اسلام آباد کے ایوانوں میں ہلچل

گذشتہ روز راقم کو اسلام آباد جانے کا اتفاق ہوا ۔اسلام آباد جانے کا مقصد نوائے وقت کے ایڈیٹر انچیف ڈاکٹر مجید نظامی کے تعزیتی ریفرنس میں بطور مہمان خصوصی شرکت کرنا تھی۔ اس تعزیتی ریفرنس کا انعقاد آل پاکستان پرائیویٹ سکولز مینجمنٹ ایسوسی ایشن راولپنڈی نے کیا تھا ۔ تعزیتی ریفرنس کے بعد راقم نے جاوید صدیق ریذیڈنٹ ایڈیٹر نوائے وقت اسلام آباد‘ روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر مہتاب خاں‘ روزنامہ ایکسپریس اسلام آباد کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر راؤ خالد اور راولپنڈی کے سینئر صحافیوں سے ملاقات کی تو انہوں نے بتایا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے انقلاب مارچ اور آزادی مارچ اکٹھا کرنے کا جو اعلان کیا ہے۔ اس سے وفاقی حکومت سخت پریشان ہو گئی ہے اور حکومت کیلئے صورتحال انتہائی گھمبیر ہوتی جارہی ہے ۔
علامہ طاہر القادری اور عمران خان کے عوامی احتجاج نے آئین اور قانون کو غیر اعلانیہ طور پر معطل کروا کر رکھ دیا ہے اور عوام کے بنیادی حقوق سلب ہو کر رہ گئے ہیں زندگی اور کاروبار مفلوج ہونے سے عوام گھروں اور دفتروں میں محصور ہو گئے ہیں اور شہر اقتدار اسلام آباد کو بھی سیل کرنے کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔ وفاقی دارالحکومت کی ضلعی انتظامیہ نے 14 اگست کو تحریک انصاف کا آزادی مارچ روکنے کیلئے سیکورٹی پلان تشکیل دے دیا ،شہر کو سیل کر دیا گیا جبکہ پنجاب اور آزادکشمیر پولیس کے 10 ہزار سے زائد اہلکار اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ جنہیں مختلف مقامات پر تعینات کر دیا گیا ہے اور انہیں ربڑ کی 25 ہزار گولیاں 10 ہزار آنسو گیس کے شیل اور 5 ہزار بلٹس دی گئی ہیں جبکہ ایک ہزار سے زائد کنٹینر بھی پہنچا دیئے گئے ہیں۔ اسلام آباد کی فضائی نگرانی بھی کی جا ئیگی ، اہم عمارتوں کی فضائی سکیورٹی ایئر ڈیفنس بٹالین کے پاس ہوگی۔ سکیورٹی پلان کو حتمی شکل دینے کیلئے ٹین کور ہیڈکواٹر ز ،ٹرپل ون بریگیڈ اور حساس اداروں سے مشاورت کی گئی ہے ۔فوجی دستے سریع الحرکت فورس کے طور پر سامنے آئینگے اور پولیس و نیم فوجی دستوں کی مدد کرینگے، ریڈ زون اور دیگر حساس مقامات کی سکیورٹی کے انتظامات فوج کے حوالے کر دئیے گئے ہیں ۔ فوج کے 350 جوانوں کے علاوہ اضافی دستے راولپنڈی میں الرٹ رہیں گے 13 اور 14 اگست کو جڑواں شہروں میں موبائل سروس مکمل بند ہوگی پٹرول پمپس اور سی این جی سٹیشن 17 اگست تک بند کرو ا دئیے گئے ہیں۔تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے سرگرم کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاری کیلئے مختلف تھانوں کو وارنٹ جاری کر دیئے گئے ہیں۔ ان دنوں اسلام آباد میں حکومت کے ایوانوں میں ایک ہلچل مچی ہوئی ہے اور یہ ہلچل سٹرکوں پر اترنے کیلئے بھی تیار ہے۔ نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں، کسی انہونی کوٹالنے کیلئے سیاستدان ایک دوسرے سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ ا س کا یااس کا ساتھ دینے کی یقین دہانی کر ا رہے ہیں اور عوام ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا ہونے جارہا ہے ‘کیا ہوگا؟