یوں تو پاکستان کی بنیاد اس وقت ہی پڑ چکی تھی جب 18 سالہ نوجوان محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا اور ملتان تک کے علاقے میں اسلامی مملکت کی بنیاد رکھی۔ بعد کے 800 سال وقت کے نشیب و فراز کے ساتھ برصغیر ہند مختلف مسلمان حکمران خاندانوں کی سلطنت کا حصہ رہا۔ 1857ءمیں سلطنت مغلیہ کے زوال کے بعد جب آخری حکمران بہادر شاہ ظفر کو شکست دے کر انگریزوں نے ہندوستان پر قبضہ کی تکمیل کی تو انگریز حکمرانوں اور ہندوﺅں کے مسلم مخالف گٹھ جوڑ نے مسلمانوں کو غلامی کے اندھیرے غار میں دھکیلنے کی مذموم کوششیں شروع کر دیں۔ انگریز سامراج کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں سے تھا کیونکہ یہ حاکم قوم تھی، کسی وقت بھی سر اٹھا کر عظمت رفتہ بحال کرنے کی کوشش کر سکتے تھے اور ہندو جو طویل عرصہ سے رعایا بن کر رہ رہے تھے اسی حال میں مطمئن اور خوش تھے بلکہ اب انہیں انگریزوں سے مل کر مسلمانوں کو دبانے کا موقعہ ہاتھ آ گیا تھا۔ انگریز حکومت نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ ہندوﺅں کی سرپرستی کریں اور مسلمانوں کی کمر توڑ دیں تاکہ یہ خطرہ ہمیشہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ سارے برطانوی ہندوستان میں ہندوﺅں کو سرکاری ملازمتوں اور دیگر ہر قسم کی مراعات سے نوازا جانے لگا۔ شاطر ہندوﺅں نے موقعہ سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مسلم دشمنی دونوں فریقوں کی مشترکہ حکمت عملی بن گئی۔ ہندو لیڈروں نے مسلمانوں کی بے توقیری اور بدلتے حالات میں انکے فکری فقدان کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندو مسلم اتحاد کا ڈھونگ رچایا کہ انگریز کے جبر کے سامنے ہندو مسلمان مل کر ہی اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف ہر شعبہ¿ زندگی میں انگریز کی تابعداری اور بھرپور تعاون کی حکومت کو یقین دہانی کرا دی۔ 1885ءمیں ایک انگریز ہی نے کانگریس پارٹی کی بنیاد رکھی تو ہندو سیاست دانوں نے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے اس میں جوق در جوق شمولیت اختیار کی۔ مسلمان جو غدار حاکموں اور بہادر شاہ ظفر کی شکست کے بعد دل شکستہ پریشان حال تھے انہیں کانگریس میں شمولیت ہی میں اس زبوں حالی سے نکلنے کی امید نظر آئی۔ انہیں ہندوﺅں کے خبث باطن کا اتنا ادراک نہ تھا کہ وہ کس حد تک فریب دہی اور دھوکا بازی کر سکتے ہیں۔ یہ صورت حال 1906ءتک قائم رہی۔ مسلم سیاستدان کانگریس میں شامل ہو کر سیاسی حقوق کی جدوجہد میں متحد رہے۔ آہستہ آہستہ یکے بعد دیگرے ہندو ذہنیت کی دوغلی سیاست کے خاردار گوشے نمایاں ہونے لگے۔ پے درپے مسلم مفادات پر فریب، دھوکہ دہی، وعدہ خلافی اور بداعتمادی کے متعدد واقعات نے مسلمان لیڈروں کو حالات کا ازسرنو جائزہ لینے پر مجبور کیا۔ اس پس منظر میں ڈھاکہ میں 1906ءمیں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا اور مسلمانوں کے حقوق کی پاسداری کیلئے باقاعدہ سیاسی جدوجہد کا آغاز ہوا۔
