دہشت گردی اسباب و علاج۔

Apr 13, 2025

ذوالفقار علی … صدائے علی

ذوالفقار علی۔                

ریاست،افواج پاکستان،عدلیہ،آئین اور پارلیمان اور عوام کے حقوق کا تخفظ سب سے مقدم ہیں۔ریاست مخالف بیانیہ ملک،پارلیمان سے غداری اور ناقابل معاف جرم ہے۔اب ریاست،افواج،عدلیہ،آئین اور پارلیمان کے استحکام کے لئے عوام کے حقوق کا تخفظ ناگزیر اور اولین ہیں۔ریاست اور اس کے ذیلی طاقتور اداروں کا آئینی فرض ہے۔کہ عوام کے جانی،مالی تخفظ کے تقاضوں کو ہر صورت لازمی پورا کرے۔بصورت دیگر ریاستی اداروں کے آئینی کردار پر سوالات اْٹھیں گے۔کوئی محب وطن،ریاست اور اس کے ذیلی لازمی عناصر اور قوتوں کے خلاف ہتھیار نہیں اْٹھا سکتا۔دھائیوں سے جاری اور وقتًا فوقتًا سر اْٹھانے والے سنگین، سلگتے،دیرینہ مسئلے دہشت گردی کا علاج صرف فوجی اور ریاستی طاقت کا استعمال ہر گز نہیں ہے۔جب کسی خطے یا پٹی کے عوام کو بنیادی حقوق کی فراہمی رْک جائے۔ان کا معاشی اور سیاسی استحصال شروع ہو جائے۔تو خارجی عناصر مقامی باسیوں کی معاشی ضرورتوں کا ناجائز فائدہ اْٹھا کر اسے ملک اور ریاستی اداروں کے خلاف اْکساتے ہیں۔انہیں ناجائز،اسلحہ،وسائل کسی بھی صورت میں فراہم کر سکتا ہے۔بلوچستان دھائیوں سے احساس محرومی کا شکار ہے۔اس معاشی محرومی کا فائدہ خارجی عناصر مقامی آبادی کو ریاست کے خلاف اْبھار کر استعمال کرتا ہے۔تاہم اپنے معاشی،سیاسی مسائل کے حل کے لئے پارلیمان اور بہترین کردار ادا کر سکتا ہے۔پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخواہ میں کارکردگی زیرو ہے۔اس طرح وفاق پاکستان میں تحریک انصاف کو موقع ملنے کے باوجود تحریک انصاف نے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔اس کے باوجود کپتان عوام کے لاڈلے اور مقبول ترین قائد ہے۔شوکت خانم کینسر ہسپتال صحت کارڈ سابق عمرانی سیٹ اپ کے ایسے پراجیکٹ ہیں۔جنھوں نے کپتان کو عوام میں بے پناہ مقبول بنایا۔تحریک انصاف نے صوبہ کے پی کے اور وفاق میں کوئی قابل ذکر معاشی منصوبہ نہیں چھوڑا۔کہ حْسنِ کارکردگی کا کریڈٹ لے سکے۔صوبہ خیبر پختونخواہ میں حالیہ دہشت گردی کی تازہ لہر صوبہ کے پی کے کی انتظامیہ اور پھر وفاق کی بد ترین ناکامی اور اس کے ماتھے پر بد نما داغ ہے۔بلوچستان،کے پی،ختٰی کہ ڈیرہ غازی خان اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں پولیس چوکیوں،فوجی چھاونیوں،چیک پوسٹوں پر پے درپے حملے اس بات کا ثبوت ہیں۔ہ دھائیوں قبل فوجی طاقت یا آپریشنوں کے باوجود دہشت گرد اور سماج دشمن عناصر آج بھی اسی طاقت سے لیس ہیں۔جو اس سے پہلے تھے۔ان سماج دشمن عناصر کے پاس اتنا جدید اسلحہ کہاں کیسے آیا۔اور وہ اتنے مضبوط کیوں اور کیسے ہو گئے ہیں۔