قیادت کا بحران کیوں، قیادت کے دعوے اور حقیقت!!!!!

آج پاکستان میں سب سے بڑا بحران قیادت کا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت ملکی مسائل کو سمجھنے، حل کرنے اور وسائل میں اضافے کی منصوبہ بندی و حکمت عملی تیار کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے۔ سیاسی قیادت عوامی مسائل حل کرنے کا وعدہ اور دعویٰ کر کے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچتے ہی عام آدمی کو بھول کر اپنے کاموں میں لگ جاتی ہے۔ گذرے لگ بھگ چالیس برسوں میں دیکھیں تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان میں جو لوگ اس ملک کی قیادت کرتے رہے ہیں انہوں نے وطن عزیز کے کروڑوں انسانوں سے انصاف نہیں کیا۔ وہ تمام لوگ جو حکمران بنے وہ فیصلہ سازی کی بنیادی صلاحیت سے ہی محروم تھے، وہ عوام میں سے نہیں تھے، نہ ہی وہ عوام کے دکھ درد کو سمجھتے تھے نہ ہی انہیں عوامی مسائل کا ادراک نہ تھا نہ عام آدمی کی بہتری ان کی ترجیح رہی۔ ورنہ یہ ہو نہیں سکتا کہ مختلف سیاسی جماعتوں کا حصہ رہنے والے افراد لگ بھگ چالیس برسوں تک حکومت میں رہیں اور اس دوران وسائل کم ہوتے چلے جائیں اور مسائل میں اضافہ ہوتا رہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ عام آدمی کے حقیقی مسائل سے واقفیت ہی نہیں رکھتا، وہ سمجھتا ہے کہ وسائل سے محروم انسان مسائل کے ساتھ پیدا ہوا ہے اور اسے ایسے کی دنیا سے چلے جانا ہے۔ یہی وجہ ہے آج تک ملک میں صحت و تعلیم کے مسائل اپنی جگہ موجود ہیں، سفری سہولیات دور جدید کے تقاضوں کے مطابق نہیں اور نہ ہی حکمرانوں کی اپنی سواریوں کو دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ عام آدمی کے لیے بھی ویسے ہی سوچتے ہیں جیسا وہ اپنے بارے میںسوچتے ہیں۔ یہی وہ بنیادی فرق ہے کہ آج دو ہزار چوبیس میں بھی ہم کھانے پینے کی اشیاء کی قلت کا شکار ہیں، ادویات کی کمی اور مہنگی ادویات کے مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ہر وہ چیز جس کی قلت کا سامنا عام آدمی کو ہے حکمران طبقہ اس تکلیف اور کرب سے کبھی گذرا ہی نہیں ہے، انہیں اس تکلیف کا احساس کبھی ہوا ہی نہیں، نہ انہیں کبھی آٹے کی قلت کا سامنا ہوا، نہ انہیں کبھی مہنگے گھی کو خریدنے کے لیے محنت کرنا پڑی نہ انہیں مہنگی ادویات خریدنے کے لیے قرض لینا پڑا، نہ انہیں بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگی کے لیے خوار ہونا پڑا ہے، نہ انہیں بچوں کی تعلیم بارے کبھی کوئی فکر ہوئی، نہ انہیں مکان کا کرایہ ادا کرنے کی پریشانی ہوتی ہے نہ ہر وقت ملازمت سے نکالے جانے کا خوف لاحق ہوتا ہے۔ جب تک حکمران عوامی نہیں ہوں گے عوام میں سے نہیں ہوں گے اس وقت تک بنیادی مسائل کا حل تو کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ انہیں تو سکھایا ہی یہ جاتا رہا ہے کہ عام آدمی کی محرومی میں شدت پیدا کرتے ہوئے اس کو دبائے رکھنا ہے اور اسی انداز میں اقتدار کو طول دینا ہے، دور اقتدار بڑھانا ہے، بس یہی ہو رہا ہے۔ 
اگر ہم اسلام سے حکمرانوں کے احساس و ذمہ داری کی مثالیں اکٹھی کرنا شروع کریں تو ہمیں لگے گا کہ آج ہمارے حکمران یقینی طور پر اسلام کی تاریخ سے ناواقف ہیں۔ اگر یہ تاریخ اسلامی سے ناواقف ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی انہیں ہمارا حکمران ہونا چاہیے۔ کیونکہ نہ تو یہ پاکستان کے آئین پر عمل کریں، نہ یہ دین پر عمل کریں، نہ دین سے رہنمائی حاصل کریں، نہ یہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے طرز حکمرانی سے کچھ سیکھیں پھر یہ کیسے حکمران ہیں۔ کیونکہ بحثیت مسلمان تو ہمارا ایمان ہے کہ کامیابی صرف اللہ کے احکامات،  نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلّم کی مبارک سیرت پر عمل کی صورت میں ہے۔ اگر ہم حکمرانی کی بات کریں تو صحابہ میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑی مثال کیا ہو گی۔ کس شاندار انداز سے حکمرانی کی، کیسی سادگی تھی، کیسا رعایا کا خیال تھا، کیسا انصاف تھا، کیسا احساس تھا، کیسی شجاعت تھی، کیسی دیانت تھی، کیسا درد تھا۔ کیسے کیسے قوانین بنائے گئے، کیسے علاقوں کا فتح کیا، کیسے اللہ کے احکامات کو نافذ کیا، کیسے عدل و انصاف قائم کیا، کیسی خود احتسابی کی مثالیں قائم کیں۔ اسلام تو ہمیں بتاتا ہے کہ حکمران قوم کے خادم ہوتے ہیں آج یہ کیسے خادم ہیں کہ حکومت میں آتے ساتھ ہی سیکیورٹی لیتے ہیں، راستے بند کرتے ہیں، آتے عام آدمی کی حفاظت کے لیے ہیں لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو ان کی حفاظت کرنا پڑتی ہے، عوام کی خدمت کا نعرہ لگاتے ہیں لیکن حکومت میں عام آدمی حکمرانوں کی خدمت میں لگا رہتا ہے۔ اگر یہ عام آدمی کے نمائندے ہیں تو عام آدمی کی طرح سڑکوں پر آزادی سے گھومتے کیوں نہیں ہیں۔ کیا آج حکمرانوں کو ذرا برابر بھی خوف ہے کہ انہوں نے روز محشر اللہ کو جواب دینا ہے۔ یہ طاقت، یہ اقتدار و اختیار سب کا حساب ہونا ہے کیا وہ اس حساب کے لیے تیاری کر رہے ہیں ۔ چلیں اس حکمران طبقے میں تھوڑا احساس پیدا ہو ان کے سامنے ہمسایہ ملک سے ایک مثال رکھتا ہوں ویسے تو انہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن ہمیں تو اپنا کام کرنا ہے۔ 
جواہر لال کے والد نے بیٹے کو شاہی خاندان کی طرح پڑھایا، نوابوں جیسی پرورش کی، کیمبرج یونیورسٹی میں تعلیم دلائی اور جب وہ بیرسٹر بن کر ہندوستان واپس آگئے تو انہیں الٰہ آباد میں اچھے کلائنٹس لے کر دیئے...لیکن جواہر لال نہرو کمیونسٹ ذہنیت کے مالک تھے، وہ سیاست میں آ کر معاشرے میں مساوات پیدا کرنا چاہتے تھے...والد نے بہت سمجھایا مگر جب دال نہ گلی تو ان نے ایک دن جواہر لال نہرو کی الماری سے سارے قیمتی سوٹ، جوتے اور سگار نکالے اور دوستوں کے بچوں میں تقسیم کر دیئے اور ان کی جگہ کھدر کے دو پائجامے اور تین کرتے لٹکا دئیے اور ہاتھ سے بنی ہوئی دیسی جوتی رکھوا دی، جواہر لال کے کمرے سے سارا فرنیچر بھی اٹھوا دیا گیا، فرش پر کھردری دری اور موٹی چادر بچھا دی اور خانساماں کو حکم دے دیا تم کل سے صاحبزادے کو جیل کا کھانا دینا شروع کر دو اور بیٹے کا جیب خرچ، بھی بند کر دیا گیا...
جواہر لال نہرو نے جب اپنے کمرے کا یہ حال دیکھا تو رات کو مسکراتے ہوئے والد کے پاس آئے، بڑے نہرو صاحب اس وقت اسٹڈی میں *ٹالسٹائی* کا ناول *وار اینڈ پیس* پڑھ رہے تھے...بیٹے نے پوچھا آپ مجھ سے خفا ہیں...؟ موتی لال نے کتاب سے نظریں اٹھائیں اور نرم آواز میں جواب دیا :*میں تم سے ناراض ہونے والا دنیا کا آخری شخص ہوں گا*چھوٹے نہرو نے پوچھا؛پھر آپ نے اتنا بڑا آپریشن کیوں کر دیا..؟والد نے بیٹے سے کہا ؛صاحب زادے، تم نے جو راستہ چنا ہے اس میںجیل، بھوک اور خواری کے سوا کچھ نہیں، میں چاہتا ہوں تم آج ہی سے ان تمام چیزوں کی عادت ڈال لو جو اس راستے میں تمہیں پیش آنے والی ہیںدوسرا یہ کہ غریب کے پاس اعتبار کے سوا کچھ نہیں ہوتا لہٰذا یہ انتہائی سوچ سمجھ کر دوسروں پر اعتبار کرتے ہیں...تم اگر عام آدمی کی بات کرنا چاہتے ہو تو پھر تمہیں خود بھی عام آدمی ہونا چاہیے...*تم انگلینڈ کے سوٹ اور اٹلی کے جوتے پہن کر غریب کی بات کرو گے توتم پر کوئی اعتبار نہیں کرے گا*میں نہیں چاہتا دنیا میرے بیٹے کو منافق کہے...!!چنانچہ تم آج سے وہ کپڑے  پہنو گے جو غریب پہنتا ہے اور تم اتنے  پیسے ہی خرچ کرو گے جتنے غریب کی جیب میں ہوتے ہیں... جواہر لال نہرو نے والد کا ہاتھ چوما اور پھر مرنے تک کھدر کے کپڑے اور دیسی جوتے پہنے اور غریبوں جیسا سادہ کھانا کھایا...
