مداریوں اور مکاریوں کے اس کھیل میں ”ضرب عضب“ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی جاری ہے مگر پاک فوج کو اپنے محب وطنوں پر کامل یقین ہے کہ سرحدوں اور عوام کے مال و جان کے محافظ جوانوںکو ہمیشہ قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔یوم آزادی کے اس مبارک موقع پر بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا دل بھی پاک فوج کے ساتھ دھڑک رہاہے۔ پاکستان میں تماشے ہوتے رہتے ہیں اور تماشبین بھی مل جاتے ہیں مگر حق سچ دیکھنے اور دکھانے والوں کی بھی کمی نہیں۔ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک معروف صحافی پر قاتلانہ حملہ میں براہ راست ڈی جی آئی ایس آئی کو مبینہ قاتل قرار دیا گیا اور انہیں مجرم بنا کر پوری دنیا میں پاک فوج کو رسوا کیا گیا،رد عمل میں پاک فوج کی حمایت میں پوری قوم اٹھ کھڑی ہوئی اور ایک مخصوص نجی چینل کے خلاف ملک خانہ جنگی کا نقشہ پیش کر نے لگا۔ملک کو انتشار سے بچانے کے لئے حکومت اور فوج نے معاملہ کو حکمت عملی سے دبانے کی کوشش کی جبکہ وزیر دفاع خواجہ آصف نے چینل کو غدار قرار دیتے ہوئے اس کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا اور ناراض عوام کی جانب سے زخمی صحافی کو بھی غدار کا خطاب دے دیا گیا۔چینل پر غداری کے الزام میں دو ہفتے کی پابندی اور ایک کروڑ جرمانہ عائد کیا گیا۔ وزیر دفاع نے حلفیہ دعویٰ کیا کہ انہوں نے چینل کے خلاف غداری کے ثبوت خود دیکھے ہیں مگر عوام ایک سوال پوچھتے ہیں کہ اگر کسی میڈیا کے خلاف ملک سے غداری ثابت ہو جائے تو اس کی سزا صرف دو ہفتے پابندی اور ایک کروڑ روپیہ جرمانہ ہے ؟اور کیا اس کے بعد غدارالزام سے بری ہو جاتا ہے ؟ وزیر دفاع کے عمل سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ غدار جرمانہ کی ادائیگی کے بعد محب وطن کہلانے کا حق دار ہو جاتا ہے ۔ ملزم چینل کے ایک دشمن چینل پر بیٹھ کر وزیر دفاع محض فوج کو راضی کرنے کے لئے ملزم چینل کو حلفیہ غدار ثابت کر رہے ہیں لیکن چند ہفتوں بعد جب ان کا صحافی دوست” غدار چینل “پر واپس آتا ہے تو اس کے پروگرام میں بیٹھ کر تھوک کو چاٹ رہے ہیں۔در حقیقت یہ وہ طبقہ ہے جو ذاتی مفادات کو ملکی مفادات پر ترجیح دیتا ہے۔وزیر دفاع کے اس فعل کو فوج سے غداری قرار دیا جائے یا عوام سے مذاق ؟ فوج کے دل میں یہ بات بری طرح کھٹک رہی ہے کہ ایک صحافی کی وجہ سے فوج کو دنیا بھرمیں بدنام کیا گیا ، فوج کو ”انڈر اسٹیمیٹ “ کیا گیا اور حکومت کا ایک ذمہ دار عہدیدار اسی ”غدار“ ٹی وی چینل پر بیٹھا اپنی سیاست چمکا رہاہے؟ ایسی دو غلی سیاست کرنے والے ہی فوج اور عوام کو ناراض کرتے ہیں اور جب فوج ”شب خون“ مارتی ہے تو اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔ ایوب خان سے پرویز مشرف کے ”شب خون“ سے قطع نظر حالات حاضرہ کے تناظر میں فوج کا کردار دیکھا جائے تو انتہائی مثبت رہاہے۔ سابق جنرل اشفاق کیانی نے بڑے صبر و تحمل کے ساتھ وقت گزارا اور میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ان کے تعلقات دوستانہ رہے اور جنرل راحیل شریف بھی جہاد اور مہاجرین کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں جبکہ سیاست دان حسب روایت اقتدار کی خانہ جنگی میں مشغول ہیں۔جنرل راحیل کا بھی صدر بننے کا کوئی ارادہ نہیں اور نہ موجودہ ہی ڈی جی آئی ایس آئی کو شجاع پاشا بننے کا شوق ہے۔ البتہ وزیر دفاع نے”غدار“ چینل میں بیٹھ کر حکومت، فوج اور عوام کے جذبات کا مذاق اڑایا ہے۔ اس قسم کے سیاست دان پارٹیوں کے اندر پھوٹ ڈلواتے ہیں۔ وزیر دفاع کو مبینہ طور پر چیف منسٹر پنجاب بننے کا بہت شوق ہے جبکہ فوج کے ساتھ دوغلا پن کی وجہ سے حکومت کو بھی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ ماڈل ٹاﺅن سانحہ کے پس پشت گولیاں چلانے والے پولیس اہلکار بھی پارٹی کے اندر سے غداری کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ عوام سادہ ہیں ،انہیں میڈیا جو دکھائے اسے سچ سمجھ بیٹھتے ہیں جبکہ سیاست میں ایسے ایسے مداری تشریف فرما ہیں جو ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کرنے کے شہکار ہیں۔ سیاست دان صحافیوں کے بغیر صفر ہیں اور صحافی پیسے کے بغیر پیدل۔ سب ایک دوسرے کو بلیک میل کرنے میں مشغول ہیں۔ ایک ریٹائر فوجی افسر نے کہا تھا کہ جس صحافی نے بلاثبوت فوج کو قاتل بنا کر پیش کیا، دوبارہ سکرین پر دکھائی دیا تو معاملہ بگڑ سکتا ہے۔ معاملہ ابھی ٹلتا دکھائی نہیں دیتا اور وزیر دفاع اسی صحافی اور اسی غدار چینل پر بیٹھ کر فوج کے زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔عمران خان نے ”غدار چینل“ کا بائیکاٹ کر رکھا ہے مگر چینل کے مالکان خان کو منانے کے لئے تمام حربے آزما رہے ہیں۔ خان کے قریبی ذرائع کے مطابق میڈیا کے مالک نے بنفس نفیس خان صاحب سے ملاقات کی مگر وہ نہ مانا اور اب خان کے اینکردوست کو دھاندلی کی حمایت میں پروپیگنڈا پر فائز کردیا گیا ہے تا کہ تحریک انصاف ان کا چینل اورشو دیکھنے پر مجبور ہو جائے۔کاروباریوں کی ”انا“ عارضی ہوتی ہے۔ صحافی اور سیاستدان ایک دوسرے سے بنا کررکھنے پر مجبور ہیں حالانکہ آف دی ریکارڈ یہ دونوں طبقات ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ خدا ان کی مکاریوں سے بچائے۔ جو انسان اپنی ذات کے ساتھ مخلص نہیں وہ ملک و قوم کے ساتھ کیوں کر مخلص ہو سکتا ہے۔ عمران خان کے اطراف بھی چند مکار جمع ہیں۔ آف دی ریکارڈ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ خان پر ترس آتا ہے اور رحم بھی۔خان کے مارچ کی وجہ سے فوج بھی اس سے خائف ہے کہ وہ ”ضرب عضب“میں اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں اور یہ شخص کینیڈا کے مداری کے ساتھ مل کر ملک کی سکیورٹی کو داﺅ پر لگا ئے ہوئے ہے۔ ادھر قائداعظم ؒ افسردہ ہیں کہ یہ قوم کن راستوں پر چل نکلی ہے ، یوم آزادی کو یوم بربادی بنا یا جا رہاہے۔خان یہودی ایجنٹ نہیں البتہ سی آئی سے کے ایجنٹ کے ساتھ مارچ نکلا تو الزام حقیقت میں تبدیل ہو سکتا ہے۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024