انتخابی دھاندلی کے الزامات‘ وزیراعظم نے سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمشن کا اعلان کر دیا
اسلام آباد ( نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) وزیر اعظم محمد نواز شریف نے انتخابات 2013ء میں دھاندلی کے الزامات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک کمیشن قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو انارکی پھیلانے اور آئین سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ جتھہ بندیوں کے ذریعے نظام کو یرغمال بنا لے۔ ہم پاکستان کو ایسا جنگل نہیں بننے دیں گے جہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا نظام چلنے لگے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر ہنگامہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کو کروڑوں عوام کا مینڈیٹ یرغمال نہیں بنانے دیں گے۔ ہمارے دروازے ہر سیاسی، آئینی ، قانونی اور قومی معاملے میں اصلاح احوال کیلئے کھلے ہیں۔ ملکی سیاسی قیادت سے مشاورت اور ہر طرح کی بات چیت اور مذاکرات کیلئے آج بھی تیار ہوں۔ یہاں کسی کی بادشاہت ہے نہ آمریت۔ ہمارا ایمان ہے کہ بادشاہی اور حاکمیت صرف اللہ تعالیٰ کی ہے۔ وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار گذشتہ شب ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ وزیراعظم نے کہا کہ بدقسمتی سے ہمارا ماضی اسی طرح کے عدم استحکام اور سیاسی انتشار کا شکار رہا جس کی ہم بہت بھاری قیمت ادا کر چکے ہیں۔ ہماری ہم عمر قومیں ہم سے کہیں زیادہ توانا، کہیں زیادہ ترقی یافتہ اور کہیں زیادہ خوش حال ہو چکی ہیں۔ آپ ساری دنیا پر نظر ڈالئے صرف انہی ملکوں نے ترقی و خوشحالی کی منزل پائی جہاں سیاسی استحکام رہا، تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں کوئی رکاوٹ نہیں پڑی۔ یوم ِآزادی کا استقبال کرتے وقت ہمیں اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہئے کہ کون سی خرابیاں ہمیں منزل سے دور کر رہی ہیںاور کون سے کھوکھلے نعرے ہمیں غربت اور پسماندگی سے نکلنے نہیں دے رہے۔ اللہ کے فضل سے آج وطن عزیز جمہوریت کی راہ پر چل رہا ہے۔ تمام ریاستی ادارے آئین کے مطابق کام کر رہے ہیں۔ عوام کے منتخب نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کام کر رہی ہے۔ ہماری عدلیہ پوری قوت کے ساتھ آئین اور جمہوریت کی پُشت پر کھڑی ہے۔ گذشتہ سال پہلی بار ایک منتخب جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ نے اپنی آئینی میعاد پوری کی۔ انتقالِ اقتدار کا مرحلہ خُوش اسلُوبی سے طے ہوا۔ اِسی سیاسی بلوغت کا نتیجہ تھا کہ 2013ء کے انتخابات کے بعد ہر سطح پر عوامی مینڈیٹ کو تسلیم کیا گیا۔ ہم نے خیبر پی کے اور بلوچستان میں حکومت سازی کے لئے نئی جمہوری روایات کی بنیاد ڈالی۔ آزاد کشمیر میں بھی مثبت کردار ادا کیا۔ تمام حکومتیں پوری یکسوئی کے ساتھ کام کر رہی ہیں تاکہ 2018ء میں عوام اِس کارکردگی کے پیمانے پر اپنا فیصلہ کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جون 2013ء میں ہم نے حکومت سنبھالی تو وطنِ عزیز ہر شعبے میں شدید مشکلات اور بحرانوں میں گھرا ہو ا تھا۔ ہم نے اس صورت حال کو ایک چیلنج سمجھ کر قبول کر لیا۔ سالوں کا کام مہینوں اور مہینوں کا دنوں میں کرنے کا عزم کیا۔ میں یہ دعوٰی تو نہیں کرتا کہ ہماری حکومت نے کوئی معجزہ کر دکھایا ہے لیکن میں یہ بات پورے یقین اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ گذشتہ چودہ (14) ماہ کے دوران پاکستان آگے ضرور بڑھا ہے۔ انفراسٹرکچر کے نئے عظیم الشان منصوبوں، قومی معیشت کی بہتری، بیرونی سرمایہ کاروں کے بھرپور اعتماد، مجموعی قومی پیداوار کی شرح میں اضافے، روپے کے استحکام، برآمدات میں اضافے، سٹاک ایکسچینج کی مضبوطی اور متعدد دوسرے اقدامات کی وجہ سے ملک نہ صرف بحرانوں کی دلدل سے نکل رہا ہے بلکہ ایک روشن، پُرامن اور ترقی و خوشحالی سے ہمکنار پاکستان کی منزلِ مُراد کی طرف گامزن بھی ہو چُکا ہے۔ دس ہزار چار سو میگا واٹ بجلی کے نئے منصوبے پر بیرونی سرمایہ کاری کا معاہدہ طے پا گیا ہے اسکے علاوہ تربیلا اور منگلا کے کئی برسوں بعد ہم بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز کر رہے ہیں جو پاکستان کا سب سے بڑا ڈیم ہو گا جس سے 4500 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ اتنی ہی بجلی پیدا کرنے والے داسو ڈیم کی بنیادیں بھی رکھ دی گئی ہیں۔ 2200 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے پاکستان کے سب سے بڑے ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر بھی شروع ہو چکی ہے۔ کراچی سے لاہور تک موٹروے کی تعمیر کا آغاز ہونے کو ہے۔ خنجراب سے گوادر تک اقتصادی راہداری سے انشاء اللہ معاشی ترقی کی نئی راہیں کھلیں گی۔ ہماری پوری تاریخ میں اتنے بڑے بڑے منصوبے اس تیز رفتاری کے ساتھ کبھی نہیں لگے۔ وزیر اعظم نے کہاکہ ایک طرف ہم ماضی کی خرابیوں اور کمزوریوں سے نجات حاصل کر کے تعمیر و ترقی اور امن و خوش حالی کی نئی راہوں پر سفر کا آغاز کر چُکے ہیں۔ دوسری طرف عین اِس وقت کچھ عناصر کھوکھلے نعروں کی بنیاد پر احتجاجی سیاست کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ ایک عرصے سے پسماندگی کے اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی اِس قوم کو یہ پوچھنے کا حق ہے کہ یہ احتجاج کِس لئے ہے؟ اِن ہنگاموں، اِن فسادات، اِن فتنوں کا مقصدکیا ہے؟ اٹھارہ کروڑ پاکستانیوں کو بتایا جائے کہ کیا یہ احتجاج اس وجہ سے ہو رہا ہے۔ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ 2002ء اور 2008ء کے انتخابات کس ماحول میں ہوئے اور وہ کس حد تک منصفانہ تھے۔ ہمیں سات برس ملک میں نہیں آنے دیا گیا۔ 2002ء کے انتخابات مسلم لیگ (ن) نے ہماری جلاوطنی کے دوران لڑے اور اسے ڈیڑھ درجن نشستوں تک محدود کر دیا گیا۔ ہم نے پھر بھی اپنا جمہوری کردار پوری ثابت قدمی سے ادا کیا۔ 2008ء کے انتخابات کے لئے میرے اور شہباز شریف کے کاغذات مسترد کرتے ہوئے اُنہیں نااہل قرار دے دیا گیا۔ ہم نے پھر بھی پورے صبر و تحمل کے ساتھ انتخابی مہم چلائی اور پارلیمنٹ کے اندر رہتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا۔ 2013ء کے انتخابات پہلی بار اتفاق رائے سے چنے گئے چیف الیکشن کمشنر کی نگرانی میں ہوئے۔ یہ انتخابات پہلی بار نئی آئینی ترمیم کی روشنی میں قائم ہونے والی حکومتوں کی نگرانی میں ہوئے۔ پہلی بار انتخابی فہرستوں کی بھرپور جانچ پڑتال ہوئی۔ پہلی بار ایسی انتخابی فہرستوں سے کام لیا گیا جن میں ہر ووٹر کی تصویر بھی موجود تھی۔ پہلی بار نادرا کے کمپیوٹرائزڈ کارڈز کو ووٹر کے لئے ضروری قرار دیا گیا۔ آج الزام تراشیاں کرنے والوں ہی کے مطالبے پر عدالت عظمٰی نے خاص طور پر اجازت دی کہ جج صاحبان ریٹرننگ افسران کے فرائض سر انجام دیں گے۔ ان حکومتوں میں مرکزی اور صوبائی سطح پر مسلم لیگ (ن)کا نامزد کردہ کوئی نمائندہ موجود نہ تھا۔ پہلی بار پولنگ سٹیشن پر ہی تصدیق شدہ نتیجہ ہر پولنگ ایجنٹ کو دینے کے ضابطے پر سختی سے عمل کیا گیا۔ ایک سو کے لگ بھگ ملکی اور غیر ملکی ٹیلی ویژن چینلز اور صحافیوں نے انتخابی عمل کی کوریج کی اور دو سو کے لگ بھگ ملکی و غیر ملکی مبصرین نے نگرانی کے فرائض سر انجام دیئے۔ ان تمام مبصرین کی اجتماعی رائے ایک ہی ہے کہ انتخابات کا عمل شفاف، بے لاگ اور منصفانہ تھا۔ کسی ایک بھی ملکی یا غیر ملکی مبصر نے نہیں کہا کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا ایسا کچھ ہوا کہ جیتنے والے ہار گئے اور ہارنے والے جیت گئے۔ یہاں تک کہا گیا کہ بعض معمولی شکایات کے باوجود یہ ملکی تاریخ کے سب سے شفاف انتخابات تھے۔ انتخابی نتائج ، رائے عامہ کے ان جائزوں کے عین مطابق نکلے جن کا اہتمام مستند غیرملکی اور ملکی اداروں نے کیا تھا۔ معاملات کو تیزی سے نبٹانے کے لئے خصوصی ٹربیونلز بنائے گئے جنہوں نے ماضی کی نسبت کہیں تیزی سے کام کیا۔ چار سو سے زائد پیٹیشنز میں سے 75فیصد کے لگ بھگ نبٹائی جا چکی ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جہاں تک انتخابی اصلاحات کا تعلق ہے، یہ معاملہ ہماری جماعت کے منشور کا حصہ ہے۔ اِسی مقصد کے لئے میں نے سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو خط لکھا تھا کہ دونوں معزز ایوانوں پر مشتمل ایک پارلیمانی کمیٹی قائم کر دی جائے جو وسیع تر، بنیادی اور موثر انتخابی اصلاحات کا ایک جامع نقشہ تجویز کرے۔ مجھے خوشی ہے کہ تمام پارلیمانی جماعتوںکے 33ارکان پر مشتمل یہ کمیٹی قائم ہو چُکی ہے اور اِس نے اپنا کام شروع کر دیا ہے۔ حکومت اس کمیٹی کی متفقہ سفارشات پر پورے صدقِ دل سے عمل کرے گی۔ اس مقصد کے لئے قانون بدلنا پڑا تو بدلیں گے۔ آئین میں ترمیم کرناپڑی تو کریں گے۔ الیکشن کمشن اور نگران حکومتوں کا ڈھانچہ بدلنا پڑا تو بدلیں گے۔ ہماری آنے والی نسلیں بھی پارلیمنٹ کے اِس تاریخ سازکردار کو یاد رکھیں گی۔ انشاء اللہ 2018ء کے انتخابات انہی اصلاحات کی روشنی میں ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے سیاسی جمہوری سفر کے دوران جتنی بھی اصلاحات کی ہیں، اُن سب کا سہرا عوامی نمائندوں پر مشتمل پارلیمنٹ کے سر رہا ہے۔ آئندہ بھی ہر آئینی ترمیم اور ہر قانون سازی پارلیمنٹ ہی کرے گی۔ اصلاحات کی منزل کو جانے والے سارے راستے پارلیمنٹ کے ایوانوں ہی سے گذریں گے۔ ہم نے آزادی بڑی قربانیوں سے حاصل کی ہے۔ ہم سب نے جمہوریت کے لئے بھی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پارلیمنٹ، پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ اس پارلیمنٹ کی موجودگی میں فیصلے سڑکوں، چوراہوں اور میدانوں میں کئے جانے لگیں۔ اللہ کے فضل سے اب یہاں کسی کی بادشاہت ہے نہ آمریت۔ بادشاہت سے ہم نے اڑسٹھ (68) برس پہلے نجات حاصل کر لی تھی۔ ہمارا ایمان ہے اور ہمارے آئین میں بھی لکھا ہے کہ بادشاہی اور حاکمیت اعلی صرف اللہ تعالی کی ہے اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے عوام اللہ کی اس حاکمیت کے نائب ہیں۔ بعض محترم رہنمائوں کی پیش رفت پر میں نے کھلے دل کے ساتھ معاملات کو بات چیت سے حل کرنے پر آمادگی ظاہر کی اور اُن کی تجاویز بھی تسلیم کر لیں۔ میں اب بھی ایسی ہر کوشش کو خوش آمدید کہوں گا۔ پاکستان کی سلامتی و استحکام اور اٹھارہ کروڑ عوام کی تقدیر بدلنے کے لئے کسی انا کو رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔ آئینی اور قانونی دائروں کے اندر رہتے ہوئے پُر امن احتجاج کے حق کا احترام کرتے ہیں۔ میں یہ بات بھی واضح کردوں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان، ایک مہذب ریاست ہے۔ اپنا آئین ، اپنا قانون اور اپنا جمہوری نظام رکھنے والی ریاست ۔ انشاء اللہ ہم پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کی حمایت سے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئینی جمہوری تشخص پر آنچ نہیں آنے دیںگے۔ کسی کو انارکی پھیلانے اور آئین سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ کسی کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ جتھہ بندیوں کے ذریعے ریاستی نظام کو یرغمال بنا لے۔ کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ کھلے عام قتل و غارت گری کا درس دے۔ کسی کو اجازت نہیں دی جائے گی کہ مذہب کی آڑ میں لوگوں کو دوسروں کی گردنیں کاٹنے پر اُکسائے۔ انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ لڑنے والی قوم کسی نئے عنوان سے فتنہ و فساد اور خانہ جنگی کی اجازت نہیں دے گی۔ کسی فسادی ٹولے کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ توانائی، انفراسٹکچر اور قومی خوشحالی و ترقی کے لئے شروع کئے گئے اربوں ڈالر کے منصوبوں کو کھنڈر بنا کر قوم کو پھر سے غربت اور پسماندگی کے اندھیروں میں دھکیل دے۔ سڑکوں اور چوراہوں پر ہنگامہ کرنے والے مٹھی بھر عناصر کو کروڑوں عوام کا مینڈیٹ یرغمال نہیں بنانے دیں گے۔ میں کچھ گذارشات میڈ یا کے دوستوں سے بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ہمارے میڈیا نے جمہوریت کی سربلندی، اظہارِ رائے کی آزادی اور عدلیہ کی بحالی کے لئے تاریخ سازکردار ادا کیا ہے۔ مقدس مشن کے لئے صحافیوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ پوری قوم ان کے اس کردار کو تحسین کی نظر سے دیکھتی ہے لیکن میں اس موقع پر یہ گذارش کر نا چاہتا ہوں کہ میڈیا موجودہ سیاسی ہلچل کے حوالے سے اپنے کردار کا ضرور جائزہ لے۔ وہ خود فیصلہ کرے کے میڈیا کی آزادی کو کچھ عناصر اپنے پُرتشدد اور غیر آئینی ایجنڈے کے لئے تو استعمال نہیں کر رہے؟ مجھے یقین ہے کہ اچھی روایات رکھنے والا میڈیا عظیم قومی مقاصد کے لئے حقیقی معنوں میں ریاست کے چوتھے ستون کا کردار ادا کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا کہ پوری قوم کی طر ح میں بھی بڑی حیرت اور افسوس کے ساتھ ایک خاص جماعت کی طرف نام نہاد دھاندلی کے الزامات سنتا رہا ہوں۔ اب کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر مسلسل دہرائے جانے والے ان الزامات کو بنیاد بنا کر پورے جمہوری نظام کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ بے یقینی کی فضا پیدا کر کے ملک کی معیشت، سیاسی استحکام اور عالمی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ میرے سامنے آپ کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی و خوشحالی کا ایک واضح ایجنڈا ہے اور میں نہیں چاہتا کہ کسی طرح کی بدامنی اور انتشار اس ایجنڈے پر منفی اثر ڈالے۔ ملکی صورت حال کا جائزہ لینے اور قومی سیاسی قیادت کی اجتماعی سوچ کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا کہ انتخابات 2013ء کے بارے میں لگائے گئے الزامات کی آزادانہ اور شفاف تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ آف پاکستان کا ایک کمیشن قائم کیا جائے۔ اس مقصد کے لئے حکومت سپریم کورٹ کے محترم چیف جسٹس صاحب کو ایک درخواست کر رہی ہے کہ و ہ عدالت عظمی کے تین جج صاحبان پر مشتمل ایک کمیشن تشکیل دیں جو الزامات کی مکمل چھان بین کے بعد اپنی حتمی رائے دے۔ مجھے یقین ہے کہ اس اقدام کے بعد کسی احتجاج کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہے گی۔ انہوں نے کہا کہ احتجاج کرنے والے بتائیں کہ ان کے احتجاج کے مقاصد کیا ہیں اور وہ آخر کیا چاہتے ہیں۔ انہوں نے تقریر کے شروع میں قوم کو آزادی کی پیشگی مبارکباد دی اور پھر آخر میں ایک بار پھر قوم کو جشن آزادی کی مبارکباد دی اور کہا کہ آزادی کی تقریبات منانے کا مقصد پاک پاک کے آپریشن ضرب عضب کی حمایت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری قوم دہشت گردی کے مکمل خاتمے کی جنگ لڑی رہی ہے۔ آئی این پی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے 2013ء کے الیکشن میں مبینہ دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ کے تین رکنی کمشن کیلئے چیف جسٹس ناصر الملک کو باضابطہ خط (آج) بدھ کو بھجوا دیا جائے گا، خط کا مسودہ اطلاعات قانون و انصاف سینیٹر پرویز رشید اور سیکرٹری قانون بیرسٹر ظفر اللہ نے تیار کیا ہے۔ اسی خط کی روشنی میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تین رکنی بینچ تشکیل دینے کا فیصلہ کریں گے۔ وزیراعظم نواز شریف کے قوم سے خطاب سے قبل دو وفاقی وزراء زاہد حامد اور انوشہ رحمان نے سینٹ میں قائد حزب اختلاف سنیٹر اعتزاز احسن اور میاں رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک سے ملاقات کی۔ منگل کو باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ ان رہنمائوں سے ملاقات میں الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کیلئے عدالتی کمیشن کی تشکیل کی تجویز پر مشاورت کی گئی۔ اعتزاز احسن نے وزراء کے ذریعے وزیر اعظم کو پیغام بھجوایا کہ اگر حکومت ایسا اعلان کر دے تو تحریک انصاف کا بڑا مطالبہ پورا ہونے سے لانگ مارچ ملتوی ہو سکتا ہے۔