ملک اور جمہوریت کی بقاء مقدم رہے
قوم نے 14 اگست کو جشن آزادی منانا تھا لیکن صورتحال یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) جشن آزادی منا رہی ہے، تحریک انصاف آزادی مارچ کیلئے پرعزم ہے اور عوامی تحریک انقلاب مارچ کا اعلان کر چکی ہے۔ باقی جماعتوں کی صورتحال کچھ ایسی ہے جیسے شکار کو سامنے دیکھ کر جھپٹنے کیلئے تیاری کی جارہی ہو۔ یہ درست ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی میثاق جمہوریت کا حصہ ہے جس کے تحت دونوں پارٹیوں (مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی) میں معاہدہ ہے کہ وہ ایک دوسرے کی حکومت گرانے کی کوشش نہیں کریں گی۔ لیکن سابق وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ میاں نواز شریف کو انکے ساتھی غلط مشورے دے رہے ہیں۔ یہی مؤقف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی واضح کیا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل ہونے میں حصہ دار نہیں بنیں گے۔ جماعت اسلامی کا کردار اس لحاظ سے بہترین رہا ہے کہ اس نے آگ کو ٹھنڈا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ خیبر پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت میں شریک ہے اس کے باوجود وہ یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہے کہ جماعت اسلامی کسی ایسے کام میں شریک نہیں ہو گی جس سے جمہوریت یا موجودہ نظام کو نقصان پہنچے۔ ایم کیو ایم کے ہاتھ بھی موقع لگا ہے۔ تادم تحریر اس کا مؤقف ہے کہ وہ حالات کا بغور جائزہ لے رہے ہیں‘ وقت آنے پر فیصلہ کیا جائے گا۔ ایم کیو ایم کے ایک رہنما گورنر سندھ جو وفاق کا نمائندہ ہوتا ہے انکا ایک وفد علامہ طاہر القادری کے گھر خواتین بچوں کو کھانا پہنچانے بھی جاتا ہے اور اپنا کردار متعین کرنے پر غور کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کی ابتدا لاہور سے ہونی ہے۔ جنوبی پنجاب سے تحریک انصاف کے تین فرنٹ لائن لیڈروں کا تعلق ملتان اور اسکے ملحقہ ضلع لودہراں سے ہے۔ اس لحاظ سے جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود حسین قریشی کی آزادی مارچ کے سلسلے میں کوششیں پورے صوبے میں جاری تھیں مگر پارٹی کے سیکرٹری جنرل جہانگیر ترین کی سرگرمیاں میڈیا میں زیادہ ہائی لائٹ نہ ہو سکیں۔ مخدوم شاہ محمود حسین قریشی وقت نکال کر اپنے دونوں حلقہ انتخاب میں صوبائی حلقہ کی سطح پر ٹیلی فونک خطاب کر کے لوگوں کو آزادی مارچ میں شمولیت کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ عوامی تحریک کے یوم شہداء کے موقع پر پورے جنوبی پنجاب کی انتظامیہ متحرک تھی اور درجنوں شہروں میں ‘ چھاپوں کے دوران سینکڑوں کارکنوں کو نظربند یا گرفتار کر لیا گیاتھا۔ اطلاعات کے مطابق مظفرگڑھ میں 36‘ ملتان میں 52‘ وہاڑی میں 60‘ خانیوال میں 22 افراد کو یا تو نظربند کر دیا گیا یا پھر گرفتار کر لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ لودھراں‘ کوٹ ادو‘ کبیروالا‘ جہانیاں‘ بورے والا‘ میلسی‘ میاں چنوں‘ کہروڑ پکا‘ دنیاپور‘ ٹبہ سلطان پور‘ محسن وال‘ کرم پور‘ شاہ جمال‘ تلمبہ‘ کرمداد قریشی اور دیگر علاقوں میں پولیس نے پوری مستعدی کے ساتھ چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا۔ پورے جنوبی پنجاب میں عمران خان کے سخت مؤقف اور علامہ طاہر القادری کی اشتعال انگیز تقاریر نے کافی اثرات مرتب کئے ہیں۔ اور عوام یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ مؤقف میں سختی کے اثرات جمہوریت بلکہ پاکستان کی بقاء پر بھی مرتب ہو سکتے ہیں۔ لوگ خوفزدہ ہیں کہ عراق‘ مصر‘ لبنان‘ شام اور مشرق وسطی کے دیگر علاقوں میں جو کھیل کھیلا جا رہا ہے کیا اس کی ابتداء پاکستان میں بھی ہو گئی ہے۔ یہ درست ہے کہ عمران خان کے مطالبات پر حکومت نے توجہ کرنے میں دیر کی لیکن اس حد تک جانا خصوصاً ان حالات میں جبکہ حکومت گھٹنے ٹیک چکی ہے مؤقف میں سختی برقرار رہنا عوام کے لئے ناقابل فہم ہے۔ علامہ طاہر القادری کے گھر کے سامنے سے بیریئر ہٹانے کے سانحہ کے بعد حکومت نے جو کچھ کھویا تھا اب تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے مؤقف کی سختی نے اس میں کافی کمی کر دی ہے اور حکومت خود کو مظلوم ثابت کرنے میں کامیاب ہوتی جارہی ہے۔ سیاست اور مذاکرات کو الگ کرنے کا مطلب آمریت ہے۔ اب ملک جبکہ ایک مرتبہ پھر ٹیک آف کی پوزیشن میں آ رہا ہے ہم نے معاملات کو مذاکرات کی میز پر سلجھانے کی بجائے سڑکوں پر سلجھانے کی کوشش کی تو اس سے جمہوریت کو نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