آئین پاکستان،ریاست مخالف عناصر،اور ہماری پولیس اور ریاستی طاقتوں پر حملوں میں ملوث ہمارے شہری نہیں ہیں۔اور ان کے گردن توڑنا،اور انہیں طاقت سے مارنا ہما اسحقاق ہے۔جمہوری عمل، پارلیمان کی غیر پارلیمانی تشکیل،اور مقتدرہ کی پارلیمان میں غیر ضروری مداخلت سے بھی دہشت گردی،کو تقویت ملتا اور ریاست غیر محفوظ ہوتا ہے۔ریاست، عوام،اداروں کو امن،خوشحالی،استحکام کی طرف سمت دلانے کے لئے وفاق پاکستان کے دو اکائیوں،کے پی کے اور بلوچستان کے محروم حلقوں کی ناراضگیاں دور کی جائیں۔مقتدرہ نے پاکستان کے محب وطن،منظم،باصلاحیت،اور انتہائی دیانت دار،مذھبی سیاسی جماعت،جماعت اسلامی کو پارلیمان اور پارلیمانی سیاست سے بیک قلم،جنبش باھر نکال دیا ہے۔جیسے انسان گھی سے بال نکالتا ہے۔ملک کے استحکام اور امن کی خاطر وفاق اور مقتدرہ،جماعت اسلامی کی مرکزی قیادت اور حافظ نعیم الرحمٰن کو ہر گز نظر انداز نہ کیا جائے۔اگر ریاست کے حقیقی با اختیار مقتدرہ جماعت اسلامی اور اپوزیشن کے سنجیدہ قیادت کو دیوار سے لگائے گی۔اور ملکی سیاست اور استحکام کے مشاورت میں انہیں درخواعتنانہ سمجھیں۔تو ملک میں امن،استحکام کے قیام کے لئے کوئی بھی لائحہ عمل ناکام ہو گا۔جماعت اسلامی اور اس کے مرکزی امیر حافظ نعیم الرحمٰن اور شوریٰ میں صلاحیت موجود ہے۔کہ پاک افغان تنازعہ کو حل اور پاکستان میں دیرپا امن،معاشی سیاسی استحکام لائے۔اگر اسٹبلیشمنٹ جان بوجھ کر اپوزیشن کے تجربہ کار،سنجیدہ،اور خاصکر جماعت اسلامی کی نظم اور مرکزی قیادت کو پارلیمان اور سیاسی عمل میں شراکت دار ی،مشاورت سے باھر رکھے۔تو اس کے نتائج اور عوارض،بے امنی،خون خرابے،سماج میں عدم توازن کی صورت میں لازماً آئیں گے۔مقتدرہ احساس محرومی کے شکار وفاقی اکائیوں،طبقات،اور وہ لوگ جو استحصال کا نشانہ بنے ہیں۔ان کو قومی دھارے میں لائیں۔تو خارجی سماج دشمن عناصر کی سازشیں بھی ناکام ہوں گی۔دہشت گردوں کی ہر صورت میں اور ہر جگہ تعاقب کیا جائے۔سرچ آپریشن کے مسلسل عمل جاری رکھا جائے۔اور وطن کے چھپے چھپے کو امن دشمنوں سے پاک کیا جائے۔عوام جہاں مشکوک عناصر دیکھیں۔اس کی اطلاع قانون نافذ کرنے والے اداروں کو دیا جائے۔نیشنل ایکشن پلان کا از سر نو جائزہ لیا جائے۔کہ اس میں کون سی خامیاں اور نقائص ہیں۔جن کی وجہ سے اس قومی ناسور نے دوبارہ سر اْٹھایا۔نیشنل ایکشن پلان کے جن نکات پر عمل کیا گیا۔اس پر عمل درآمد کے باوصف دہشت گردی کا خونی عفریت کیوں ختم نہیں ہوا۔غور وفکر سے وجوھات،اسباب،عوامل کا پتہ لگایا جائے۔صوبوں کیساتھ اعتماد سازی کا ماحول مستحکم،پائیدار کیا جائے۔حساس ترین،خطرناک اور بد امنی کے حامل علاقوں،راستوں میں فورسز کے نقل و حمل،حرکت،اور قیام کو وسعت،مضبوط،متحرک کیا جائے۔