سیاسی باتیں تو ہم سنتے رہتے ہیں کبھی کبھی سیاستدان نجانے کس طرح کوئی تخلیقی جملہ بدلتے ہیں۔ حمزہ شہباز نے کہا کہ ”اسمبلی کا اجلاس ہونے دوہر کرسی سے آواز آئے گی کہ 25 جولائی کو الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے“ صرف چار حلقے کھولنے کا مطالبہ عمران خان نے کیا تھا جو نہ مانا گیا تو اب سارے حلقے کیوں کھولے جائیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ دھاندلی کس کے لئے کی گئی ہے۔ کوئی بتائے کہ اس الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی۔ دھاندلی ہمیشہ حکومتی پارٹی کے لئے ہوتی ہے۔ نیب کا چیئرمین الیکشن کمشنر اور سارا چھوٹا بڑا عملہ حکومتی پارٹی کی طرف سے لگایا گیا ہو اور دھاندلی ایک اپوزیشن پارٹی کے حق میں ہوئی۔
اب دھاندلی کا الزام لگایا جا رہاہے کہ عمران خان وزیر اعظم نہ بن سکے۔ اس پر پیشن گوئی کے ماہر سیاستدان منظور وسان نے بیان دیا ہے بلکہ پیشن گوئی کی ہے کہ نئی حکومت اڑھائی سال بھی نہیں چلے گی۔ اس کے بعد بھی منظور وسان کی حکومت نہیں آئے گی....؟
یعنی ابھی نئے الیکشن کی تیاریاں کی جائیں جو لوگ ہمیشہ دھاندلی کا شور مچاتے ہیں، دوبارہ الیکشن ہوں اور وہ پھر بھی ہار جائیں تو اُن کو نااہل کر دیا جائے اور پھر ایک سوال بڑا اہم ہے کہ اربوں روپے الیکشن پر خرچ ہوتے ہیں۔ ان میں حصہ ان لوگوں کا بھی ہونا چاہئے کہ جو دوسرے الیکشن میں ہار جائیں۔ میرا خیال ہے کہ صرف پاکستان کے ہر الیکشن میں دھاندلی کا شور اٹھتا ہے۔ وہ یہ تو بتائیں کہ سندھ میں دھاندلی کیوں نہیں ہوئی۔ دھاندلی صرف نون لیگ کے خلاف کیوں ہوئی۔ دھاندلی کا شور مچانے والے جیت کیسے گئے اور اگر دوبارہ الیکشن میں وہ ہار آگے تو پھر کیا ہو گا۔
میں حیران ہوں کہ برادرم لطیف کھوسہ دھاندلی کا شور مچا رہے ہیں۔ مگر یہ لوگ تحریک انصاف کا نام نہیں لیتے۔ اسٹیبلشمنٹ کانام نہیں لیتے۔ یہ تو بزدلانہ رویہ ہے۔
شہباز شریف بہت بڑے سیاستدان ہیں انہوں نے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں تمام عہدوں کے لئے لوگ نامزد کر دئیے ہیں۔ حمزہ شہباز کو دونوں صورتحال کے لئے تیار کر لیا گیا ہے۔ کامران کہتے ہیں کہ نون لیگ نے فرض کر لیا ہے اپوزیشن لیڈر اور وزیر اعلیٰ کہ حکومت تحریک انصاف بنائے گی۔
صدر زرداری البتہ دھاندلی کے حوالے سے نہیں بولے۔ اس طرح کچھ کچھ بولے ہیں کہ بات درمیان میں ہی رہ گئی ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ حکومت تحریک انصاف کی ہوئی تو وہ نون لیگ کے خلاف ہو گی۔ پیپلز پارٹی کا رویہ پُراسرار ہے اور یہ اصلی سیاستدان کا رویہ ہے۔
مجھے ایک کالم نگار کے طور پر ابھی نمبر گیم کی سمجھ نہیں آئی، گیم تو کھیل ہے تو کیا سیاست بھی کھیل ہے۔ میں بہت احترام سے کہوں گا کہ لوگوں کے ساتھ زیادہ کھلواڑ نہ کیا جائے۔ ایک غمزدہ سوال کہ کیا پاکستانی سیاست اور قوم سے کھلواڑ ایک ہی شے ہے؟
کمپلیکس فری اور بہادر خاتون جگنو محسن نے بہت دلچسپ اور گہری بات کی ہے۔ مجھے لوگوں نے آزاد امیدوار کے طور پر منتخب کیا۔ انہوں نے صاف کہا کہ میں کوئی پارٹی جائن نہیں کروں گی اور اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھوں گی کیونکہ لوگوں نے مجھے اسی حیثیت میں ووٹ دئیے ہیں۔
33 سال سے ہمارے لوگ اقتداری سیاست کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ یہ پارٹیوں والے سیاستدان کچھ کر نہیں سکتے۔ انہیں کچھ کرنے ہی نہیں دیاجاتا۔ میں اپنے آزاد مینڈیٹ کی پاسداری کروں گی۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آزاد پارٹی کا قیام عمل میں آ جائے۔
متوقع وزیر اعظم کی طرف سے یہ اعلان کہ میں وزیر اعظم ہاﺅس میں نہیں رہوں گا۔ یہ سیاسی تاریخ میں ایک واضح تبدیلی ہے۔ سیاستدان خورشید شاہ نے کہا اپوزیشن لیڈر کے لئے یہ بات کہ وہ غور کریں۔ اپوزیشن کا الف گرا دیا جائے تو پوزیشن رہ جاتی ہے تو یہ لوگ اپوزیشن میں بھی اپنی پوزیشن بناتے رہتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024