وزیراعظم کی عمران خان کو پھر مذاکرات کی دعوت‘ ہائیکورٹ کی تنبیہہ اور اچکزئی کی فکرمندی
وزیراعظم میاں نوازشریف نے عمران خان کو مذاکرات کی دعوت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ عمران خان کے ٹیلی فون پر پہلے بھی ان سے ملنے چلے گئے تھے‘ اب بھی جانے کو تیار ہیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں ”پاکستان ویژن 2025ئ“ کے اجراءکی تقریب میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ انقلاب والے میری نہیں‘ قوم کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ ہم مٹھی بھر لوگوں کو قومی مینڈیٹ نہیں چھیننے دینگے۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان آزادی مارچ کی کال واپس لے لیں‘ میں حکومتی پالیسی بدلنے کو تیار ہوں۔ کیا ہم نے ملک کی 65 سالہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا؟ احتجاج کی باتیں کرنیوالے پاکستان کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کا ایجنڈا اور مقاصد کیا ہیں؟ انکے بقول جمہوریت اور آئین کی بالادستی پر پوری قوم متفق ہے۔ لانگ مارچ کے ذریعے ترقی کا عمل تباہ کرنے کی اجازت نہیں دی جائیگی۔ انہوں نے استفسار کیا کہ یلغار کرنیوالے بتائیں ہمارا قصور کیا ہے‘ وہ کس طرح کا انقلاب چاہتے ہیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ انقلاب کا نعرہ درحقیقت ملک میں فساد پھیلانا ہے۔ مجھے تو ایسے ایجنڈے پر ہنسی آتی ہے‘ سمجھ نہیں آتی کہ ان کو ایجنڈا کس نے دیا‘ آخر یہ لوگ ملک کے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ 2013ءکے انتخابات میں ہماری پارٹی کے ساتھ بھی دھاندلی ہوئی ہے۔ اگر دھاندلی نہ ہوتی تو ہم تین چوتھائی کی اکثریت کے ساتھ حکومت بناتے۔
اس وقت ملک میں آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے شورشرابے اور اسے دبانے کیلئے حکومت کی جانب سے اٹھائے جانیوالے سخت گیر اقدامات سے پارلیمنٹ اور جمہوریت کو جو سنگین خطرات لاحق نظر آرہے ہیں وہ توپ سے مکھی مارنے کی حکومتی حکمت عملی کا ہی شاخسانہ ہے۔ آج وزیراعظم نوازشریف عمران خان کے پاس دوبارہ چل کر جانے کی بات کر رہے ہیں‘ اگر اسی سمجھ بوجھ اور فہم و تدبر کا پہلے دن ہی دامن تھام لیا جاتا اور انتخابی دھاندلیوں سے متعلق عمران خان کے الزامات پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے انتخابی عمل پر انکے تحفظات دور کرنے کیلئے انہی کی معاونت سے کوئی حکمت عملی طے کرلی جاتی تو عمران خان کو لانگ مارچ کی کال دینے کی ضرورت پیش آتی نہ ساختہ انقلابی ایجنڈے والے پاکستانی نژاد کینیڈین شہری ڈاکٹر طاہرالقادری کو پاکستان آکر سسٹم کا تمسخر اڑانے‘ اپنے کارکنوں کو قتل و غارت گری پر اکسانے اور ٹھٹھہ مذاق کرتے ہوئے ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے“ کی دھمال ڈالنے کی جرا¿ت ہوتی۔ وزیراعظم نوازشریف عمران خان کے لانگ مارچ‘ جسے بعدازاں آزادی مارچ میں تبدیل کیا گیا‘ کے اعلان پر روایتی بے نیازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمرہ کی ادائیگی کی خاطر دس روز کیلئے سعودی عرب چلے گئے اور اس تلخ حقیقت کا بھی احساس نہ کیا کہ روٹی روزگار‘ مہنگائی‘ بدامنی‘ لوڈشیڈنگ اور دوسرے روزمرہ کے گھمبیر مسائل سے عاجز آئے عوام الناس حکومتی پالیسیوں کو ان مسائل کا ذمہ دار سمجھتے ہوئے کسی بھی حکومت مخالف تحریک کا چارہ بننے کیلئے آمادہ و تیار بیٹھے ہیں۔ فہم و ادراک کا تو یہی تقاضا تھا کہ روزمرہ کے گھمبیر مسائل پر مضطرب عوام کو مطمئن کرنے کیلئے انکے روٹی روزگار کے مسائل سے نجات دلانے اور ان کیلئے مستقل اذیت کا باعث بننے والے توانائی کے بحران کو حل کرنے کیلئے بھی عملی پیش رفت کی جاتی اور انتخابی عمل پر عمران خان کے تحفظات دور کرنے کی بھی پارلیمنٹ کے اندر کوئی ٹھوس حکمت عملی طے کی جاتی مگر بدقسمتی سے حکمران مسلم لیگ نے روایتی طرزِ حکمرانی پر ہی صاد کئے رکھا‘ نتیجتاً عوامی اضطراب بڑھتا بڑھتا شعلہ¿ جوالہ بن گیا۔ ایسے حالات کسی بھی حکومت مخالف تحریک کیلئے سازگار ہوتے ہیں۔ چنانچہ نہ صرف عمران خان کو انتخابی دھاندلیوں کے الزامات پر اپنی سیاست چمکانے کا موقع ملا بلکہ ان حالات کو بھانپ کر غیرجمہوری سوچ اور سازشی ایجنڈا رکھنے والے ڈاکٹر طاہرالقادری کی باچھیں بھی کھلنے لگیں‘ جنہیں پنجاب حکومت کے نادان مشیروں نے سانحہ¿ ماڈل ٹاﺅن لاہور کی نوبت لا کر اپنی تخریبی فسطائی سیاست کو پروان چڑھانے کا خود ہی نادر موقع فراہم کر دیا۔
