پیر‘ 1439 ھ ‘ 13 اگست 2018ء
شہید شیرخان کے بھائی نے منظور پشتن کو مزار میں داخل ہونے سے روک دیا
اسے کہتے ہیں کرارا تھپڑ‘ جو ایک ملک دشمن کے منہ پر ایک شہید وطن کے محب وطن بھائی نے سب کے سامنے ایسا جڑا کہ وہ سر اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ صوابی میں کرنل شیرخان شہید نشان حیدر کے مزار پر وطن دشمن منظور پشتن اپنے ٹولے کے ساتھ داخل ہونے لگا تو اس وقت شہید شیرخان کا بھائی انور شیرخان تنہا تھا جبکہ منظور پشتن کے ساتھ اس کے غنڈوں کا ٹولہ تھا جو قیمتی گاڑیوں کے جھرمٹ میں آیا مگر وہاں شہید کے بھائی نے اسے داخل نہیں ہونے دیا اور کھری کھری سنا ڈالیں کہ میں سب جانتا ہوں تمہارے بارے میں‘ تم تو اپنے جلسوں میں پاکستانی پرچم لہرانے کی اجازت نہیں دیتے۔ افواج پاکستان کے خلاف بولتے ہو جو وزیرستان میں تمہارے جیسے شرپسندوں کے خلاف جانوںکی قربانی دیکر امن قائم کر رہی ہے۔ تم یہاں کیوں آئے ہو۔واپس جاﺅ ۔ شیر کی دھاڑ سن کر گیڈروں کا یہ ٹولہ دم دبائے وہاںسے بھاگ گیا۔ خوش نصیب ہے یہ ارض پاک جہاں آج بھی گیدڑوں کے غول سے نمٹنے کیلئے شہیدوں کے شیردل ورثاءزندہ ہیں۔ وزیرستان میں اگر آج امن ہے تو یہ انہی شہیدوں کی قربانیوں کا ثمر ہے ورنہ منظور پشتن جیسے زرخرید لوگ بیرونی آقاﺅں کے اشارے پر آج بھی اپنا مکروہ ایجنڈا پورا کرنے کے چکروں میں پھرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو زیادہ رعایت نہ دی جائے۔ یہ افغان اور بھارت کے ایجنٹ ہیں جو سادہ لوح نوجوانوںکو گمرہ کرتے ہیں۔ امید ہے منظور پشتن کو یہ کرارا تھپڑ ہمیشہ یاد رہے گا۔
٭....٭....٭....٭
خیبر پی کے کی طرز پر پنجاب پولیس میں اصلاحات کیلئے تیاری شروع
کرسی پر بیٹھنے والے کو کرسی خودبخود حکمرانی کے گُر سکھا دیتی ہے۔ متوقع نئے وزیراعظم عمران خان کو بھی لگتا ہے پتہ چل گیا ہے کہ پنجاب کو کنٹرول کرنا ہے تو پہلے وہاں کی پولیس کو نکیل ڈالنا ہوگی۔ سو اب انہوں نے راون کی لنکا میں ہاتھ ڈالنے کا سوچا ہے۔ اس کام کی نگرانی یا تیاری سابق پولیس افسر یعنی لنکا کے بھیدی شعیب سڈل کو سونپی ہے۔ پنجاب پولیس میں اصلاحات کا ڈول پہلے ہی کئی بار ڈالا گیا مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ نہ پولیس بدلی نہ تھانہ کلچر بدلا۔ صرف پنجاب ہی کیا‘ سندھ‘ بلوچستان جہاں بھی جائیں وہی جبر اور کرپشن کی ایسی ایسی داستانیں سننے کو‘ دیکھنے کو ملتی ہیں کہ زبان بیان کرنے سے قاصر ہے۔ خود خیبر پی کے میں تحریک انصاف والے پولیس میں بہتری کے دعویدار ہیں مگر سڑکوں پر‘ تھانوں میں جو تاریخ رقم ہو رہی ہے‘ وہ قصہ خوانی بازار کی کہانیوں سے الگ ہے۔ اب اگر خان صاحب واقعی پنجاب پولیس میں اصلاحات کر سکتے ہیں تو ضرور کریں۔ لاکھوں لوگ دعائیں دیں گے ورنہ ہر صوبے میں عام آدمی اس کالی وردی کی پھنکار سن کر ہی سہم جاتا ہے۔ خدا کرے خان صاحب پولیس اور تھانہ کلچر میں تبدیلی لانے میں کامیاب ہوں۔
