عبدالغفور چوھان
(جنرل سیکرٹری انجمن اسلامیہ شہر انبالہ اقبال کالونی سرگودہا)
میرا نام عبدالغفور چوھان ہے۔میں 1932ء میں انبالہ شہر (انڈیا) میں پیدا ہوا۔شہر انبالہ محتاج تعارف نہیں۔ یہاں کے مسلمانوں نے تحریک آزادی میں جو قربانیاں دیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ تحریک پاکستان کے گم نام کارکنان اس خطہ کی پہچان ہیں۔ انبالہ شہر کوہ ہمالیہ کے دامن میں ایک نہایت ہی خوبصورت شہر ہے۔ ان دنوں قائد اعظم محمد علی جناح ہی ایک ایسے لیڈر کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے جن کی ولولہ انگیز قیادت نے مسلمانوں کے عروق مردہ میں جان ڈال دی تھی۔ لوگ قائد اعظم محمد علی جناح کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے دور دراز کے طویل سفر کر کے جلسوں میں پہنچتے۔ انکی تقریر سنتے تو دل جذبہ ایمانی سے جھوم اٹھتے۔ قائد اعظم محمد علی جناح جب بھی شملہ گول میز کانفرنس میں جاتے اور ہمیں پتہ چلتا کہ قائد اعظم محمد علی جناح شملہ جا رہے ہیں تو ہم سکول سے چھٹی لیتے اور دھور کوٹ سٹیشن کی طرف بھاگتے۔انھیں دیکھنے کی خواہش اتنی زیادہ ہوتی کہ راستے کی ہر رکاوٹ کو عبور کر جاتے۔ ہر قسم کی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح کو دیکھتے۔ اور پھر دیکھتے ہی رہ جاتے کیونکہ وہ مسلمانوں کے حق کیلئے لڑ رہے تھے۔ وہ ہندوستان کے مسلمانوں کی آواز بن چکے تھے۔ وہ ہر مسلمان کے دل میں دھڑک رہے تھے۔ قائد اعظم نے نوجوانوں کو ایک ولولہ تازہ سے آشکار کر دیا تھا۔ دھور کوٹ اسٹیشن تک پہنچنا اور پھر راستے کی دھول کی خوشبو آج بھی مجھے یاد ہے۔ وہ دھول مجھے سونے چاندی سے بھی زیادہ قیمتی محسوس ہوتی ہے۔ شملہ کا واحد راستہ انبالہ شہر سے ہوکر جاتا ہے تو ہم قائداعظم کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے دھور کوٹ سٹیشن کی طرف بھاگتے تھے۔ مجھے یہ فخر حاصل ہے کہ میری آنکھوں نے قائد کو کئی بار دیکھا۔ پھر ان کا ادنیٰ سا سپاہی بن کر تحریک آزادی میں کام کیا۔ وہ لمحے میری زندگی کا حاصل ہیں۔ وہ لمحے لوٹ کر تو نہیں آسکتے مگر میں ان کی یادوں کے سہارے ہی زندہ ہوں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ہم لوگ قائد اعظم کو دیکھتے تو خوشی سے رات بھر نیند نہ آتی۔ انکی شخصیت کا سحرہمیشہ ذہن پر تازہ رہتا۔ ، انکی آنکھوں میں امید کے دئیے روشن رہتے وہ بہت ہی پر امید اور رجائیت پسند تھے۔ مایوسی تو انھیں چھو کر بھی نہ گزری تھی۔ قائد اعظم محمد علی جناح ایسے لیڈر تھے جو دنیا کا نقشہ بدل دیتے ہیں۔ جو سوئے ہوئے مسلمانوں میں ایک ولولہ پیدا کر دیتے ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی ولولہ انگیز قیادت نے برعظیم پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ ان کی سیاسی بصیرت کے سبھی قائل تھے۔ جس قوم کو بھی قائد اعظم محمد علی جناح جیسا لیڈ ر ملتا ہے وہ قوم بڑی خوش قسمت ہوتی ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں محمد علی جناح جیسا نڈر ، بیباک اور جواں ہمتوں کا حامل رہنما ملا۔ 1946ء کے الیکشن میں سردار شوکت حیات خان انبالہ کی سیٹ سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ وہ کئی بار انبالہ شہر آئے اور ہمیں مسلم لیگ نیشنل گارڈ میں شمولیت کی دعوت دی تو ہم سہروردی ایڈووکیٹ کے گھر پر اکٹھے ہوئے۔ وہ منظر بھی بڑا ہی دیدنی تھا مسلم نوجوان جذبہ ملی سے سرشار ، اور جوش و جذبے کیساتھ اس میں شریک ہوئے ہر کوئی ایک دوسرے سے بازی لے جانا چاہتا تھا۔ عہد نامہ بھرنے کے بعد اپنے خون سے دستخط کیے کہ ہم مسلم لیگ کے وفادار رہیں گے۔الیکشن کے دنوں میں ہم نے دن رات کام کیا۔ گھر گھر جا کر الیکشن مہم چلائی۔ معلوم نہیں ہمارے اندر کیا جذبہ امڈ آیا تھا کہ تھکاوٹ کے باوجود مزید کام کرتے رہنے کا جنون سوار تھا۔ کوئی نوجوان بیمار بھی ہوتا تو بھی اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا۔ الیکشن میں مسلم لیگ بھاری اکثریت سے جیت گئی اس وقت پنجاب میں یونیسٹوں کی حکومت تھی اور خضر حیات ٹوانہ چیف منسٹر تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے حکم پر خضر وزارت کیخلاف تحریک چلی جس میں ہم لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔قائداعظم محمد علی جناح کے حکم کی تعمیل کیلئے ہم نوجوانوں نے اس تحریک کو فعال بنایا اور خضر وزارت کیخلاف بھرپور جدوجہد کا مظاہرہ کیا۔ ہمارا نعرہ تھا خضر وزارت توڑ دو‘ بن کر ر ہے گا پاکستان‘ لے کر رہیں گے پاکستان‘ ان جلوسوں میں ہم نے طرح طرح کی صعوبتیں برداشت کیں۔کئی بار ہمیں جیلوں کی ہوا بھی کھانا پڑی اور شہر سے دور دراز علاقوں میں پولیس چھوڑ کرچلی آتی رہی جہاں سے ہم سینکڑوں میل کا سفر پیدل طے کر کے واپس آتے۔ لیکن ہم نے پھر بھی خضر وزارت کے خلاف اپنی مہم کو جاری و ساری رکھا۔نوجوان جب کسی بات کا تہیہ کر لیتے تو وہ کبھی پیچھے نہ ہٹتے یہی وجہ تھی کہ ہم نے ہر قسم کی تکلیفوں کو برداشت کیا ، پولیس کے تشدد کا نشانہ بھی بنے ، لاٹھی چارج بھی ہوا ، جیلوں میں بند بھی کیا گیا ، مگر ہم نے خضر وزارت کو توڑ کر دم لیا اور مسلم لیگ کا پیغام گلی گلی کوچہ کوچہ سبز ہلالی جھنڈیاں اٹھا کر یہی نعرے بلند کیے۔۔۔ بن کر رہے گا پاکستان‘ لے کر رہیں گے پاکستان۔۔۔ کے نعرے لگاتے ہوئے جلوس نکالے۔ دیکھا جائے تو میں سمجھتا ہوں’’ پاکستان‘‘ طالب علموں اور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کی ہی کوششوں کا ثمر ہے۔ پاکستان بنتے تک میں ان تمام حالات کا عینی شاہد ہوں اور پھر انبالہ سے ہجرت کر کے آگ و خون کے دریا کو عبور کر کے کس طرح پاکستان پہنچے وہ ہمیں آج تک یاد ہے۔ ہندوستان سے آنیوالے قافلوں کو لوٹا جا رہا تھا۔ مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا ہر طرف خون ہی خون اور لاشیں ہی لاشیں دکھائی دیتیں۔ مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا جا رہا تھا۔ بچوں کو نیزوں کی انیوں پر پرو دیا جاتا۔ عورتوں کی عصمتوں کو لوٹا گیا لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا،ٹرینوں کے بوگیاں بھی خون سے سرخ تھیں۔اپنا گھر بار ، کاروبار ، جائیدادیں چھوڑ کر بڑی ہی مشکلوں سے جان بچا کر اکتوبر 1947ء میں ہم سرگودہا پہنچے۔ ہجرت کے درد ناک منظر آج بھی یاد آتے ہیں تو دل دھڑک اٹھتا ہے۔ میری ان آنکھوں نے پاکستان کو نہ صر ف بنتے دیکھا ہے بلکہ قیام پاکستان سے لیکر اب تک کے تمام حالات و واقعات کابھی عینی شاہد ہوں کہ ہمارا پیارا ملک کن کن ادوار سے گزرا۔میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس پاک وطن کو تاقیامت قائم و آباد رکھے۔ آج کے پاکستان کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اگر ہم قائد اعظم محمد علی جناح کے اصولوں اتحاد‘ تنظیم‘ یقین محکم پر چلتے تو ہم کبھی بھی ان حالات سے دوچار نہ ہوتے۔ اللہ ہمارے ملک کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024