عالمی سطح پر امریکہ کی تنہائی ٹرمپ کے لہجے کاا نجام 

Apr 13, 2025

غلام حیدر شیخ

اسرائیل کی اندھی حمایت ، مشرقی طاقتوں سے تصادم اور اقوام متحدہ سے بے رخی کی وجہ سے امریکہ عالمی تنہائی کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے ، صدر ٹرمپ کی معاشی پالیسیاں ،موجودہ خارجہ پالیسی کی ناکامی سفارتی تنہائی کی طرف اشارہ ہے ، دوسری طرف امریکہ اپنی جارحانہ پالیسیوں ، اسرائیل نوازی اور یورپی طاقتوں سے محاذ آرائی کی وجہ سے عالمی سطح پر تنہائی کے گرداب میں ڈوبتا دکھائی دے رہا ہے ۔صدر ٹرمپ کے معاشی پالیسی، درآمدی محصولات (Tariffs  ) اور عالمی تجارتی معاہدوں سے دستبرداری یا ان میں ترمیم بظاہر امریکی صنعتوں اور روزگار کے تحفظ کے لئے تھے ، تاہم ان کے کچھ ممکنہ مثبت اور منفی اثرات امریکہ کی معیشت اور عالمی سطح پر نمودار ہو ئے ہیں ، داخلی طور پر مثبت پہلو جو عیاں ہو رہے ہیں ان میں کچھ مقامی صنعتوں کو وقتی فائدہ ہوا ، جیسے اسٹیل اور آٹو انڈسٹری، بعض علاقوں میں عارضی طور پر روزگار میں اضافہ ہوا ، چین کے ساتھ تجارتی جنگ نے کچھ امریکی حلقوں میں پذیرائی ملی، کیونکہ چین پر الزامات تھے کہ وہ غیر منصفانہ تجارتی طریقے اپناتا ہے ۔
ان مثبت پہلوئوں کے باوجود امریکہ کی سا کھ پر منفی پہلو بھی ابھر رہے ہیں ، جن میں کثیر الملکی معاہدوں ( جیسے پیرس معاہدہ ، ٹی پی پی ) سے نکلنے سے امریکہ عالمی قیادت کے کردار سے پیچھے ہٹتا دکھائی دیتا ہے ، یورپی یونین ، کینیڈا اور دیگر تجارتی شراکت داروں کے ساتھ کشیدگی بڑھی ، محصولات اور تجارتی جنگوں نے عالمی منڈیوں میں بے یقینی پیدا کی ، جو آخر کار امریکی صارفین اور کاروبارپر بھی اثر انداز ہوئی ، اگر چہ ٹرمپ کا مقصد امریکہ کے مفادات کا تحفظ تھا لیکن ان کے اقدامات نے امریکہ کو عالمی سطح پر تنہا کر دیا ، عالمی معیشت باہم مربوط ہے اور تنہائی کی پالیسی طویل مدت میں نقصان دہ ثابت ہو گی ۔
امریکہ اپنے جارحانہ طرز عمل کی وجہ سے دنیا سے الگ ہو کر خسارے میں رہے گا ، چین کے خلاف سخت مئوقف جیسا کہ ٹرمپ امتظامیہ نے اختیار کیاہے وہ وقتی طور پر سیاسی فائدہ مند تو ہو سکتا ہے مگر عالمی تجارتی منڈی میں اسکے منفی اثرات نمایاں ہو ں گے ، جب امریکہ نے چین پر بھاری محصولات عائد کئے ، تو چین نے بھی جوابی اقدامات کئے ، اس سے دونوں ممالک کی بر آمدات متاثر ہوئیں ، اور عالمی تجارتی زنجیروں( Supply chain ) میں خلل پیداہوا ، اسی طرح امریکی کمپنیوں ایپل ، ٹیسلا اور دیگر بڑی امریکی کمپنیاں جو چین میں کاروبار کرتی ہیں انہیں خاطر خواہ نقصان ہوا ، اور انہیں اپنی پیداوارکو دوسرے ممالک میں منتقل کرنا پڑا جس سے لاگت میں بھی اضافہ ہو ا ہے ، دنیا کیلئے امریکہ کی ناپسندیدہ معاشی پالییسیوں اورامریکہ کے اقدامات کے رد عمل میں روس ، ایران ، یورپ اور دیگر ایشیائی ممالک کے ساتھ چین نے تجارتی و معاشی اتحاد مضبوط کیا جس سے امریکہ کی تجارتی بر تری چیلنج ہوئی ہے ۔ٹرمپ کی جانب سے محصولات عائد کرنے کے فیصلے کے بعد عالمی سطح پر متعدد ممالک کی اسٹاک مارکیٹس کریش کر گئیں تھیں جس سے ممکنہ طور پر عالمی معیشت اور مہنگائی پر کئی اہم اور منفی اثرات مرتب ہو ئے ، جس میں محصولات سے عالمی تجارت متاثر ہو ئی ، کیونکہ ممالک کے مابین درآمدات پر پابندیاں یا جوابی محصولات لگانے کے عمل سے سپلائی چین متاثر ہو ئی ، اور اشیاء کی ترسیل میں تاخیر سے پیداوار مہنگی ہونے کا سبب بنی ، دوسرا یہ کہ اگر خام مال یا صنعتی پرزہ جات پر ٹیکس لگیں گے تو انکی لاگت بڑھے گی جو بالآخر صارفین تک مہنگی اشیاء کی صورت میں پہنچے گی، تیسری بات کہ ٹرمپ کی پالیسیاں ایندھن ، خواراک اوردیگر بنیادی اشیاء کی عالمی فراہمی پر اثر انداز ہوں گی ، جس سے یہ شعبے براہ راست مہنگائی میں اضافے کا سبب بن جائیں گے ۔
