منگل ‘ 29شعبان المعظم 1442ھ‘ 13؍ اپریل2021ء
بلاول نے پی ڈی ایم کا نوٹس پھاڑ ڈالا
تو اس میں حیرانگی والی کون سی بات ہے۔ مطلب نکلنے کے بعد معاہدے ، وعدے اور دعوے سب ردی کے کاغذ کی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں جنہیں جب جی چاہے پھاڑ کر پھینکا جا سکتا ہے۔ یہ بات بلاول کے پدر بزرگوار آصف علی زرداری بھی بڑے فخر سے کہہ چکے ہیں کہ معاہدے یا وعدے کونسی حدیث ہوتے ہیں۔ اب اس بات کا عملی اظہار بلاول نے گزشتہ پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کے اجلاس میں پی ڈی ایم کا جاری کردہ شوکاز نوٹس پھاڑ کر کیا۔ اس موقع پر بڑے فخر سے انہوں نے کہا کہ عزت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ یوں
اس نے پہلے مس کہا پھر تق کہا پھر بل کہا
اس طرح ظالم نے مستقبل کے ٹکڑے کردئیے
جی ہاں پی ڈی ایم کا اتحاد اب اس حرکت کی وجہ سے واقعی پارہ پارہ ہو چکا ہو۔ کیونکہ عزت سب کو عزیز ہوتی ہے جو بلاول کی اس حرکت بچگانہ سے شدید متاثر ہوئی ہے۔ اب یہ سب کچھ ہونے کے باوجود نجانے کیوں پیپلز پارٹی میں حوصلہ نہیں کہ وہ پی ڈی ایم سے علیحدگی کا کھل کر فیصلہ کرتی۔ یہ سیاسی بزدلی ہے یا روایتی چالاکی ، اس کا علم پی پی والوں کو ہی ہو گا۔ ورنہ اے این پی والے زیادہ بہادر نکلے۔ انہوں نے فوری طور پر پی ڈی ایم سے مستعفی ہو کر ’’جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا‘‘ والی آن بان شان کا مظاہرہ کیا۔ دوغلی پالیسی نہیں اپنائی۔ یہ ہوتی ہے اصولی سیاست ، اس کا مظاہرہ کرنے کے لیے دل جگرے کی ضرورت ہوتی ہے جو شاید ہماری بہت ساری سیاسی جماعتوں کے پاس نہیں۔
٭٭٭٭٭
گورنر پنجاب کا 4 ارب کے صاف پانی منصوبوں کا اعلان۔ افتتاح اس ہفتے ہو گا
عوام کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے۔ ہر حکومت اس مد میں سالانہ کروڑوں ، اربوں روپے ہر بجٹ میں رکھتی ہے جو ظاہر ہے خرچ بھی ہوتے ہوں گے۔ اس کے باوجود ہنوز عوام کو صاف پانی کی فراہمی ایک خواب ہی ہے۔ ویسے تو آپ جس شہر میں جائیں وہاں واٹر فلٹریشن کے پلانٹ جابجا لگے نظر آئیں گے۔ مگر یہ سب نمائشی پلانٹ ہیں۔ دو نمبر مشینری کی بدولت ان سے حقیقت میں صاف پانی کی فراہمی ممکن نہیں ہو سکی۔ دوم ناقص تعمیر کی وجہ سے یہ فلٹر پلانٹس جن میں سے 80 فیصد توڑ پھوڑ اور ٹوٹیاں چوری ہونے کے بعد بند پڑے ہیں۔ باقی خرابی مشینری کا شکار ہیں۔ ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ والے مرحلے میں قطرہ قطرہ پانی کی دھار بہاتے ہیں۔ اگر ان کا بھی پانی چیک کرایا جائے تو وہ صاف نہیں آلودہ ہی ملے گا۔ اب گورنر پنجاب نے جنوبی پنجاب کے دو شہروں ملتان اور مظفر گڑھ میں اسی ہفتے دو فلٹریشن پلانٹس کا افتتاح کرنا ہے جو اچھی بات ہے۔ باقی شہروں میں بھی اس کام کے لیے 4 ارب روپے بھی رکھے گئے ہیں یہ اور بھی اچھی بات ہے۔ مگر یہ رقم نئے نئے پلانٹس لگانے کے ساتھ اگر پرانے خراب پلانٹس کو درست کرنے پر بھی خرچ کی جائے تو زیادہ بہتر نتائج سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ اس طرح نئے پلانٹس کی تعمیر کے خرچ سے بچ جائیں گے۔ پرانے پلانٹ درست کرنے کے بعد بہت کم نئے پلانٹس بنانے کی ضرورت پڑے گی۔ اُمید ہے گورنر پنجاب اس طرف بھی توجہ دیں گے تاکہ کم پیسوں میں زیادہ سے زیادہ پلانٹس کو کام میں لایا جا سکے۔
