نئی حکومت کی تشکیل کی جانب ایک اہم مرحلہ مکمل
الیکشن کمشن نے عام انتخابات 2018ءکا آخری مرحلہ مکمل کرتے ہوئے، قومی اسمبلی کے 221 نومنتخب اراکین قومی اسمبلی کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ خواتین اور غیر مسلم نشستوں کا بھی نوٹیفکیشن جاری ہو گیا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی بعض نشستوں پر اب ضمنی انتخابات ہوں گے۔ یہ وہ نشستیں ہیں جو ایک سے زائد نشستوں پر کامیاب ہونے والے امیدواروں نے خالی کی ہیں۔ ان میں وہ نشستیں بھی شامل ہیں جن پر کسی امیدوار کی فوتیدگی یا کسی اور وجہ سے الیکشن ملتوی کرنا پڑا۔
الیکشن کمشن کے نوٹیفکیشن کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک انصاف 158‘ مسلم لیگ82‘ پیپلزپارٹی 52 اور ایم ایم اے کے 15 ارکان ہو گئے۔ پنجاب اسمبلی میں پی ٹی آئی 177‘ مسلم لیگ (ن) 160 نشستیں حاصل کر سکی۔ پنجاب اسمبلی کے بیشتر ارکان یعنی 23 نے تحریک انصاف اور ایک نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ قومی اسمبلی میں 4 آزاد امیدواروں نے اپنی الگ شناخت برقرار رکھی ہے۔ پنجاب اسمبلی کا اجلاس بدھ کو طلب کر لیا گیا ہے۔ وزارت عظمیٰ کیلئے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے رہنما یوسف رضا گیلانی نے تاہم ملاقات کی اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا۔ سندھ کے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ اور گورنر عمران اسماعیل نامزد کر دیئے گئے۔ انتخابات کے بعد حکومت بنانے کیلئے تحریک انصاف نے آزاد ارکان اور چھوٹی پارٹیوں کی حمائت حاصل کرنے کیلئے غیرمعمولی جدوجہد کی۔ دراصل اس قسم کی بھاگ دوڑ اور جوڑتوڑ جمہوری عمل کا حصہ ہے‘ لیکن عموماً آزاد ارکان اور خصوصاً صوبائی اسمبلیوں کے ممبرز‘ ایسی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جاتے ہیں جس کی مرکز میں حکومت بننے والی ہو۔ الیکشن کمشن کے نوٹیفکیشن کے بعد حتمی انتخابات کے نتائج جو بھی ہوں‘ واضح ہو چکا ہے کہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو مرکز‘ پنجاب اور بلوچستان میں حکومت بنانے کیلئے مطلوبہ اکثریت مل گئی ہے۔ خیبر پی کے میں تحریک انصاف اور سندھ میں پیپلزپارٹی کو پہلے ہی برتری حاصل ہے۔ اب آئندہ ہفتے عشرے میں مرکز اور صوبوں میں حکومتیں تشکیل پا جائیں گی اور یوں جمہوریت کا قافلہ رواں دواں ہو جائے گا۔ خوشی ہے کہ جمہوری عمل خوش اسلوبی سے مکمل ہو رہا ہے، البتہ اپوزیشن جماعتوں کے تحفظات دور ہونے چاہئیں۔ مرکز اور پنجاب میں حکمرانوںکو اسمبلیوں میں بھاری بھرکم اپوزیشن سے واسطہ پڑے گا۔ ایوان بالا میں پہلے ہی اپوزیشن (جس میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی وغیرہ) کو اکثریت حاصل ہے۔ تحریک انصاف کا اب اصل امتحان شروع ہوگا۔ اگرچہ حکومت کو تحریک عدم اعتماد کے جھٹکوں سے بھی واسطہ پڑ سکتاہے‘ لیکن قائدحزب اقتدار (عمران خان) کی مضبوط شخصیت کی موجودگی میں یہ جھٹکے حکومت کو جھنجھوڑ تو سکیں گے‘ لیکن دراڑیں نہیں ڈال سکیں گے اور نہ ہی حکومت کے زمین بوس ہونے کا خدشہ ہے۔ مولانا فضل الرحمن انتخابات پر تحفظات کے معاملے کو سڑکوں کی بجائے پارلیمنٹ کے اندر حل ہونے دیں۔ حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کے دو بنیادی ستون ہیں، اگر دونوں نے قومی خدمت کے جذبے کے تحت آئین کے اندر رہ کر کردار ادا کیا اور عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے پر توجہ مرکوز کی تو زیر تشکیل سیٹ اپ ماضی کی حکومتوں کے مقابلے میں ملک و قوم کیلئے کہیں زیادہ سود مند ہوسکتا ہے۔ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ انہیں 5 سال بعد عوام کا پھر سامنا کرنا ہوگا۔ 23ءکے انتخابات میں ان کے ”اعمال“ ہی کام آئیں گے۔ اپوزیشن پر لازم ہے کہ حکومت کو چلنے دے۔ غیر ضروری رکاوٹیں کھڑی نہ کرے۔ جن پارٹیوں کو مینڈیٹ ملا ہے‘ اس کا احترام ضروری ہے۔ حکومت بھی اپوزیشن کو اس کا جائز مقام و مرتبہ دینے میں فیاضی کا مظاہرہ کرے۔