ٹکرائو نہیں قائداعظم کی پیروی کی ضرورت
سیاست بڑا بے رحم کھیل ہے اس میں کوئی بھی شکل حتمی نہیں ہوتی اور اب یہ بے رحم کھیل شروع ہی نہیں ہوا بلکہ ایسے محسوس ہوتا ہے کہ اپنے منطقی انجام تک جائے گا۔ اس کھیل کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ علامہ طاہرالقادری پارلیمنٹ میں کوئی نمائندہ حیثیت رکھتے ہیں نہ ہی آئین کو مانتے ہیں۔ انقلاب محض انقلاب کے نعرے لگا کر انقلاب نہیں آیا کرتے بلکہ اس کے پس پردہ ایک طاقت و نظریہ ہوتا ہے ۔ علامہ طاہرالقادری کی آمد سے قبل اور بعد میں وطن عزیز پاکستان میں جو بدترین صورت حال پیدا ہوئی اور حکمرانوں نے محض سرکاری رپورٹوں کی بنیاد پر جس طرح پورے ملک کو کنٹینروں کے ساتھ سیل کر دیا، یہ بھی کوئی اچھا اقدام نہیں تھا نہ ہے۔ اس کی جہاں مسلم لیگ(ن) کے حلقوں نے مذمت کی وہاں پاکستان کی اپوزیشن کی تمام جماعتیں بھی کنٹینر ہٹائے جانے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ پاکستان کے تیسرے اور پنجاب کے دوسرے بڑے شہر فیصل آباد میں ماڈل ٹاؤن کے یوم شہدا کے سلسلے میں چوک کچہری بازار میں منہاج القرآن، عوامی تحریک، وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل کی طرف سے قرآن خوانی کی گئی اور دھرنا دیا گیا۔ اس دھرنے میں تحریک منہاج القرآن کی سینکڑوں خواتین نے بھی شرکت کی۔ لیکن اس اجتماع میں جن لوگوں نے شرکت کی ، یہ کیلوں والے ڈنڈے ہاتھوں میں لئے دھرنے میں شریک تھے۔ فیصل آباد جسے مسلم لیگ(ن) کا گڑھ سمجھا جاتا ہے شہر اور ضلع کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی ایک نشست کے علاوہ تمام نشستوں پر مسلم لیگ(ن) کا پرچم لہرا رہا ہے لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ(ن) کی طرف سے تحمل کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، شہر میں کوئی ایسی سرگرمی نہیں دیکھی گئی جس سے افراتفری پھیلے ۔ البتہ جس طرح تحریک منہاج القرآن اور دیگر جماعتوں کی طرف سے بیانات حکومت کے خلاف آ رہے ہیں ، سیاسی حلقوں کی طرف سے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ جب طاہرالقادری کینیڈا سے پاکستان آئے تو اس وقت حکومت نے مس ہینڈل کیا اور طاہرالقادری کو زیرو سے ہیرو بنا دیا۔ احتجاج، دھرنے، لانگ مارچ کرنا ہر جماعت کا جمہوری حق ہے۔ حکمرانوں کو چاہیے تھا کہ وہ اس سلسلے میں ایسی پالیسی مرتب کرتے جس سے سانپ بھی مر جاتا اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹتی کے مصداق ایک جگہ اور شاہراہ مظاہرے، لانگ مارچ اور دھرنے کے سلسلے میں مخصوص کر دی جاتی اور اس سلسلے میں ڈاکٹر طاہرالقادری کو پابند کر دیا جاتا کہ وہ اس مقام اور اس طرح احتجاج کر کے پرامن طور پر منتشر ہو جاتے۔ بہرحال جو کچھ بھی ہوا وہ اچھا نہیں ہوا ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے تہلکہ مچانے والے خطابات بھی جلتی پر تیل کا کام کرتے رہے اور مارو مر جاؤ کے اعلانات نے بھی اس میں اس قدر اشتعال انگیزی اور افراتفری پھیلا دی کہ جس طرح پاکستان اور ہندوستان کی سیاسی جماعتوں کے مابین جنگ ہو رہی ہو۔ چاہیے تو یہ تھا کہ ٹکراؤ کی بجائے ہم قائداعظم محمد علی جناح کی پیروی میں ملک کے دستور کا احترام کرتے ہوئے افہام تفہیم سے کام لیتے مگر تبدیلی اور انقلاب کے نعروں میں جمہوری عمل ہی کو چیلنج کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر طاہرالقادری مذہبی سکالر ہونے کے باعث قابل احترام اور عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں مگر نہ جانے انہیں چوہدری برادران اور کن لوگوں نے سیاست میں شریک کر کے اس طرح کے بیانات پر آمادہ کر لیا ہے۔ بلا شبہ اس سے ڈاکٹر طاہرالقادری کی شخصیت متاثرہوئی ہے۔ بہرحال ملک میں جمہوریت کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس وقت پاکستان کی تمام اپوزیشن جماعتیں قومی اسمبلی میں قرارداد کے ذریعے بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ وطن پاکستان کی بقاء اور سلامتی جمہوریت اور صرف جمہوریت میں ہے ۔
اب جبکہ طاہرالقادری نے 14اگست کو عمران خان کے لانگ مارچ کا حصہ بننے کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ انقلاب مارچ اور لانگ مارچ ایک ساتھ چلیں گے تو ان حالات میں عمران خان کو چاہیے کہ وہ جس طرح شروع سے کہہ رہے ہیں کہ تحریک انصاف قانون اور آئین کے راستے کو اپناتے ہوئے اپنے مطالبات کے لئے اسلام آباد میں لانگ مارچ کے بعد دھرنا دیں گے اسی کے مطابق انہیں اپنی جماعت کو پابند کرنا چاہیے۔
جہاں تک عمران خان کی انتخابات میں دھاندلی کے بارے میں شکایات کا تعلق ہے اس کے تدارک کیلئے مذاکرات ہی جمہوری عمل کا حصہ ہوا کرتے ہیں۔ لہٰذا حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ جمہوری طریقہ اپنائے اور احتجاج کے حق کو لاٹھی سے کچلنے کی بجائے سنجیدگی کا رویہ اختیار کرے۔ حکومت کا فرض ہے کہ وہ عمران خان کو جیسے تیسے ممکن ہو مذاکرات کی میز پر لائے یہی حل ہے جس سے ایک دوسرے میں برداشت کا مادہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا سراج الحق کی کوششیں بھی انتہائی قابل قدر ہیں ۔ لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان بھی ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ جمہوری عمل کو مستحکم بنانے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔ خدا نخواستہ یہ ملک ایک مرتبہ پھر جمہوری عمل سے ہاتھ دھو بیٹھا تو حکمرانوں، اپوزیشن جماعتوں اور سیاست دانوں کو کچھ حاصل نہ ہو گا۔