امریکہ کی خارجہ پالیسی اور عالمی طاقت بننے کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات ہیں جن سے اندازہ ہو تا ہے کہ امریکہ نے کبھی بھی کسی ابھرتی ہوئی طاقت کو آسانی سے قبول نہیں کیا ، چاہے وہ سوویت یونین یا چین حتیٰ کہ یورپی یونین ہی کیوں نہ ہو ، جیسے ہی کسی ملک یا خطے نے خود مختاری یا اثر رسوخ حاصل کرنے کی کو شش کی امریکہ نے اسے سیاسی ،معاشی اور فوجی دبائو ڈال کراپنے زیر اثر رکھنے کی کوشش کی ، یہ ایک فکری اور نفسیاتی زاویہ ہے کہ امریکہ ذہنی طور پر دہشت پسند ہے ، جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ طاقت کے توازن کو کس طرح اپنے حق میں رکھتا ہے، چاہے وہ پر امن ہو یا زور و جبرسے ، امریکہ نے عراق ، افغانستان، لیبیا ، شام ، ویتنام اور دیگر کئی ممالک میں براہ راست مداخلت کی ، جمہوریت کا نام لے کر دخل اندازی کی ، لیکن نتائج میں زیادہ تر عدم استحکام ، تباہی اور خانہ جنگی سامنے آئی ۔امریکہ صرف فوجی طاقت سے نہیں بلکہ میڈیا ، ثقافت ( ہالی ووڈ ) ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور اکنامک جیسی پابندیوں کے ذریعے دنیا پر ایک نفسیاتی دبائو قائم رکھتا ہے ، جو قومیں اس دبائو سے نہ جھکیں ان کو دہشتگرد ، بد عنوان یا ناکام ریاست قرار دے دیتا ہے ،موجودہ بدلتی عالمی صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی محصولات پر مبنی پالیسی صرف ایک معاشی قدم نہیں تھا بلکہ یہ ایک سفارتی اور اسٹریٹجک ہتھیار تھا جسے استعمال کیاگیا ، تاکہ یورپین یونین ، چین، کینیڈا ، میکسیکو اور دیگر ممالک کو اپنی شرائط پر تجارتی معاہدوں پر پابند کیا جاسکے ۔  
ٹرمپ طاقت کے نشے میں سفارتی تہذیب کی پامالی کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے اور قومی مفادات کو ذاتی فتح کے انداز میں پیش کرتے ہیں ، ان کا غیر روائتی طنزاور کبھی کبھار توہین آمیز انداز گفتگو بین الاقوامی سفارتکاری میں توہین ، بے عزتی اور عدم سنجیدگی کو ظاہر کرتا ہے ،ٹرمپ کے توہین آمیز رویہ نے نہ صرف عالمی معیشت میں بے چینی پیدا کی بلکہ امریکہ کے روائتی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں بھی دراڑین ڈالیں، اس رویے نے امریکہ کو سفارتی تنہائی کی طرف دھکینا شروع کر دیا ہے ، عالمی سطح پر امریکہ کی تنہائی ٹرمپ کے لہجے کا انجام بن سکتا ہے ، ، ٹرمپ کے محصولات عائد کرنے اور اس پر یو ٹرن سے امریکہ میں خدشات پائے جاتے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے وال اسٹریٹ ڈونرز کو فائدہ پہنچانے کیلئے اسٹاک مارکیٹس کو استعمال کیا ، جو کہ یقینی طور پر کرپشن لگتی ہے ، ا لزبتھ وارن کا یقینی کرپشن کا خدشہ اعتماد کا بحران ظاہر کرتا ہے جو کہ جمہوری اداروں پر اعتماد کے فقدان کی نشاندہی ہے ، او ر یہ امریکہ جیسے ملک کیلئے خطرناک رجحان ہے ۔ 

مزیدخبریں