٭٭٭٭٭
بیساکھی میلہ میں شرکت کے لیے ایک ہزار سکھ پیدل پاکستان پہنچ گئے
14 اپریل کو حسن ابدال میں پنجاب کا روایتی تہوار ’’بیساکھی‘‘ شروع ہو گا جس میں شرکت کیلئے دنیا بھر سے سکھ پاکستان آتے ہیں۔ یہ پنجابی یعنی دیسی سال کا پہلا مہینہ ہوتا ہے۔ گرمی رنگ دکھانے لگتی ہے۔ گندم کے سنہری خوشے پک کرکٹنے کیلئے تیار ہوتے ہیں۔ بے فکرے پنجابی گھبرو جوان دیہاتوں میں موسم بہار کو الوداع کہتے ہوئے گندم کی رکھوالی کے طویل تھکا دینے والے رت جگے سے نجات ملنے پر
ساڈی کنکاں توں مک گئی راکھی
او جٹاآئی ویساکھی…
کے وجد آور نغمات گاتے یکم بیساکھ کو بیساکھی کا تہوار مناتے ہیں۔ یہ پنجاب کا جشن نوروز کہلانے کا حقدار ہے۔ میلوں پر پھیلے گندم کے سنہری کھیتوں میں ہزاروں مرد و زن اور بچے گندم کی فصل کاٹتے ، اس کی چھڑائی کرتے نظر آتے ہیں ۔ سکھ برادری کے لوگ اس موقع پر حسن ابدال گوردوارہ میں مذہبی رسوم ادا کرتے اور بیساکھی کا میلہ مناتے ہیں۔ اس موقع پر گرنتھ صاحب کا جلوس نکالتے ہیں اور پوجا پاٹ ہوتی ہے۔ اس سال بھی کورونا کے باوجود ایک ہزار سکھ یاتری پیدل واہگہ بارڈر کراس کر کے پاکستان آئے ہیں۔ خدا کرے انہوں نے ویکسینیشن کرا رکھی ہو اور یہاں بھی انہیں آزادانہ میل جول سے روکا جائے تاکہ ان سے کورونا پھیلنے اور پھیلانے کا خدشہ نہ رہے۔ اتنے لوگوں کو آنے کی اجازت دینے والوں نے کیا ان کا کورونا فری سرٹیفکیٹ طلب کیا تھا یا ویسے ہی آنے دیا گیا؟
٭٭٭٭٭
لاہور کو پولیو فری قرار دیدیا گیا
یہ بڑی خوشی کی بات ہے۔ دیر آید درست آید! خدا کرے لاہور کی طرح ملک کے باقی شہر اور دیہات بھی پولیو فری قرار پائیں۔ یوں ہماری برسوں کی محنت رائیگاں نہ جائے۔ برسوں سے پاکستان کو پولیو فری ملک بنانے کے لیے کام ہو رہا ہے۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ نہ پولیو ہمیں چھوڑ رہا ہے، نہ ہم پولیو کو چھوڑ رہے ہیں۔ زیادہ تر کیس افغان مہاجرین کے کیمپوں اور ان سے منسلک علاقوں میں سامنے آتے ہیں کیونکہ ان میں انسداد پولیو کے قطرے پلانے کے حوالے سے سخت منفی پراپیگنڈا راسخ ہو چکا ہے۔ یہ مہاجرین بہت سے شہروں اور دیہات میں بھی رہتے ہیں اس طرح ان علاقوں میں بھی پولیو کیس ریکارڈ ہوتے ہیں۔ خود پاکستان کے شہری بھی اس منفی پراپیگنڈے کا شکار ہیں جو آج بھی کیا شہر کیا دیہات انسداد پولیو قطرے پلانے نہیں دیتے اور بات مار پیٹ ہی نہیں قتل تک جا پہنچتی ہے۔ اس مرض کی وجہ سے ہمیں عالمی سطح پر بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ شرمندگی الگ اٹھانا پڑتی ہے کہ ہم جیسے ایٹمی طاقت کے علاوہ صرف افغانستان اور ایک افریقی ملک ہی اس مرض کو سینے لگائے بیٹھا ہے۔ باقی پوری دنیا پولیو فری قرار دی جا چکی ہے۔ خدا کرے پورے پاکستان کو پولیو سے پاک ملک بنانے کا خواب بھی جلد پایۂ تکمیل تک پہنچے اور اس مرض سے ہماری نئی نسل کو تحفظ ملے۔
٭٭٭٭٭