شائد یہ سارے جھمیلے، خرمستیاں، زہر افشانیاں، شعلہ بیانیاں، انہونیاں، آنیاں جانیاں اور لہو کہانیاں ہمارے وطن عزیز کا خاصہ بن گئی ہیں۔ آپ اس دھرتی اور اس کے بانیان کو رولتے، مدھولتے رہیں۔ آپ کو مدھولنے کے لئے کوئی قانون اور قانون کے تابع کوئی انتظامی مشینری حرکت میں نہیں آئے گی بہانہ حکومتی بداعمالیوں پر احتجاج کا بنایا جائے اور ریاستی مملکتی، ڈھانچے کا انجر پنجر ہلانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی جائے، مملکت کے تحفظ کے ذمہ دار کسی ادارے کے کان پر جوں نہیں رینگے گی۔ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر من مانیوں کی انتہا کر دی جائے۔ سلطانی جمہور کا چکمہ دے کر جمہور کو راندہ درگاہ بنا دیا جائے اور اپنی سلطانی کو مستحکم بنانے کا ماورائے آئین کوئی بھی حربہ اختیار کر لیا جائے، آئین، قانون اور انصاف کی عملداری اس کی جانب اپنی آنکھیں موندے بیٹھی رہے گی اور پھر کوئی بیٹھے بیٹھے اپنے تئیں مقدس گائے بن جائے اور ایسی سرکشیوں اور بغاوتوں کی سرکوبی کرنے کے ذمہ دار آئین و قانون اور اس کے تحت قائم اداروں کو اکھاڑنا، پچھاڑنا اور ان کے بخئے ادھیڑنا شروع کر دے، آئین و قانون کی اس بے توقیری پر کسی ذمہ دار کی جبینِ نیاز پر کوئی بل نہیں پڑے گا۔ لہو و لعب میں لتھڑے، لوبھ آلودہ جسم کو جبہ و دستار میں لپیٹ کر روحانی پیشوا کے روپ میں جلوہ گر کر لیا جائے تو اس کے منہ سے پھوٹنے والے جھوٹ کے فواروں پر تعظیمی سر جھکانے کے عمل کی بھی بہتات نظر آئے گی اور پھر آپ اپنے تئیں مقدس گائے بننے والوں کے ماسوائے، کسی کی بھی پگڑی اچھال دیں، کسی کو بھی گریبان سے دبوچ لیں۔ کوئی روک ٹوک کرنے والا نظر نہیں آئے گا۔ شائد اس آزاد و خود مختار مملکتِ خداداد میں ہر ایک نے خود کو آزاد و خود مختار بلکہ مادر پدر آزاد تصور کر لیا ہے۔ پچھلے 67 سال سے یہی کھیل تماشہ جاری ہے اور اب تو جشن آزادی کو گدلانے کے لئے وہ دھماچوکڑی مچائی گئی ہے کہ آزادی کا تصور ہی اس سے پناہ مانگتا نظر آتا ہے۔
مجھے کسی کے تحریر و تقریر، اجتماع، نقل و حرکت اور ابلاغ کے آئینی حق کے استعمال پر قطعاً اعتراض نہیں مگر ارض وطن اور اس پر رائج دستور کے تحت قائم سسٹم کا تحفظ بھی تو لازمی دستوری تقاضہ ہے۔ پھر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ اس اہم تقاضے سے صرفِ نظر کرکے شہری آزادیوں کے آئینی حق کی ہی وکالت کی جائے اور اس آئینی حق کے استعمال نے ملک کی نظریاتی اساس پر کیا حشر توڑے ہیں، ملک کی سالمیت کو کتنے خطرات میں جھونکا ہے، ملک کی معیشت کو کتنے کھرب ڈالر کا ٹیکہ لگایا ہے اور قومی مفادات کو کتنا رگیدا ہے۔ اس کا جائزہ لینے کی زحمت بھی گوارا نہ کی جائے۔ کیا آج جشن آزادی پر ملک کی سالمیت کے تحفظ و دفاع کے لئے تجدید عہد کی رسم ادا کرنے والوں سے وطن عزیز کی موجودہ حالت زار متقاضی نہیں کہ آج بہترین قومی مفاد کے تحت سارے مادر پدر آزادوں کے ہوش ٹھکانے پر لانے کا عہد کیا جائے اور پھر اس عہد کی پاسداری بھی کی جائے۔