انٹلیجنس کے نظام کو مضبوط کیا جائے۔سوشل میڈیا کو بند اور قابو کیا جائے۔تاکہ،اداروں،ریاست،کے خلاف اشتعال انگیزی،جعلی خبروں،ڈس انفارمیشن کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔حکام سنجیدگی سے ان عوامل کو تلاش کریں۔کہ کیوں،عوام،سماج،اور ملک کے محافظ ادارے کے درمیان بد گمانیاں،نفرتیں،تصادم،اور خلیج پیدا ہو گیا ہے۔بے گناہ اور پْر امن شہریوں کو محفوظ،پْر سکون ماحول فراہم کیا جائے۔فورسز صرف سماج دشمن عناصر کو ماریں،ان کے خلاف کاروائیاں کی جائے۔وفاق پاکستان کے پانچوں اکائیوں کے مضبوط،معاشی،سیاسی بقا،تحفظ کا راز عوام کی خوشحالی جسمانی تحفظ،امن میں پنہاں ہے۔اس سے ریاستی اداروں اور سماج کے مابین،مربوط،فطری،دائمی رشتہ مستحکم ہو گا۔بد گمانیاں ختم ہوں گی۔تو امن کا قیام جلد،پائیدار،اور آسان ہو گا۔خوشحال،سماج،پائیدار،آسودہ منظم،مضبوط،ریاست کے قیام کو شرمندہ تعبیر اور ممکن ہو سکتا ہے۔پے درپے علماء￿  کرام،بے گناہ،معصوم،قیمتی شہریوں،شخصیات کے قتل عام سے ریاستی اداروں کے خلاف عوامی غیض و عضب،نفرت اور شکوک وشبہات کو جنم دیتا ہے۔اگر چہ ہمارے محافظ ادارے،فورسز اور مادر وطن کے نڈر،ہیرو،جوان اور افسران بھی دہشت گردی کا نشانہ بن کر شہید ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ پولیس فورس کے بے گناہ اھلکار اور افسران بھی اس خوفناک،صورت حال سے دوچار شہادت کے مرتبے پر فائز ہو کر سوگوار بے آسرہ خاندانوں کو چھوڑ رہے ہیں۔آئیے،قارئین،عوام مشکل کی اس گھڑی میں ریاست،پارلیمان،آئین،عدلیہ،اور افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ان کے دست و بازو بنیں۔ان کے ہاتھ مضبوط کریں،دشت گردی کے خلاف ہم، فوج،ریاست،قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شانہ بشانہ ساتھ دیکر اپنے دھرتی کے محافظ،جوان بیٹوں،بھائیوں کے ہاتھ مضبوط کریں۔ہر لحاظ سے ریاست مخالف عناصر کور کی سرکوبی کریں۔فوج، عدلیہ،ریاست،آئین،پارلیمان کی سیاسی،اخلاقی،حمایت جاری رکھیں۔ہماری دعائیں،سماج کے دائمی،بقا،دوام،اور استحکام کے لئے ہیں۔دہشت گردی کے لئے وفاق اپنی اور وفاق اپنی اور وفاق پاکستان کی پانچوں اکائیاں اپنی اپنی ذمہ پوری کریں۔ایک دوسرے پر الزامات اور ذمہ داریاں ڈالنے سے بد امنی میں مزیداضافہ ہو گا۔اور سماج اور ریاست دشمن عناصر کے ہاتھ مضبوط ہوں گے۔سینئیر سیاستدانوں سے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مشاورت کیا جائے۔آفتاب احمد خان شیر پاؤ،مولانا فضل الرحمٰن بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان کی خدمات سے بھی استفادہ کیا جائے۔

مزیدخبریں