انگریز سامراجی پالیسیوں کے تحت سرکاری ملازمتوں، کاروبار اور صنعت کاری کے میدان میں مسلمانوں کا عمل دخل کم ہوتا جا رہا تھا۔ غربت، بے توقیری، بے روزگاری مسلم معاشرت کو تباہ کر رہی تھی، لیڈرشپ کا فقدان اور معروضی بدلے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے گہری سوچ سمجھ سے حل نکالنے کی ضرورت تھی۔ اس بے یقینی سے نکالنے کا کام سرسید احمد خاں کی دوراندیش بصیرت نے کیا۔ بدلتے حالات و واقعات کا مقابلہ کرنے کیلئے روایتی طرز فکر کے ساتھ ساتھ قوم کو جدید طرز تعلیم اور انگریزی زبان پر عبور حاصل کر کے علمی اور عملی میدان میں آگے بڑھنے کا پیغام دیا۔ اس پر اک نئی بحث چل پڑی۔ سرسید احمد خان پر انگریز کا پٹھو اور اسلام مخالف قوتوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگایا گیا، یہاں تک کہ خارج از اسلام ہونے کے فتوے بھی صادر کر دیئے گئے لیکن اس مرد حق شناس نے اپنے مشن کو جاری رکھا اور علی گڑھ میں جدید علوم اور انگریزی زبان پر دسترس حاصل کرنے کیلئے عظیم علمی ادارے کی بنیاد رکھی اور ہندوستان کے طول و عرض میں دورے کر کے فنڈز اکٹھے کئے۔ یہ ادارہ بعد میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہوا اور مسلمانوں کی ملی وحدت اور جدوجہد آزادی کا قافلہ سالار بنا۔ یہیں سے مسلم لیگ اور قائداعظمؒ کی رہنمائی میں دو قومی نظریہ پروان چڑھا۔ مسلمانوں کو اعلیٰ حکومتی اداروں میں ملازمتیں ملنے لگیں۔ خود اعتمادی اور ملی یک جہتی نے قوم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ مولانا الطاف حسین حالی نے مسدس حالی لکھ کر مسلم ضمیر کو جھنجوڑا۔ محنت اور سخت کوشی سے ترقی کرنے کا عندیہ دیا اور قوم میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کیا۔ حالات تیزی سے بدلنے لگے۔ قائداعظمؒ جو پہلے کانگریس میں شامل تھے ہندوﺅں کی وعدہ خلافیوں اور بدنیتی کے متعدد واقعات کے بعد سخت بددل تھے، مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے۔ اس وقت مسلم لیگ کا نصب العین برطانوی ہندوستان میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ تھا جسے کانگریس مسلسل نظرانداز کرتی آ رہی تھی۔ مسلم لیگ نے مسلمانوں کی علیحدہ قومی حیثیت منوانے کیلئے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ پیش کر دیا تو پنڈت جواہر لعل نہرو کی سرکردگی میں حکومت نے جائزہ کمیٹی قائم کر دی۔ انہی دنوں مولانا محمد علی، شوکت علی جوہر کی قیادت میں تحریک خلافت زوروں پر تھی۔ مسلمان اس میں جوق در جوق شامل ہو کر انگریزوں کے خلاف اور ترکی کی حمایت میں پرزور مظاہرے کر رہے تھے۔ مہاتما گاندھی نے کمال منافقت سے کام لیتے ہوئے تحریک خلافت میں مسلمانوں کا ساتھ دینے کا ڈھونگ رچایا۔ یہ دوقومی نظریئے کے خلاف ایک شاطرانہ چال تھی جو کامیاب نہ ہوئی۔ تحریک خلافت ماند پڑی تو نہرو رپورٹ سامنے آ گئی جس میں جداگانہ انتخاب کے مسلم لیگ کے مطالبہ کو مسترد کر دیا گیا تھا۔
قائداعظمؒ نے 1929ءمیں مطالبات کے 14 نکات پیش کر دیئے، کانگریس نے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس صورتحال کے پیش نظر 1930ءمیں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس الہ آباد میں منعقد ہوا جس کی صدارت حضرت علامہ محمد اقبالؒ نے کی۔ اس کانفرنس کا پس منظر بنگال، بہار، اڑیسہ، بنارس، آگرہ، بمبئی اور ہندوستان کے اکثر دوسرے علاقوں میں بڑے پیمانے پر مسلم کش فسادات میں ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں بے گناہ مسلمانوں کے خون کی ہولی تھی، ہزاروں مردوں عورتوں اور بچوں کا قتل مسلمانوں کے محلے اور مکانات جلا کر لوگوں کو بے گھر کر دیا گیا تھا، اس ہندو مسلم تضادات اور دشمنی کھل کر سامنے آ گئی تھی۔ کانگریس کی ہٹ دھرمی بھی مسلسل جاری تھی۔ (جاری ہے)
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024