فیصلہ کن موڑ....!
مسلم لیگ نون کی حکومت کے خلاف جب احتجاجی تحریک کی کال دی گئی اس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بات اس قدر بڑھ جائے گی ۔ آہستہ آہستہ اب یہ مقام آچکا ہے کہ سنگدل حکمرانوں کی طرف سے عوام کو لگائے گئے زخم نہ صرف تازہ ہو گئے بلکہ ان سے خون رسنے لگا ہے،محرومیاں عود کر آئیں اور لوگوں کے د لوں میں بھی ستمگروں کے احتساب کی خواہش نے سر اُٹھا لیا ۔ پچھلے ایک ہفتے میں کچھ اس تیزی سے پیشرفت ہوئی کہ پورا قومی منظر بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔الزام در الزام کی سیاست میں جب کسی فریق کے پاس دلائل ختم ہو جاتے ہیں تو وہ فوج پر الزام تراشی سے اپنی نااہلی چھپانے کی کوشش کرتاہے ،لیکن فوج نے اپنی دانشمندی سے ابھی تک خود کو بہت ساری سیاسی آلائشوں سے دور رکھا ہے اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ جب تک معاملات حکومتی کنٹرول میں رہیں گے ، قومی امن اور سلامتی کو خطرات لاحق نہیں ہوں گے، فوج اپنے پیشہ ورانہ امور تک محدود رہے گی۔
حالیہ دنوں میں ہونے والی سیاسی ہلچل کا جائزہ لیا جائے تو اس کاحیران کن پہلو یہ سامنے آئے گا کہ عمراان خان اور ڈاکٹر طاہر القادری سے زیادہ مسلم لیگ نون کی حکومت نے ہی اپنے مخالفین کی تحریک کو مقبولیت بخشی،اس ضمن میں پنجاب حکومت کی پُھرتیاں کچھ زیادہ ہی رہیں ، شہباز حکومت نے ماڈل ٹاﺅن کے خونیں سانحے سے کوئی سبق نہ سیکھا ، اس وقت بھی صوبائی حکومت نے ایک غیر ضروری کارروائی کرکے14بے گناہوں کا خون اپنے سر لے لیا جبکہ اس وقت پولیس ایکشن ناگزیر نہیں تھا، اس خونریزی کے بعد ایک اور حماقت کی گئی اور ڈاکٹر طاہر القادری کی اسلام آباد آمد کے اعلان پر راولپنڈی میں جمع ہونے والے کارکنوں کے سامنے پولیس اہلکاروں کو ڈال دیا گیا ، پولیس کو سخت جوابی کارروائی کی اجازت نہ تھی ،جس کے نتیجے میں ستر اسی اہلکار شدید زخمی ہوئے، اس حرکت پر محکمے میں صوبائی حکام کے خلاف شدید غم و غصہ پایا گیا۔
یوم آزادی سے پہلے شروع ہونے والا ہفتہ عوام کے لئے بدترین غلامی لے کر آیا، صوبائی حکام نے ایسے ایسے احمقانہ اقدامات کئے جن سے غیر جانبدار حلقے حتٰی کہ حکومت کے حامی بھی بددل ہوگئے ، نجانے کس منصوبہ بندی کے تحت عام لوگوں کو ٹارگٹ کیا گیا ، جو مقاصد ماڈل ٹاﺅن سمیت بعض دیگر مقامات کو سیل کرکے حاصل کئے جاسکتے تھے ان کا سلسلہ پورے صوبے تک پھیلا دیا گیا ، لاہور کے داخلی علاقوں میں کنٹینر کھڑے کرکے اس کا رابطہ دوسرے شہروں سے کاٹ دیا گیا ، اس موقع پر لوگوں کی بے بسی نہیں دیکھی جاتی تھی، کوئی ایمبولینسوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا افراد کو ہسپتال تک راستہ دینے کی دہائی دے رہا تھا تو کئی خواتین اور بزرگ کنٹینروں کے نیچے معمولی خلاءسے کیڑے مکوڑوں کی طرح رینگتے دکھائی دے رہے تھے۔ عوام کے نقل وحرکت کا حق سلب کرنے کے علاوہ ان پر پٹرول کا عذاب بھی نازل کیا گیا ، کسی سرکاری اندھے کو دور کی سوجھی اور اس نے حکو مت مخالف عناصر کی نقل و حرکت محدود کرنے کے لئے پٹرول کی مصنوعی قلت کا مشورہ دے ڈالا، جس سے عوام کے کڑاکے نکل گئے ، پٹرول پمپوں پر موٹرسائیکل سواروں کے ہجوم میں حکمرانوں کی شان میں ایسے ایسے فی البدیہہ جملے سننے میں آئے کہ کیا کہنے ۔
حکومت اور عوام کے درمیان فاصلہ کس قدر کم ہے ۔۔!یہی کسی حکمران کے اقتدار میں رہنے کا پیمانہ ہے، پچھلے چند روز میں حکومت نے یہ ریکارڈ بھی قائم کر دیا ، عوام کو رکاوٹوں کے بارے میں آگاہ کیا گیا اور نہ ہی یہ بتایا گیا کہ پٹرول کس نے اور کیوں بند کیا ؟اور لوگوں کے بے دست وپا رہنے کا دورانیہ کتنا ہے؟حکومت نے دو افراد کا راستہ روکنے کے لئے دو سو لوگوں کو ناراض کر لیا ، اس امر میں مشیروں کا کتنا قصور ہے؟حکمران اس ظلم کے کتنے ذمہ دار ہیں ؟