میرا ذہن ابھی تک گڑبڑایا ہوا ہے کہ ملک کے آئین اور اس کے ماتحت قائم سسٹم اور مروجہ انتخابی نظام میں آئینی طریق کار کے مطابق کسی ترمیم یا مکمل تبدیلی کے بغیر اگر کسی کے ذہن میں ”انقلاب“ کی طاقت سے تہس نہس کرکے سسٹم کی اکھاڑ پچھاڑ کرنے اور اپنی ذہنی اختراع والا من مانا ایجنڈہ پلک جھپکتے میں مسلط کرنے کا خناس پیدا ہوا ہے تو اسے اس اندھیر نگری اور اودھم مچانے کا حوصلہ کس نے دیا ہے اور اگر کسی کو یہ گمان پیدا ہوا ہے کہ وہ 11 مئی 2013ءکے انتخابی عمل کی باریک بینی سے مانیٹرنگ کرنے والے ملکی اور غیر ملکی اداروں فافن، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس کمشن پاکستان حتیٰ کہ یورپی یونین کے مبصرین کی بھی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان انتخابات کی شفافیت کے بارے میں ان کی رپورٹوں کے برعکس ان انتخابات کو دھاندلیوں کا شاہکار ثابت کرنے میں کامیاب ہو سکتا ہے تو اس کی اس خوش گمانی کے پیچھے کس کی حکمت عملی کارفرما ہے۔ ”یہ طوفاں کون اٹھاتا ہے، یہ فتنے کون جماتا ہے“
جائزہ لیں تو ساری گتھیاں سلجھ سکتی ہیں اور فتنہ گروں کے سارے عزائم کھول کر سامنے لائے جا سکتے ہیں۔ اگر تو کسی غیر مرئی قوت نے ایسے خوش گمانوں کو رات کے کسی لمحے میں کسی سہانے خواب کے ذریعے اپنے اکھاڑ پچھاڑ کے ایجنڈے کو ماورائے آئین و قانون اقدام کے تحت لاگو کرنے کی قوت دے دی ہے تو خاطر جمع رکھنی چاہئے کہ ذہنی خلل کے باعث دیکھے جانے والے ایسے خوابوں کی تعبیر خواب آلودہ حضرات کے لئے الٹ نتائج ہی لائے گی اور اگر ہمارے ماضی کے تلخ تجربات اور زمینی حقائق کی بنیاد پر اس اودھم کے پیچھے عرفِ عام والی اسٹیبلشمنٹ پر مبنی کسی مقتدر قوت کا ذہن رسا کارفرما ہے تو بھائی صاحب! ماضی کے ڈسے ہوئے ہم ناآسودہ لوگوں کو وطن عزیز کی درگت بننے کے حوالے سے جو بھی خدشات لاحق ہو رہے ہیں، وہ درست ہیں۔
ویسے تو میرا گمان ہے کہ عساکر پاکستان ملک کی سالمیت کے درپے دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے جنوبی وزیرستان ضربِ عضب اپریشن کے تحت دفاع وطن کا آئینی فریضہ سرانجام دے رہی ہیں تو وہ ایسی کسی مہم جوئی کی متحمل نہیں ہو سکتیں جو ان کے اس آئینی فریضے میں کوئی خلل، رکاوٹ یا کمزوری پیدا کرنے پر منتج ہو سکتی ہو مگر ساتھ ہی دلِ بے قرار کو دھڑکے بھی لگے ہیں کہ انقلابی خوش گمان پورے دھڑلے کے ساتھ اپنی جھوٹ کی فیکٹریوں کو بروئے کار لا کر شر پھیلانے اور فساد برپا کرنے میں مکمل آزاد نظر آ رہے ہیں تو ان ساری خانہ ساز فتنہ پردازیوں پر مقتدر قوتوں کی خاموشی ان کی نیم رضامندی پر ہی منتج نہ ہو جائے۔ آپ تصور کیجئے کہ اکھاڑ پچھاڑ کے لئے اچھل کود کرنے والوں کو عرفِ عام والی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے اگر ہلکی سی بھی ”شٹ اپ کال“ دے دی جائے کہ اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے ہمارا کندھا استعمال نہ کرو تو انقلاب اور آزادی مارچ کی ساری اچھل کود پلک جھپکتے میں کیسے جھاگ کی طرح بیٹھتی ہے۔ اگر حشر سامانیوں کا اہتمام کرتی یہ اچھل کود، دھماچوکڑی، شورا شوری، سینہ زوری پوری دیدہ دلیری کے ساتھ جاری و ساری رہتی ہے اور اس کے نتیجے میں قوم کو خانہ جنگی میں دھکیل کر یوم آزادی کو خون آشام بنایا جاتا ہے تو ماضی کی تلخیوں کے ڈسے ہم راندہ درگاہ مقہور و مجبور عوام الناس کے لئے آنے والا یوم آزادی مزید دربدری کا پیغام لے کر آ رہا ہے اور پھر اس بارے میں بھی کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہے گی کہ ”یہ طوفاں کون اٹھاتا ہے، یہ بجلی کون گراتا ہے“
محتسب کی خیر، اونچا ہے اسی کے فیض سے
رند کا، ساقی کا، خم کا، مے کا، پیمانے کا نام
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024