چاہیے تو یہ تھا کہ ایک مضبوط اپوزیشن کی حیثیت سے پارلیمنٹ میں عمران خان کی باتوں کو وزن دے کر انہیں سسٹم کے استحکام کیلئے معاون بنایا جاتا جس کے باعث غیرجمہوری سوچ رکھنے والوں کو ماورائے آئین اقدام والوں کا ڈراوا دینے کی جرا¿ت ہی نہ ہوتی مگر حکومت نے ان غیرجمہوری عناصر کو ہی اپنی کمزوری بنالیا اور طاہرالقادری کے نامعلوم انقلاب مارچ کو روکنے کیلئے ساری توانائیاں صرف کرنا شروع کر دیں جس سے طاہرالقادری کے ذہن میں یہ سودا سما گیا کہ تشدد‘ گھیراﺅ جلاﺅ‘ تخریب اور قتل و غارت گری کا راستہ اختیار کرکے حکومت کو بیک فٹ پر لایا جا سکتا ہے اور پھر بے بس حکومت کی موجودگی میں سسٹم کا تیاپانچہ کرنے کا ایجنڈا پایہ¿ تکمیل کو پہنچایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت طاہرالقادری کو اچھل کود کرنے کا آزاد موقع فراہم کرکے عمران خان کی سیاسی گیم پلان کا سیاسی حکمت عملی سے توڑ کرنے کی راہ اختیار کرتی تو یقیناً آج حکومت کیلئے ”صبح گیا یا شام گیا“ والی کیفیت پیدا نہ ہوتی مگر حکومتی نادان مشیروں نے حکومت کو لاہور اور پنجاب کے دوسرے شہروں میں کرفیو والا منظرنامہ پیش کرنے کی راہ پر لگا کر خود ہی جمہوریت کی بنیادوں کو ہلانا شروع کر دیا ہے۔ حالات کی اس سنگینی کو بھانپ کر ہی لاہور ہائیکورٹ کے تین رکنی بینچ نے آزادی مارچ اور انقلاب مارچ رکوانے کیلئے دائر کی گئی درخواستوں کی سماعت کے دوران گزشتہ روز باور کرایا ہے کہ وزیراعظم کو چاہے دس بار عمران خان کے گھر جانا پڑے تو وہ جائیں‘ کہیں انا کے چکر میں ملک ہی نہ لُٹ جائے۔ دوسری جانب بزرگ قوم پرست لیڈر اور پختون خوا¿ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے حالات کی اس سنگینی کے پیش نظر ہی گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس میں اعلان کیا ہے کہ اگر پارلیمنٹ کو کچھ ہوا تو وہ بغاوت کردینگے۔
جب تقریباً تمام پارلیمانی جمہوری قوتیں سسٹم کو بچانے اور اس کیخلاف انقلاب مارچ والوں کی ہر قسم کی سازشیں ناکام بنانے کیلئے یکساں سوچ کے ساتھ حکومت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈال رہی ہیں تو حکومت کو اس وزن کی پاسداری کرنی چاہیے نہ کہ لاہور آنیوالی تمام سڑکوں کو کنٹینروں کے ذریعے بند کرکے ٹرانسپورٹ کا پہیہ جام کرکے‘ پٹرول پمپوں اور سی این جی سٹیشنوں تک عوام کی رسائی ناممکن بنا کر اور ریاستی طاقت کا ہر دوسرا ہتھکنڈا اختیار کرکے عوام کو حکومتی پالیسیوں سے مزید متنفر کیا جائے۔ اگر حکومت عمران خان کو آزادی مارچ کیلئے فری ہینڈ دے دیتی اور طاہرالقادری کو کسی قسم کی اہمیت نہ دیتے ہوئے انکے حال پر چھوڑ دیتی تو حکومت پر کوئی قیامت ٹوٹتی نہ آسمان گرتا بلکہ حکومتی فری ہینڈ کے برعکس طاہرالقادری اپنے فسادی ایجنڈے کے تحت قانون ہاتھ میں لیتے اور تشدد و تخریب کاری کی راہ اختیار کرتے تو اس سے عوام میں انکے عزائم بے نقاب ہوتے اور پھر حکومت کیلئے بھی تخریب کار عناصر کی ریاستی طاقت سے سرکوبی کا جواز پیدا ہو جاتا۔ یہ افسوسناک صورتحال ہے کہ حکومت کو غیرجمہوری عناصر کے سامنے اپنی کمزوری کا تاثر پیدا کرنیوالی پالیسیوں کے مضر اثرات کا آج بھی احساس نہیں ہوا اور سخت گیر اقدامات اٹھا کر حالات خراب کرنیوالی اس بے ڈھنگی چال کو برقرار رکھا گیا ہے۔ اگر اقتدار لینے اور بچانے کی کشمکش میں اقتدار کی بوٹی پھر ماورائے آئین اقدام والے طالع آزماﺅں کے ہاتھ لگ گئی تو ماضی کے تلخ تجربات سے اب تک سبق حاصل نہ کرنیوالے ہمارے سیاسی قائدین کو سوچ رکھنا چاہیے کہ انہیں اپنے ہی ہاتھوں گم کی گئی جمہوریت کی بحالی کیلئے دوبارہ کتنی کٹھن جدوجہد کرنا پڑیگی۔ اگر آج کے باہم گتھم گتھا سیاست دانوں کو کل جمہوریت کی بحالی کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا ہے تو وہ آج ہی جمہوریت کے استحکام کیلئے کیوں ایکا نہیں کرلیتے؟
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38