غزہ میں اسرائیلی بربریت جاری ہے، اب تک سینکڑوں فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ مظلوم فلسطینیوں کا خون بے دریغ بہہ رہا ہے۔وزیر اعظم محمد نواز شریف نے ایک ٹوئٹر پیغام میں اسرائیلی بربریت کی مذمت اور نہتے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اسرائیل پہلے بھی کئی بار بربریت کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ پہلی لڑائی 1948ء میں ہوئی جب اسرائیلی بنا۔ اس وقت تین ممالک کی فوجیں اردن مارچ اور مصر کی ان کے خلاف صف آراتھیں۔ دوسری ٹرائی 1967ء میں ہوئی وہ سات دن چلی ، پھر 1973ء میں لڑائی ہوئی۔ یہ سب جنگیں فوجوں اور حکومتوں کے ساتھ تھیں پھر لبنان ہر اسرائیلی جارحیت ہوئی۔ اس جنگ میں فلسطینیوں کا حوصلہ اور جرأت قابل درد تھی۔ ایمبولینس گاڑیاں ، ہسپتال، سکول مسلسل اسرائیلی بمباری کی زد میں فلسیطنیوں کے ثقافتی اور فلاحی مراکز بھی اس وحشیانہ بمباری سے متاثر ہوئے۔ جہاں فلسطینی قیادت کے لوگ تھے۔ خاص طور پر یا سر عرفات سے ایک گلی سے دوسری گلی ایک مکان سے دوسرے مکان تک بمباری ان کا تعاقب کرتی رہی، اس زمانے میں تین باتیں کھل کے سامنے آئیں۔ایک تو یہ اسرائیلی جو اپنے آپ کو تعلیم یافتہ مہذب اور نہایت عالم فاضل لوگ سمجھتے تھے ان کی بربریت نے نازیوں کو بھی مات کر دیا۔ دوسرا جو اس وقت دونوں میں تصفیہ کرانے والا فریق امریکہ تھا اس کی دوسری پالیسی بھی سامنے آئی۔ تیسرے ہمارے بھائی بند اسلامی ممالک کی بے حسی بھی سب پر عیاں ہوئی۔ فلسطینیوں نے بڑی بہادری اور جرأت کا ثبوت دیا۔ فیض احمد فیض نے ایک انٹر ویو میں کہا تھا کہ فلسطینی ایک بات پر تو قائم ہیں کہ انہیں فلسطین اپنا گھر ہر قیمت پر چاہئے۔ آغخری دم تک جب تک ایک بھی فلسطینی باقی ہے اس وقت تک انہیں لڑتے رہنا چاہئے۔فلسطینی کہتے ہیں جب تک ایک بھی فلسطینی باقی ہے فلسطین باقی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ آزادی کی جنگ میں جانیں بھی قربان کرنا پڑتی ہیں، بعض اوقات قومیں مٹ بھی جاتی ہیں، ان کا نام رہ جاتا ہے۔اس نام کی وجہ سے اوروں کو سہارا ملتا ہے، اوروں کو اس سے تقویت ملتی ہے۔سلمیٰ اعوان کا نام فکشن کے حوالے سے بہت معروف ہے۔ حال ہی میں دوست پبلی کیشنر نے ان کا ناول ’’ لہو رنگ فلسطین‘‘ شائع کیا ہے۔کتاب کا انتساب فلسطینیوں اور اسرائیلی جنگوئوں کے نام ہے۔ سلمیٰ اعوان لکھتی ہیں جیلوں میں سالوں پر پھیلے ایام میں جوانیوں کو گلتے سڑتے، بھوکے، تذلیل اور ذلت کے نئے نئے انداز اور رنگوں کا سامنا کرتے اور انہیں سہتے بیٹے سے باپ کا، باپ سے دادا اور دادا سے پردادا بنتے ایک یگ اپنے سروں پر گزار بیٹھے ہیں۔ ان کے سینے میں ایک سوال ہمہ وقت انہیں گھیرے رکھتا ہے۔ رات کتنی تاریک اور لمبی ہے۔ کبھی سحر بھی ہو گی۔!ہاں اے فلسطینیوں ضرور ہو گی، انشاء اللہ ضرور ہو گی کہ یہی قانون فطرت ہے۔پھر وہ لکھتی ہیں کہ اسرائیل کا چہرہ گزشتہ روز موجودہ صدی کے دوران فلسطینیوں پر کئے جانے والے ظلم و ستم اور بربریت کے واقعاتی تسلسل کے حوالوں سے بڑا ہی مکروہ ہے۔تاہم اس پر کہیں کہیں ابرق کے سے جگمگاتے ذرے اس کی خوفناک بد صورتی کی وحشت اور دہشت کو قدرے کم کرتے ہیں۔سلمیٰ اعوان نے کہا کہ ’’میرے تو آنسو نہیں تھمتے تھے۔ جب میں نے یہ سب پڑھا تھا، تم نے تب یہ سب سنا تھا اور چپ رہے، دیکھو بہت آرام کر لیا ہے تم نے بہت سو لیا ، اٹھ جائو اب جانتے ہو فلسطین کے بیٹے اور بیٹیاں کتنی بے آبرو ہو گئی ہیں۔اور پھر یہ کہ انسان تقدیر کے ہاتھوں کتنا مجبور اور لا چار ہے؟ ایک کھلونے کی طرح جس کی کل جب اور جہاں سے چاہو مروڑ کر بے کار کر دو، فلسطین کی ان ہزاروں لاکھوں بیوائوں اور یتیموں کی طرح ، معذوروں اور اپاہجوں کی طرح جن کے لئے زندگی نے آنسوئوں کے تحفے مستقل ان کے نصیبوں میں لکھ دیئے ہیں، تو اب میں جان پائی ہوں ان کے دکھوں کی روح کو اب سمجھی ہوں۔ آگ خود کو لگتی ہے تبھی تپش کا پتا چلتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں، موجودہ صورت حال میں ہر شخص کو ناول’’ لہورنگ فلسطین‘‘ کا مطالعہ کرنا چاہئے، بہت کچھ آپ پر واضح ہو گا اور آپ کے علم میں اضافہ ہو گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024