جوانوں کو پیروں کا استاد کر
صائمہ عبدالقدوس
نیشنل ہیومن ڈویلپمنٹ (NHDR) کی ایک رپورٹ جو 3مئی 2018 کو پیش کی گئی بتایا گیا کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں سرفہرست ہے جن میں نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا کہ پاکستان ایشائی ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے جس میں کل آبادی کا 64 فیصدحصہ 30 سال کے افراد پر مشتمل ہے جبکہ 29سے 15 سال کے افراد کل آبادی کا 29 فیصد ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ پاکستانی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔کسی ملک میں اتنی بڑی تعداد میں نوجوان ہونے کے باوجود اگر اسکا شمار ترقی یافتہ ممالک میں نہ ہو تو یہ ایک تشویش ناک صورتحال ہے۔ جسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ آج کا نوجوان اپنا تشخص کھو بیٹھا ہے۔ان کے پاس صلاحیتیں تو بہت ہیں مگر ان کو بروئے کار لانے کے لیے پلان نہیں۔ نوجوان طبقہ کیا سوچتا ہے ان کے جذباتی، نفسیاتی مسائل کیا ہیں اس جانب کسی کی توجہ نہیں۔ نوجوانوں کو اپنا مقام پہچاننے کی ضرورت ہے۔ آج کے نوجوان کی سرگرمیاں مویز دیکھنے، میوزک سننے ،سیلفیز،آﺅٹنگ اور سوشل میڈیا تک محدود ہوگئی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجیحات کا درست تعین کیا جائے۔ اقبال نے نوجوانوں کو جو شاہین کا خطاب دیا ہے ا س شاہین کی خصوصیات پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کے مسائل حل کرنے اور انہیں بہتر زندگی کی طرف گامزن کرنے کے لیے بہترین مواقع فراہم کیے جائیں۔ تعلیم کا مقصد متعین ہونا چاہیے۔ایمانداری اور دیانت ہی شعار ہونا چاہیے۔ اپنی اقدار کی قدرو قیمت سے نوجوانوں کو واقف ہونا چاہیے۔مستقل مزاجی سے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا اور موجودہ چیلنجز کا جوانمردی سے مقابلہ کرنا ہی وہ صفات ہیں جنہیں اپنا کر نوجوان ملک و ملت کی ترقی و بہتری کے لیے اپنا کردار بہتر طور پر ادا کر سکتے ہیں۔