں۔ چند انتظامی افسروں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انہیں نوکرویوں سے برخاست کر دینا چاہئے تاکہ باقی لوگوں کو عبرت حاصل ہو۔یہ لوگ مری اورآزادکشمیر تک آباد ہو گئے ہیں ۔مری کا علاقہ کرونا کی وجہ سے غیر مقامی اور سیاحوں کے لئے بند کیا گیا ہے۔ لیکن یہ غیر ملکی ہونے کے باوجود آج کل بھی مری اپنے خاندانوں کے ساتھ مری کے مال روڈ اور یگر علاقوں میں چہل قدمی کرتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ اور یہ اپنے بچوں کے ساتھ مختلف کاروباروں میں مصروف ہیں۔اب تو یہ لوگ آزاد کشمیر جیسے حساس خطہ میں بھی کاروبار کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ کسی قسم کی ہمدری کے مستحق نہیں ہیں پاکستان میں ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر انہی نے متعارف کرایا ہے اسکے علاوہ کئی دہائیوں سے یہ لوگ پاکستان کی کرنسی کی مارکیٹ سے بے حساب ڈالر خرید کر افغانستان سے دوبئی منتقل کر رہے ہیں اس بات کا علم FBR اور تمام اہم اداروں کو ہے۔ انکے اس فعل کی وجہ سے پاکستانی روپے کی قدر بھی بہت کم ہو چکی ہے۔
دیگر عوامل بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن آج تک ان لوگوں نے اربوں ڈالر پاکستانی مارکیٹ سے نکالا ہے۔انکا اسمگلنگ کا کام پورے ملک میں بڑے منظم طریقے سے چل رہا ہے جس میں انکو کسٹم حکام اور مقامی پولیس کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ پاکستانی تاجر قانونی طور پر مال درآمد کرکے انکا مقابلہ نہیں کر پا رہے ہیں۔ جسکی وجہ سے وہ اپنے کاروبار بند کرنے پر مجبور ہیں ان سارے حقائق اور اعداوشمار کے بعد یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ لوگ اور انکا ملک پاکستان کا دشمن نمبر ون ہے اور ان سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے۔