اس بات کا اندازہ لگانا اس لئے مشکل نہیں کہ ہمارے ہاں مشیراور حکام صاحب کے موڈ اور ویژن کو مد نظر رکھ کر مشورہ دینے کا ہی کھاتے ہیں،مشیروں نے بڑھ چڑھ کر مشورے دیئے جن کے نتیجے میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد حکومت کے مخالفین کی ہمخیال بن گئی ،اب صورت یہ ہے کہ لو گ مجموعی طور پر اب کسی تبدیلی کے لئے خود کو تیار کر چکے ہیں، حکومت کی نااہلی کا عالم یہ ہے کہ وہ اب تک عوام کو اپنے وعدوں کے مطابق کوئی نمایاں ریلیف دینے میں تو ناکام رہی ہے جبکہ اس نے اپنے خلاف اٹھنے والی تحریک کا مقابلہ کرنے میں بھی کمال نااہلی کا مظاہرہ کیا۔ حکومت بڑی اپوزیشن جماعت پیپلز پارٹی اور بعض دوسری جماعتوں کی حمایت کے باوجود گھبراہٹ کا شکار نظر آتی ہے، چودھری نثار سرکاری اعلان کے مطابق پارٹی قیادت سے راضی ہوگئے تھے لیکن مشکل وقت میں سیاسی میدان میں ان کی بھر پور واپسی نہیں ہو سکی ،جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بات کہیں پر اٹکی ہوئی ہے۔حکومتی صفوں میں کہیں پراسرار خاموشی ہے توکہیںکچھ لوگ آنے والے وقت کی تیاری میں مگن ہیں ، تحریک انصاف میں بھی کچھ لوگ ذہنی اور کچھ عملی طور پر غیر حاضر ہیں ، عمران خان اورافتخار چودھری کے درمیان جنگ شروع ہونے کے بعد سے حامد خان کہیں دکھائی نہیں دے رہے ، جاوید ہاشمی بمشکل تمام عمران کے ساتھ چل پا رہے ، سیاسی بے بسی کا شکار باغی کیسے راضی ہے یہ وہی جانتا ہے۔۔!لاہورسے قومی اسمبلی کی سیٹ جیتنے والے شفقت محمود بھی ڈھونڈے سے نہیں مل رہے ، لیکن تحریک انصاف میں اس سطح کے اختلاف رائے کا ان کی عوامی تحریک پر کوئی اثر نہیں پڑتا اصل پریشانی کا مقام حکومت کے لئے ہے ، جس کا دفاع کرنے کے لئے حکومتی ٹیم میں جاندار آوازیں موجود نہیں ، کچھ لوگ نحیف و نزار لہجے میں بول رہے ہیں ، ان کے بیانات محض تُک بندی پر مبنی ہیں جو عوام کو متاثر کرنا تو درکنار انہیں کسی حد تک مطمئن کرنے میں بھی ناکام ہیں۔
14اگست فیصلہ کن موڑ کی صورت اختیار کر گیا ہے ، تبدیلی کے تمام تر لوازمات موجود ہیں ،مسائل زدہ عوام کی بے چینی کا پیمانہ بھی چھلک پڑا ہے، اور یہی وہ پیمانہ ہے جو ماضی میں تبدیلیوں کا سبب بنتا رہا ہے ، اس نازک مرحلے میں بعض سیاسی کھڑپینچ اور ان کے پروردہ مبصرین اس سارے معاملے میں فوج کو گھسیٹنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ فوجی قیادت کے کسی عمل سے ابھی تک یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ وہ سیاست میں ملوث ہے۔ فوج نے سیاسی میدان سیاستدانوں ک ہاتھ میں دے رکھا ہے ، جب تک وہ معاملات چلا سکتے ہیں مداخلت کا امکان نہیں لیکن یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ سیاستدان اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ملک کو ہی داﺅ پر لگا دیں ، وسیع پیمانے پر خون خرابہ روکنے کے لئے قدم اٹھانا ملکی سلامتی کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔پاکستان کے واحد منظم ادارے پر انگلی اٹھانے والوں کے مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟اس کا تصور بھی افسوسناک ہے۔پاکستان اس وقت جس نازک صورتحال سے دوچار ہے اس میں اگر مزید سنگینی آگئی تو مکمل تباہی سے کون بچائے گا؟اس سوال کا جواب احمقوں کی جنت میں رہنے والوں کے پاس نہیں مگر محب وطن حلقے بخوبی جانتے ہیں کہ امتحان کی گھڑی میں کس طرف دیکھنا ہے اور کس نے مشکل وقت میں ہمیشہ کی طرح ملک و قوم کی نگہبانی کا فریضہ انجام دینا ہے۔
اب جب پانی سر سے گزرتا نظر آ رہا ہے ہے تو حکمرانوں کے لب و لہجے میں بھی ڈر اور خوف کے امتزاج سے عاجزی کی جھلک نمایاں ہو رہی ہے، تحریک انصاف کی جانب سے ایک سال مسلسل چار حلقوں میں ووٹوں کی تصدیق کا مطالبہ کیا گیا لیکن حکومت نے پلٹ کر بھی نہ دیکھا لیکن اب اس سے کہیں زیادہ مطالبات تسلیم کرنے پر آمادگی ظاہر کی جا رہی ہے، درحقیقت حکمرانوں نے جمہوریت کے حُسن کو اپنی متکبرانہ رویے سے داغدار کر دیا ہے۔ ملکی تاریخ کے سفر میں ایک بار پھر جمہوریت کی گاڑی کو ایک خطرناک موڑ درپیش ہے، جہاں مسافروں کی باہمی لڑائی اور ڈرائیور کی حماقت سے جمہوریت کی یہ گاڑی اُلٹ بھی سکتی ہے۔۔! ایسا ہوا تو اس حادثے میں سازش کے پہلوتلاش کرنا بلا جواز ہوگا۔