چودھری نثار نے جو میرے ساتھ کیا ان کو میری بددعا لگی ہے: ڈاکٹر عاصم
اگر ڈاکٹر صاحب واقعی مستجاب الدعا ہیں تو پھر وہ اپنے لئے دعا کیوں نہیں کرتے کہ اگر ان پر اربوں روپے کرپشن کے جو الزامات لگے ہیں وہ جھوٹے ہیں تو خدا انہیں بری کر دے۔ مقام عبرت ہے اب کیسے کیسے مستجاب الدعا لوگ ہمارے معاشرے میں پیدا ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے اصول دعا پر اگر یقین کیا جائے تو پھر ایان علی ان سے بڑی مستجاب الدعا خاتون ہیں۔ ان کی تو تفتیش کرنے والا پولیس افسر بھی ان کی بددعا کا شکار ہو کر قتل ہوا ہو گا۔ یہ تو محکمہ پولیس کیلئے باعث رسوائی ہے کہ وہ مال کھا پی کر اپنے بھائی کے خون کا سودا کر بیٹھے۔ ورنہ ایان علی کی دعا پوری کرنے والے غیبی موکل بھی نظر آ جاتے اور آجا مورے بالما سے شرف ملاقات پا چکے ہوتے۔ چودھری نثار کی طرف سے جو کچھ کیا گیا وہ قانون کے مطابق تھا۔ اگر ڈاکٹر عاصم نے کچھ نہیں کیا پھر واقعی کہہ سکتے ہیں کہ ان کی بددعا نثار صاحب کو لگی ہو گی۔ ویسے یہ جو اربوں کی کرپشن ہے اس سے لاکھوں غریب ہی تو متاثر ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں غریب اور مظلوم کی آہ عرش کوہلا دیتی ہے کیا پتہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے دیگرساتھی بھی کسی مظلوم کی آہ کا ہی شکار ہو کر آج اس مقام پر پہنچے ہوں۔
٭....٭....٭....٭
چائے والا ایم این اے کروڑ پتی نکلا
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا، کیسے کیسے خیالات لوگوں نے ذہن میں سجا لیے تھے کہ ایک عام طبقے کا چائے والا ایم این اے بنے گا تو اپنے حلقے اور طبقے کے مسائل حل کرے گا ، یہاں تو معاملہ ہی الٹ نکلا یہ چائے ولا تو ڈرامے باز نکلا۔ موصوف صرف چائے کی پتی نہیں کروڑوں پتی ہے ، ایسا شخص کسی کے کیا مسائل حل کرائے گا جو دو نمبری کرکے شہرت حاصل کرنا چاہتا ہو، بھارت سے لاکھ اختلاف مودی کو ہم لاکھ موذی کہیں مگر وہ حقیقت میں ایک چائے والا ویٹر تھا اس نے کبھی اپنی حقیقت نہیں چھپائی وہ تو آج بھی امریکی یا کوئی غیر ملکی صدر آئے اسے اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر پیش کرکے پھانس لیتا ہے ، مگر کم از کم وہ دو نمبری کرکے اپنی اوقات تو نہیں چھپاتا۔
اس چائے والے ایم این اے سے وہ چائے والا لڑکا اچھا ہے جو ماڈل بن گیا مگر اپنی شہرت وہی چائے والی تصویر کو ہی قرار دیتاہے۔ دولت مند ہونا بری بات نہیں بس جائز و ناجائز کی بات ہے ایک مخصوص طبقے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پیسہ تو ان کے پاس بھی بہت ہے مگر عزت و حرمت نہیں ، اس طرح اب تو پیسے کی ہوس نے لوگوں کو نجانے کیا سے کیا بنا دیا ہے، سیاست پہلے عبادت کہلاتی تھی اب پیشہ بن رہی ہے۔ یہاں
اب کسی پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے سب دھوکہ دیتے نظر آتے ہیں جیسے یہ چائے والا کروڑ پتی۔
٭....٭....٭....٭