کیا ایک بار پھر مارشل لا لگنے والا ہے‘ کیا پھر 1999 ء کا کھیل دہرایا جائے گا؟۔ایک تاثر یہ بھی ہے کہ حکومت دفعہ 245 کے تحت اسلام آباد میں فوج طلب کرکے خود ہی اسے موقع فراہم کر دیا ہے۔تاہم گزشتہ منگل کو قومی اسمبلی میں نہ صرف حزب اختلاف بلکہ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے بھی آرٹیکل 245 کے نفاذ کی مخالفت کی ہے۔ قائدحزب اختلاف خورشید شاہ نے دھمکی بھی دے ڈالی کہ فیصلہ واپس نہ لیاتو پیپلز پارٹی عمران خان سے بھی بڑا احتجاج کریگی ۔ ان کا کہنا تھا کہ آئین کی دفعہ 245 کا اطلاق جنگی حالات میں کیا جاتا ہے ۔لیکن حکومت نے آزادی مارچ کے خوف سے نافذ کیا ہے ۔وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے یقین دلایا ہے کہ فوج کو سیاسی فتوحات کیلئے استعمال نہیں کیا جائیگا۔ اور عدالتوں کے اختیارات بھی سلب نہیں کیے گئے ۔ اسلام آباد کی عدالت عالیہ بھی کہہ چکی ہے کہ عوام کے حقوق سلب نہیں کیے گئے ۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف ‘عمران خان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تو تیار ہیں لیکن آثار بتاتے ہیں کہ عمران خان نواز شریف سے مذاکرات نہیں کریں گے۔عمران خان نے اپنے کارکنوں میں جتنا جوش و خروش بھر دیا ہے اور جیسے جیسے دعوے کیے ہیں ان کے پیش نظر اب وہ چاہیں بھی تو پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ ایسا کیا تو یہ تحریک انصاف کی سیاسی تواسلام آباد ان دنوں افواہوں کی زد میں ہے لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خاں اور ڈاکٹر طاہر القادری جو14 اگست کو انقلاب مارچ کر رہے ہیں اس سے موجودہ حکومت ختم ہو جائے گی اوراگر عمران خاںاور ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنوں نے حکمرانوں اور ان کے کارکنوں کے ساتھ محاذ آرائی کا سلسلہ شروع کر دیا تو فوج بھی آسکتی ہے۔میڈیا میں جو اطلاعات آرہی ہیں اس سے تو یہی لگتا ہے کہ حکومت اب راولپنڈی اور اسلام آباد میں بھی لاہور جیسے اقدامات کرنے کیلئے پر تول رہی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ حالات کچھ زیادہ بہتر نہیں ۔ احتجاجی مظاہروں‘ لانگ مارچوں اور دھرنوں اور جلسوں کو زبردستی روکنا نقصان کا باعث ہوتا ہے۔ ماضی میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے بھی لانگ مارچ کئے اور وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی سربراہی میں بھی مسلم لیگ (ن) نے لانگ مارچ کئے‘ یہ لانگ مارچ پرامن رہے۔ جمہوریت کی خوبصورتی ہی یہ ہے کہ اس میں اپوزیشن کو احتجاج ریکارڈ کرانے کیلئے لانگ مارچ کرنے یا جلسہ کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ حکومت کا کام اسے سخت اقدامات کرکے روکنا نہیں ہوتا بلکہ احتجاج یا لانگ مارچ کو پر امن رکھنا ہوتا ہے۔راقم کی دورہ اسلام آباد میں محمد اعظم وفاقی سیکرٹری اطلاعات ونشریات سے بھی ملاقات ہوئی۔ ان کا کہنا تھا کہ میرے دفتر کے دروازے صحافیوں کیلئے ہر وقت کھلے ہیں حکومت اور میڈیا کے مابین خوشگوار تعلقات کا فروغ میری اولین ترجیح ہے۔ اخبارات اور جرائد کے اشتہارات کے بلوں کی بقایا رقم جو وفاقی حکومت کے ذمہ تھی وہ کافی حد تک ہم نے ادا کردی ہے بقایا رقم بھی ہم بہت جلد ادا کردیں گے۔