آئی ایم ایف کی چشم کشا رپورٹ سامنے آچکی ہے،افسوس اس بات کا ہے کہ جو حقائق بیرونی اداروں کی وساطت سے عوام کے علم میں آتے ہیں وہ ان کی اپنی حکومت بیان کیو ں نہیں کرتی ہے،کہنے کو تو پارلمینٹ موجود ہے مگر اس کے ایجنڈے پر کیوں ایسے معاملات بحث کے لئے رکھے نہیں جاتے ہیں،اس سے پہلے بھی ایسا ہی تھا اور اب بھی اڑھائی سال ہونے کو آئے ہیں،ملک کے اعلی ترین فورمز پر اہم معاشی اور سیاسی ایشوز پر بحث کاکوئی موقع نہیں آیا،اسی لئے عوام میں یہ رائے موجودہے کہ ان فورمز کا کیا فائدہ ہے؟ جب ان کو ملک کے اصل حالات کا علم آئی ایم ایف، عالمی بینک اور دوسرے کثیر القومی ادادروں کی رپورٹس سے ہونا ہے ،یہ رپورٹس بھی انگلش زبان میں ہوتی ہے اور ان کا بہت ہی کم حصہ سطحی سے انداز میں اردو زبان میں بیان ہوتا ہے،اس میں کوئی حکومت کاکمال نہیں ہے ،یہ رپورٹس سرکار کی خواہش سے کہیں ذیادہ ان اداروں کی پالیسی کی مرہون منت ہیں جو ان کے قوائد کے مطابق منظر عام پر آنا ضروری ہوتی ہیںورنہ یہ معمولی حصہ بھی کبھی سامنے نہ آئے ،سارا راز ، ملک کے رازداری کے قواعدکی نظرہو جائے یہ انگریزوں کے بنائے ضابطے تھے،جن کو آج تک تبدیل نہیں کیا گیا،کسی ایک حکومت کا قصور نہیں،راز داری کے اس ایجنڈے پر حکومت سنبھالتے ہی اتفاق رائے ہو جاتا ہے ،ای سی سی ،کابینہ اور دوسرے تمام اہم حساس فورمز پرزیر غور آنے والے معاملات اور فیصلوں،ان کے جواز کو پوری طرح نہ بیان کیا جاتا ہے اور نہ ان کا پس منظر سامنے آتا ہے،بھانڈہ اس وقت بیچ چوراہے میں پھوٹتا ہے جب مفاد کی جنگ ہو ،کسی کی پگڑی اچھالنا ہو،یا تنازعہ کھڑا ہو جائے ،اس کی مثال سامنے ہے براڈ شیٹ کا ایشو اس وقت پبلک کو پتہ چلا جب لندن کی عدالت نے فیصلہ کیا اور قرقی ہونے لگی ،جبکہ اس عمل کے درمیانی عرصے میں سرکاری فورمز پر فیصلے ہو رہے تھے مگر راز رکھے جا رہے تھے ،یہ ملک اس وقت تک پٹڑی پر نہیں آ سکتا جب تک راز داری اور پراسرایت کو بحیرہ عرب میں غرق نہیں کیاجاتا،یہ کوئی قومی سلامتی کا معاملہ ہے کہ 1.4بلین روپے کے ٹیکس لگانا چاہتے ہیں اور اس کو چھپایا جا رہا ہے ،خود کچھ نہیں کرنا آئی ایم ایف کہے گا تو سٹیٹ بینک کو خود مختاری دینا ہے ،جی ایس ٹی کو ہم آہنگ کرنا ہے ،این ایف سی کا نیا فارمولہ بنانا ہے ،ایگزامشنز کو ختم کرنا ہے ،فیٹیف کی شرائط پوری کرنا ہے ،جو کرانا ہے باہر والوں نے کرانا ہے تو اپنا جواز کیا رہ جاتا ہے ،بجٹ سازی ہی کو دیکھ لیں،مارچ کے آغاز سے ہی ’’ آنیاںجانیاں‘‘ شروع ہو جاتی ہیں ،ہر افسر اور اس کے کے چہرے پر انقباض کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ،قوم کی کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کس کی گردن موڑنے کی تیاری ہو رہی ہے ،ایسے لگتا ہے کہ ملک کا مسلہ نمبر ایک یہی ہے ،موٹی موٹی فائلیں اٹھائے دوڑیں لگ رہی ہیں،پبلک بے