آخری معرکہ۔ اور موقع!

لانگ مارچ کا لفظ اس قدر گھس پٹ چکا ہے کہ اب جب اس کا اعلان ہوتا ہے تو بے اختیار ہنسی آتی ہے۔ اس لفظ کو اس قدر گھسیٹا اور رگیدا گیا ہے کہ آنجہانی موزے تنگ کی روح قبر میں ضرور کلپتی ہو گی۔ ایک وہ مارچ تھا کہ ایک عظیم لیڈر سفر کی صعوبتیں جھیلتا، نامساعد حالات سے لڑتا، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا، ایک واضح نصب العین لئے آمریت کے تابوت میں آخری کیل گاڑنے کے لئے لاکھوں سرفروشوں کے ساتھ دارالحکومت کی طرف بڑھا تھا۔ وہ کسی ائرکنڈیشنڈ کنٹینر میں یا زیرو میٹر پجارو میں سوار نہیں تھا۔ وہ انواع و اقسام کے کھانے اور ڈرائی فروٹ بھی نہیں کھاتا تھا۔ اس کا رہن سہن اور خورد و نوش بھی وہی تھا جو ایک عام جنگجو کا تھا۔ ملین مارچ صحیح معنوں میں ملین مارچ تھا۔ ایک بڑے لیڈر کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو عوام سے الگ تھلگ نہ رکھے۔ مشہور مورخ ارین لکھتا ہے کہ جب سکندر اعظم اپنی فوج کو لیکر گڈروسیہ (مکران) سے گزرا تو مصائب اور مسائل کا ایک پہاڑ کھڑا ہو گیا۔ خوراک کی کمی اور پانی کی قلت نے اس کی فوج کو ہلکان کر دیا۔ سپاہ مچھروں کی طرح مرنے لگی۔ تمام گھوڑے پاپی پیٹ کا ایندھن بن گئے۔ سکندر گھوڑے سے نیچے اتر آیا اور بچی کھچی فوج کے ساتھ پیدل چلنے لگا۔ سفر کے دوران ایک ایسا موقع بھی آیا کہ پانی ختم ہو گیا حلق سوکھ گئے۔ بڑی مشکل سے پانی کا ایک پیالہ دستیاب ہوا جو سکندر کو پیش کیا گیا۔ سکندر نے پانی لانے والے کا شکریہ ادا کیا اور پھر ان الفاظ کے ساتھ اسے زمین پر ڈول دیا۔ ’’جس لیڈر کی سپاہ پیاسی ہو اسے پانی پینے کا کوئی حق نہیں پہنچتا‘‘ ہم نے پہلے بھی لکھا تھا کہ مولانا قادری صاحب کو فائیو سٹار کمرے میں نہیں بیٹھنا چاہئے۔ اپنے مریدین کے ساتھ فرش زمین پر ہی رونق افروز ہوں۔ قرائن اور شواہد سے کچھ یوں گمان ہوتا ہے کہ کندھوں پر بٹھا کر غارِ حرا تک لے جانے والے اب ’’قہر مذلت‘‘ میں گاڑھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ مولانا جب بھی پدھارتے ہیں لوگوں میں تاثر پھیل جاتا ہے کہ حضرت ازخود آئے نہیں بلوائے گئے ہیں۔
عمران خان کے ’’ملین مارچ کے اعلان سے مولانا کے مشن کو تقویت ملی ہے۔ دونوں کا مقصد ایک ہے مگر طریقے الگ الگ ہیں۔ مولانا خلفائے راشدین کا نظام واپس لانا چاہتے ہیں۔ کامیابی کی صورت میں یہ چھٹے خلیفہ ہوں گے۔ پانچواں خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کو مانا جاتا ہے۔ ڈاکٹر قادری سے پہلے ڈاکٹر میاں نواز شریف نے بھی اسی قسم کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ میاں صاحب تو بوجوہ اپنی ناآسودہ خواہش کی تکمیل نہ کر پائے۔ دیکھیں قادری صاحب کیا گل کھلاتے ہیں۔
