کوٹ ادو‘ دائرہ دین پناہ دوبارہ خالی ۔۔ سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض پھوٹنے والے ہیں‘ 10 کروڑ ڈالر کی ضرورت ہے : ڈبلیو ایچ او
لاہور + سکھر (نامہ نگاران + ریڈیو نیوز + ایجنسیاں) پنجاب میں سیلاب کی صورتحال بدستور تشویشناک ہے۔ کوٹ ادو‘ دائرہ دین پناہ اور محمود کوٹ خالی کرا لئے گئے۔ ریلا سناواں کے قریب پہنچ گیا ہے اور مظفرگڑھ سے 8 کلومیٹر دور رہ گیا ہے تاہم ہمارے نامہ نگار کے مطابق مظفرگڑھ شہر کو خطرہ نہیں۔ جیکب آباد کے کئی علاقوں کو خالی کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور یہاں شہباز ایئر بیس ڈوبنے کا خدشہ ہے‘ خان گڑھ کے قصبہ شاہ جمال میں سینکڑوں شہری محصور ہو گئے ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض کسی بھی وقت پھوٹ سکتے ہیں‘ 100 ملین ڈالر سے زائد درکار ہیں۔ ڈبلوی ایچ او نے کہا ہے 3 ملین ڈالر کی ادویات متاثرین میں تقسیم کر دی گئی ہیں جبکہ 15 فیصد سیلاب زدگان کو ادویات کی فوری ضرورت ہے۔ عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ سیلاب سے بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔ ٹھٹھہ سے عوام کے زبردستی انخلا کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے مزید تباہی کا اندیشہ ہے‘ عالمی برادری فوری مدد کرے۔ جناح، چشمہ اور تونسہ بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ نامہ نگار کے مطابق میانوالی میں دریائے سندھ کے مقام پر ایک مرتبہ پھر اونچے درجے کا سیلاب ہے، دریائے سندھ کے دونوں کنارے سینکڑوں دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے، پانی میں گھرے سینکڑوں افراد کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔ لوگوں کے پاس نہ پینے کے لئے پانی ہے اور نہ کھانے کے لئے راشن، سینکڑوں ہزاروں افراد کئی کئی روز سے بھوکے پیاسے روزے سے موجود ہیں۔ بی بی سی کے مطابق پاکستان میں گذشتہ 80 برس کے دوران آنے والے سب سے تباہ کن سیلاب سے متاثرہ افراد میں امداد کی فراہمی میں سست روی کے باعث بے چینی اور اشتعال پھیل رہا ہے جبکہ اگلے چوبیس گھنٹے کے دوران کالا باغ اور چشمہ کے مقامات پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہو گا جس کی وجہ سے میانوالی‘ ڈیرہ اسماعیل خان اور لیہ اضلاع کے نشیبی علاقے زیر آب آ سکتے ہیں۔ اسلام آباد سے نامہ نگار کے مطابق وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے سیلاب متاثرین کی امداد کے لئے انٹرنیشنل ڈونرز کانفرنس وقت آنے پر ضرور بلائی جائے گی لیکن اس سے پہلی ہونے والی کانفرنس کے بھی اتنے نتائج نہیں آئے تھے جتنی ہمیں توقع تھی۔ پاکستان کے بڑے ٹیکس دہندگان کی کانفرنس بہت جلد بلائی جا رہی ہے‘ حالیہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ لگانے کا کام 25 اگست سے شروع ہو گا‘ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بتایا صوبائی حکومتوں کو مطلوبہ امداد فراہم کی جا رہی ہے۔ ریلیف آپریشن 90 دن تک جاری رہے گا‘ جس کے بعد بحالی اور تعمیرنو کا کام شروع ہو گا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق پاکستان اور بھارت میں مشرقی دریا اور ڈیم تقریباً بھر چکے ہیں‘ آئندہ 3 سے 4 ہفتوں کے دوران پہاڑوں پر مون سون کی شدید بارشوں سے چناب‘ جہلم‘ راوی اور ستلج میں سیلاب کا شدید خطرہ ہے‘ تمام متعلقہ حکام کو ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ دریائے سندھ میں کلورکوٹ کے مقام پر بدستور انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ سندھ میں چشمہ کے مقام پر 7 لاکھ 80 ہزار کیوسک سے زائد کا ریلا گذر رہا تھا۔ ریلے کی وجہ سے گذشتہ 10 دنوں سے کچہ نشیب کا کلورکوٹ سے لیہ تک کا علاقہ مسلسل زیر آب چلا آ رہا ہے۔ سات لاکھ کیوسک کا انتہائی اونچے درجے کا ریلا بھکر میں داخل ہو گیا ہے اور بیس سے زائد بستیاں زیر آب آ گئیں۔ پانی میں رہنے والے افراد جلدی امراض گیسٹرو اور ہیضہ کی بیماریوں میں مبتلا ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ چیف سیکرٹری سندھ فضل الرحمن نے کہا ہے کچے کے لوگوں کو ہر صورت میں محفوظ مقامات پر منتقل ہونا پڑے گا اور جو لوگ منتقل نہیں ہوں گے انہیں فوج اور رینجرز کی مدد سے زبردستی نکالا جائے گا۔ سندھ میں گدو‘ سکھر اور کوٹری بیراج پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب ہے اور لاڑکانہ خیرپور پل کو حساس قرار دے دیا گیا جبکہ قومی شاہراہ زیر آب آنے سے پنجاب اور صوبہ خیبر پی کے جانے والی ٹریفک معطل ہو گئی۔ پنجاب میں بھی نہر میں شگاف پڑنے کی وجہ سے ہائی وے زیر آب آ گئی ہے جس کے باعث پنجاب سندھ کے مابین آمد و رفت معطل ہو گئی ہے۔ اسی طرح ڈیرہ غازی خان اور راجن پور کا زمینی رابطہ پانچویں روز بھی بحال نہ ہو سکا۔ ثناءنیوز کے مطابق جیکب آباد کے کئی مزید علاقے پانی کی زد میں آ گئے‘ میرپور برڑو میں 9 افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ جیکب آباد سے شہریوں نے نقل مکانی شروع کر دی۔ سکھر بیراج پر پانی کی سطح گیارہ لاکھ 20 ہزار جبکہ گڈو بیراج پر دس لاکھ 15 ہزار کیوسک برقرار ہے۔ سیلاب کے باعث لاڑکانہ کے مختلف بچا بندوں پر پانی کا شدید دباﺅ ہے اورکچے کے بیشترعلاقے زیرآب آچکے ہیں۔ضلع خیرپور کے جمشید لوپ بند، الرا جاگیر بند اور فرید آباد بند پر بھی پانی کے دباﺅ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ راضی ڈیرو کے قریب گوٹھ پنھل کورائی میں دو بچے سیلابی پانی میں بہہ گئے تاہم ایک کو بچا لیا گیا۔ مظفر گڑھ کے علاقے شاہ جمال میں ریلے نے 80 بستیوں کو متاثر کیا ہے۔ کوہ سلیمان کے پہاڑی سلسلے میں گذشتہ رات مزید بارشوں کے بعد ڈیرہ غازی خان، تونسہ اور راجن پور کے برساتی ندی نالوں میں طغیانی آگئی ہے جبکہ دریائے سندھ سے متاثر ہونے والے علاقوں میں لوگوں کو خوراک کی قلت کا سامنا ہے۔ راجن پور کے علاقے جام پور اور کوٹ مٹھن میں کئی کئی فٹ سیلابی پانی کھڑا ہے اور نکاسِ آب کا کوئی بندوبست نہیں ہو سکا۔ ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے علاقے بھونگ کے مقام پر ٹوٹنے والے بچا بند کو ابھی تک پر نہیں کیا جا سکا جس سے مسلسل پانی بہہ رہا ہے اور متعدد دیہات زیر آب آگئے ہیں ۔علاقے کے لوگ نقل مکانی کر کے سڑکوں اور نہر کے کنارے کھلے آسمان تلے موجود ہیں ۔ جھنگ میں تریموں ہیڈ ورکس کے مقام پر اونچے درجے کا سیلاب ہے۔ ضلع کوہستان میں متاثرین 15ویں روز بھی امداد کے منتظر ہیں اور بعض علاقوں میں آٹے کی قیمت 1500 روپے فی 20 کلو تک پہنچ گئی ہے۔ آن لائن کے مطابق کوٹری بیراج میں مسلسل پانی کی سطح میں اضافے سے حیدر آباد کے قریب ٹنڈو محمد خان کے کاسیار حفاظتی بند سے ملحقہ 17 دیہات کو حساس قرار دیا گیا ہے۔ ٹنڈو محمد خان میں 21 امدادی کیمپ قائم کئے گئے ہیں۔ڈی سی او ٹنڈو محمد خان علی احمد لوند کےمطابق ممکنہ سیلاب سے 17 دیہات میں 30 ہزار افراد متاثر ہوں گے۔ ڈی سی او خیرپور کے مطابق فرید آباد اور دیگر بندوں کی صورتحال خطرناک ہے۔ پاک فوج اور رضاکار بندوں کی نگرانی کر رہے ہیں۔ ریلا غوث پور، کرم پور کے بعد خان پور شہر کی حدود میں داخل ہوگیا ہے جس سے زبردست تباہی ہوئی ہے۔ سینکڑوں مکانات منہدم ہوگئے ہیں۔ سینکڑوں متاثرین خان پور کندھ کوٹ انڈس ہائی وے پر بے یارومددگار امداد ے منتظر ہیں۔ ریلاجیکب آباد کے علاقے ٹھل کے بعد مبارک پور، کریم بخش اور جیکب آباد شہر کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کندھ کوٹ، ٹھل، غوث پور اور کرم پور سمیت جیکب آباد کے مختلف علاقوں سے نقل مکانی کرنیوالے متاثرین کا کہنا ہے کہ کوئی حکومتی اہلکار یا ادارہ ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ گھوٹکی کی تحصیل اوباڑو میں رینی کینال میں صورتحال سنگین ہوگئی ہے۔ قادر پور گیس فیلڈ گھوٹکی سے گیس کی سپلائی بحال کردی گئی ہے۔ دادوکی تحصیل میہڑ میں امداد کی عدم فراہمی پر متاثرین نے احتجاج کیا اور ٹائر جلائے۔ پانی کی شدت سے سکھر شہر کی حفاظتی دیوار میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جبکہ مظفر گڑھ کے علاقے اڈہ بصیراں سے سیلابی ریلا شاہ جمال میں تباہی مچا کر خان گڑھ اور روہیلا والی کی جانب بڑھ رہا ہے۔ سیلاب کے باعث نوشہرو فیروز کے سو سے زائد دیہات زیرآب آگئے ہیں جبکہ سیلاب جیکب آباد کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ سیلاب کے باعث لاڑکانہ کے مختلف بچاﺅ بندوں پر بھی پانی کا شدید دباﺅ ہے اور کچے کے بیشتر علاقے زیر آب آچکے ہیں۔ محکمہ موسمیات نے دریائے سندھ میں سیلاب کی تازہ صورتحال جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ مون سون کی بارشوں کے دوسرے سلسلے کے نتیجے میں 36 گھنٹے پہلے دریائے سندھ اور دریائے کابل پر بننے والا بڑا سیلابی ریلا اب جنوبی پنجاب سے گزر رہا ہے اور آئندہ چند دن میں یہ ریلا گدو اور سکھر میں موجود پہلے ریلے سے جا ملے گا جس کے نتیجے میں صوبہ سندھ میں مزید تباہی کا اندیشہ ہے۔ پاکستان کے چیف میٹرولوجسٹ حضرت میر نے بتایا کہ اس ریلے سے صوبہ سندھ کے آٹھ اضلاع کے مزید متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی سرگرمیوں کے ترجمان نے غیر ملکی خبررساں ادارے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سیلاب سے زرعی شعبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ فی الحال نقصانات کا حتمی اندازہ نہیں لگایا جا سکا لیکن عالمی ادارے زرعی شعبے سے وابستہ روز گار کی بحالی کےلئے کوشش کریں۔ انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ پاکستان میں تباہ کن سیلاب سے فصلوں کی تباہی کے بعد ملک میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ اقوامِ متحدہ کے خوراک و زراعت کے ادارے ایف اے او کا کہنا ہے کہ سیلاب کی وجہ سے کچھ علاقوں میں مکمل طور پر فصلیں تباہ ہو چکی ہیں اور مویشی لاپتہ ہیں۔ ادارے کی جانب سے جاری کردہ اندازوں کے مطابق سیلاب سے پاکستان میں سات لاکھ ہیکٹر رقبے پر کاشت کی گئی فصلیں یا تو تباہ ہو چکی ہیں یا زیرِ آب ہیں۔ایف اے او کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس سیلاب کا اثر ملک میں گندم کی آئندہ فصل پر بھی پڑے گا۔پاکستان میں ایف اے او کے ہیڈ آف پروگرامز ڈیوڈ ڈولان کے مطابق ملک میں قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا ہے جس کے مقامی آبادی کی فوڈ سکیورٹی‘ پر گہرے اور سنگین اثرات مرتب ہوں گے۔ بی بی سی کے مطابق انہوں نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ آبادی میں سے 75 فیصد کی زندگی کا دارومدار زراعت پر ہے اور ان کا ادارہ اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہا ہے کہ ان متاثرین کے پالتو مویشیوں کو مرنے سے بچایا جاسکے۔ اقوام متحدہ نے خیبر پی کے میں سیلاب سے متاثرہ 11 اضلاع میں نقصانات کا ابتدائی سروے مکمل کرلیا۔ ابتدائی نتائج کے مطابق 26 لاکھ افراد کو امداد کی فوری ضرورت ہے۔ ان علاقوں میں 21 فیصد مکانات مکمل طور پر تباہ جبکہ 18 فیصد کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