خبر ،پھر بم پھٹتا ہے،ایک ہفتے بعد رول بیک شروع ہو جاتا ہے،اس سے کہیں بہتر ہے کہ سارا پلان بجٹ سے بہت پہلے پبلک کریں اور وہ سب کچھ پہلے کر لیں جو اعلان کے بعد کرنا پڑ جاتا ہے ،کدھر گئی وہ شناختی کارڈوالی شرط،کہاں گئے ایمینسٹی نہ دینے کے اعلان،اس لئے راز داری سے اب شفافیت کا سفر کر لیں یہی درست قدم ہے ،اس سے بہت سے بہت سی کرپشن جو راز داری میں چھپ جاتی ہے روکی جا سکتی ہے ،کابینہ ہو یا ای سی سی یا دوسرے سارے فورمز اس کے اجلاس کا سار ریکارڈپبلک ہونا چاہئے، حیرت ہوتی ہے کہ ان فورمز کی ایجنڈا تک کو پبلک نہیں کیا جاتا ،کابینہ ڈویژن ،خزانہ اور دوسری سرکاری ویب سائٹس صرف تصویروں کے لئے ہیں ؟ حکومت یہ کام نہ بھی کرئے جلد یہی مالیاتی ادارے یہ کام بھی کروا لیں گے،اپوزیشن سے بھی اس طرح کے مطالبات توقع عبث ہے،وہ وہ ایسا کوئی مطالبہ نہیں کرتے جس کا ائندہ بوجھ ان پر آجائے ،رازداری ان کے بھی مفاد میں ہے ،بس الزام تراشی ہی کو سیاست سمجھ لیا گیا ہے ،اب تو آپس میںسر پھٹول ہو رہی ہے ،وزیر آعظم نے حال ہی میں کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ مذاکرات کے لئے جانا چاہتے ہیں،بظاہر اس کی وجہ جو بھی ہو اصل یہی ہے کہ ملک ڈیٹ ٹریپ کی جانب بڑھ رہا ہے ،آئندہ کے مالی سال سے پہلے اگر ڈیٹ کے ریلف کے لئے کام نہ کیا گیا تو ملک کے پاس ایسے مالی وسائل کی گنجائش بہت کم رہ جائے گی جو ترقیاتی مقاصد کے لئے استعمال ہو سکیں،ملک کے سوشل سیکٹر کا حال پہلے ہی پتلا ہے،ابھی ایک نوجوان شاعرہ کا انتقال ہوا جن کا آخری ٹوئٹ یہ بتاتا ہے کہ سرکاری ہسپتال میں آکسیجن کا وہ پریشر موجود نہیں تھا جو مریضہ کے لئے ضروری تھا .یہ تو ایک مثال ہے ،مالی مشکلات کی وجہ سے پہلے ہی ایس ڈی پی کی ریلیز ڈیلے ہو رہی ہیں ،اس لئے یہ درست ہوگا کہ ذیادہ سے ذیادہ ڈیٹ ریلیف کی کوشش کی جائے تاکہمالی وسائل پیدا ہوں جو سوشل سیکٹر اور انفراسٹکچر کی ترقی کے لئے استعمال کئے جا سکیں ،آئندہ مالی سال میں پبلک پرائیویٹ شراکت کے منصوبوں کی تعداد کو بڑھایا جائے اور اس کے پہلے مرحلہ میں وہ منصوبے شامل کئے جائیں جو کمر شل بنیاد پر ہوں اور نجی شعبہ کی دلچسپی کا باعث ہو ں ،فوری ریٹرن دینے والے منصبوبوں میں نجی سیکٹر تیزی سے شامل ہو سکتا ہے ،اس سے سرکاری سیکٹر پر بوجھ میں بھی کمی آئے گی،تاہم بنیادی ذمہ داری تب بھی حکومت ہی کی رہے گی جو ترقی کی رفتار کو بڑھانے کے لئے کام کرئے اور اس کے لئے فنڈز کی دستیابی کو ممکن بنانے کے لئے کام کیا جائے جو ڈیٹ ریلیف لینے،ٹیکس بیس کو بڑھانے سے ہی ممکن ہے ،اگر پہلے سے ٹیکس کی ذد میں آئے شعبوں پر مذید بوجھ میںاضافہ کیا گیا تو پھر گروتھ کو بھول جائیں اور ائندہ مالی سال میں بھی تنازعات میں الجھ کر راہ کو کھوٹا کرتے رہیں۔
میری "عارف" لکھنے کی حماقت اور وزارتِ خارجہ کا معمّہ۔
May 08, 2024