’’کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آئو نہ ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی‘‘
عمران خان نظام کا خاتمہ نہیں چاہتے بلکہ شریف برادران کی رخصتی کے متمنی ہیں۔ ان کے خیال میں بے پناہ دھاندلی ہوئی ہے۔ عوامی مینڈیٹ کو چرایا گیا ہے۔ اس سلسلے میں کئی دیگر جماعتیں بھی ان کی ہمنوا نظر آتی ہیں لیکن اکثر ایک مدقوق منطق کا سہارا لیتی ہیں۔ ’’دھاندلی ہوئی ہے لیکن جمہوریت کی خاطر ہم نے حکومت کو قبول فرمایا ہے۔ ہم جمہوریت کو Derail نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ ن لیگ اس اقدام کو نہیں مانتی بالفرض دھاندلی ہوئی ہے تو جمہوریت ڈی ریل ہو چکی ہے جہاں عوامی مینڈیٹ کو چرایا گیا ہو وہاں جمہوریت ناپید ہو جاتی ہے اور آمریت جنم لیتی ہے۔ جمہوریت کے ساتھ کھلواڑ کرنے والے لوگ ناقابل معافی ہوتے ہیں۔ انہیں ہٹانا بھی جمہوری عمل کا ایک حصہ ہے۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں اور سیاستدان منافقت اور دوعملی کا شکار ہیں۔ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ!
عمران خان نے 14 اگست کو اسلام آباد پہنچنے کی دھمکی دی ہے پہلے چار حلقوں میں چھان بین کا مطالبہ کیا۔ پھر افغانستان کی طرز پر سارے الیکشن کے آڈٹ پر اصرار کیا۔ اب سارا نظام الٹنا چاہتے ہیں ہم اسے خان صاحب کی سادہ لوحی اور خام خیالی ہی کہہ سکتے ہیں! کیا افغانستان میں آڈٹ کامیاب ہو گیا ہے؟ یہ سب کچھ عبداللہ عبداللہ کو غچہ دینے کے لئے کیا گیا ہے۔ جو لوگ الیکشن میں دھاندلی کر سکتے ہیں انہیں آڈٹ میں ہیر پھیر سے کون روک سکتا ہے؟ جب الیکشن ہوئے تو اس وقت ن لیگ کی حکومت نہیں تھی۔ بالفرض اس وقت مینڈیٹ چرایا گیا ہے تو حکومت کے لئے اب اسے بچانا نسبتاً آسان ہو گا۔ نادرا کے طارق ملک جیسے لوگوں کو بیک بینی دو گوش نکالا جا چکا ہے۔ اگر حکومت لانگ مارچ کا اثر زائل کرنے کے لئے یہ مطالبہ مان بھی لیتی ہے تو خان صاحب کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔
ہم نے اپنے سابقہ کالم میں بھی کہا تھا کہ جب تک پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ اس تحریک کا حصہ نہیں بنتیں کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ حال ہی میں آصف علی زرداری نے نواز شریف کو کہا ہے بادشاہت نہیں چلے گی۔ خان صاحب کو زیادہ خوش نہیں ہونا چاہئے۔ اس سے مخالفت نہیں سودا بازی کی بو آتی ہے۔ آہستہ آہستہ آصف زرداری کے خلاف مقدمات ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ نواز حکومت اس عمل کو تیز کرے۔ نواز حکومت کا خاتمہ زرداری کے لئے کئی مشکلات کھڑی کر سکتا ہے۔ وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ حکومت کا ’’کھوتا کھوہ‘‘ میں رہے لہٰذا تنقیدی بیان کے ساتھ ہی وزیر اعلیٰ سندھ سے بیان دلوا دیا ہے کہ نواز شریف اس کے وزیراعظم ہیں۔