*ہمارے ملک کا سب سے بڑا المیہ ایسی لیڈر شپ کا فقدان ہے*پوری دنیا میں لیڈروں کا تعلق عموماً بڑے گھرانوں سے ہوتا ہے، یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہوتے ہیں، ان کا گلوبل ایکسپوڑر بھی ہوتا ہے اور یہ اندر سے رجے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ لوگ جب سیاست میں آتے ہیں تو یہ سادگی اور غریب پروری کا تحفہ ساتھ لے کر آتے ہیں..یہ عام آدمی کی صرف باتیں نہیں کرتے یہ عام آدمی نظر بھی آتے ہیں مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے...ہم *ڈرٹی پالیٹکس* کے ایک خوف ناک جوہڑ میں غوطے کھا رہے ہیں...*ملک کی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں غریبوں کی باتیں ضرور کرتی ہیں لیکن ان کے لیڈروں کا لائف سٹائل اور ان کی شخصیت ان کی  باتوں سے میچ نہیں کرتی*
ہزاروں کنال کے بنگلوں اور فارم ہاؤسز میں رہنے والے، کئی کئی لاکھ ماہانہ تنخواہ اور دنیا بھر کی مراعات و پروٹوکول لینے والے، بیرون ملک بڑے گھر اور بینک بیلنس رکھنے والے بلٹ پروف گاڑی اور جہاز و ہیلی کاپٹر کو گلی کے موٹر سائیکل کی طرح استعمال کرنے والے ہمارے تمام وزیراعظم ایک غریب ملک کے رہنما نہیں ہوسکتے. اگر رہنما لینا ہے تو غریب عوام سے لیں جو عام شہریوں کی طرح پانچ سات مرلہ کے گھر میں رہے۔ جرمن چانسلر اینجلا کی طرح دو تین سوٹوں اور ایک ہی کوٹ کیساتھ پانچ سالہ دور اقتدار پورا کرے۔ یہاں ایسے حالات نہیں ہیں۔ نہ ہی مستقبل قریب میں ایسا امکان ہے۔ یہاں سب کو اپنی اپنی فکر ہے اور یہ بھولے ہوئے ہیں کہ ان سب نے اپنے اعمال کا حساب و جواب دینا ہے۔
آخر میں پیر نصیر الدین نصیر کا کلام
اٹھے نہ تھے ابھی ہم حالِ دل سنانے کو
زمانہ بیٹھ گیا حاشیے چڑھانے کو
بھری بہار میں پہنچی خزاں مٹانے کو
قدم اٹھائے جو کلیوں نے مسکرانے کو
جلایا آتش گْل نے چمن میں ہر تنکا
بہار پھونک گئی میرے آشیانے کو
جمالِ بادہ و ساغر میں ہیں رْموز بہت
مری نگاہ سے دیکھو شراب خانے کو
قدم قدم پہ رْلایا ہمیں مقدر نے
ہم اْن کے شہر میں آئے تھے مسکرانے کو
نہ جانے اب وہ مجھے کیا جواب دیتے ہیں
سْنا  تو دی ہے انہیں داستاں "سْنانے کو"
کہو کہ ہم سے رہیں دور، حضرتِ واعظ
بڑے کہیں کے یہ آئے سبق پڑھانے کو
اب ایک  جشنِ قیامت ہی اور باقی ہے
اداؤں سے تو وہ بہلا چکے زمانے کو
شب فراق نہ تم آ سکے نہ موت آئی
غموں نے گھیر لیا تھا غریب خانے کو
نصیر! جن سے توقع تھی ساتھ دینے کی
تْلے ہیں مجھ پہ وہی انگلیاں اْٹھانے کو

ای پیپر دی نیشن