پی ڈی ایم کے شوکاز نوٹس پر پیپلز پارٹی کا رد عمل
سینٹ میں اپنا اپوزیشن لیڈر منتخب کرانے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ)کی جو مدد حاصل کی ہے اس پر پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن کی اجازت سے ن لیگ کے رہنما شاہد خاقان عباسی نے پاکستان پیپلز پارٹی کوایک شو کاز نوٹس جاری کیا تھا 11اپریل کو پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے اجلاس میں پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے تمام شرکاء کو یہ نوٹس پڑھ کرسنایا اور پھر اسے پھاڑ کر یہ کہتے ہوئے پھینک دیا کہ اس نوٹس کو ہم جوتے کی نوک پر رکھتے ہیںہم عزت کمانے کے لیے سیاست کرتے ہیں کسی کے سامنے جوابدہ نہیںہیں جس پر تمام شرکاء نے تالیاں بجا کر اپنے چیئر مین کے اس عمل کی بھرپور تائید کی ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کا موقف یہ ہے کہ ہماری طرف سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس کے نتیجے میں ہی پی ڈی ایم معرض وجود میں آئی تھی جس کا مقصد حکومت وقت کی حقیقی معنوں میں اپوزیشن کرنا تھا لیکن اب پی ڈی ایم کی بعض جماعتیں پورے سسٹم کو لپیٹنے کے لیے مجموعی استعفوں کے لیے بضد ہیں جس سے پاکستان پیپلز پارٹی متفق نہیں ہیں اس لیے ہمیں کوئی بھی پارٹی یا فریق پی ڈی ایم سے نہیں نکال سکتا اگر کسی نے پی ڈی ایم کو چھوڑنا ہے تو وہ چھوڑ کر چلا جائے ۔
اگر آپ پاکستان کی ماضی کی سیاست پر نظر دوڑائیں تو پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کی مخالفت کرتی چلی آرہی ہیں حتیٰ کہ پاکستان پیپلز پارٹی کو ملک کے لیے سیکورٹی رسک قرار دینے کے علاوہ آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں بھی کی گئیں لیکن پھر یکایک موجودہ حکومت کی مخالفت میں یہ سب پارٹیاں اکھٹی ہو گئیں تاکہ مشترکہ مفادات حاصل کیے جاسکیں لیکن حالات آہستہ آہستہ آج اس نہیج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب پی ڈی ایم اپنے اختتام کی طرف جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔
اے این پی ‘پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کر چکی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی عملی طور پر پی ڈی ایم کو چھوڑ چکی ہے لے دے کر جمعیت علماء اسلام اور پاکستان مسلم لیگ ن ہی بچ گئی ہیں اس لیے قرائن یہی ہیں کہ جلد ہی پی ڈی ایم کی بجائے کوئی نیا سیاسی فورم معرض وجود میں آجائے گا جو اپوزیشن کرنے کا دعویدار ہوگا پیپلز پارٹی نے اپنے اعلانیے میں شوکاز نوٹس جاری کرنے پر پی ڈی ایم سے اے این پی اور پیپلز پارٹی سے معافی کا مطالبہ کیا ہے اس کے بعد ہی پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ کرے گی کیونکہ پی ڈی ایم ایک اتحاد ہے اس میں کوئی بھی پارٹی دوسری پارٹی کی ماتحت نہیں ہے ۔
پی ڈی ایم کے خاتمے کے بعد حکومت کو بظاہر توکوئی بڑا چیلنج در پیش نہیں ہے تاہم اب بھی حکومت کے لیے مشکلات ختم نہیں ہوئی ہیں بلکہ جہانگیر خان ترین کا معاملہ ایک ایسی شکل اختیار کر چکا ہے جس سے پی ٹی آئی کو حقیقی معنوں میں خطرات درپیش ہو سکتے ہیں اورجس کا عملی مظاہرہ چند روز قبل جہانگیر خان ترین کی دعوت میں شریک ممبرا ن قومی و صوبائی اسمبلی کی باڈی لینگوئج سے بھی لگایا جاسکتا ہے اس کے علاوہ مہنگائی اور گورننس کے ایشوز بھی عام پاکستانی کو متاثر کر رہے ہیں جنہیں حل نہ کیا گیا تو پی ٹی آئی کو مستقبل میں بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