ندو مذہب ترک کر کے مسلمان ہونے والی نو مسلم بہنوں سے متعلق انکوائری رپورٹ سامنے آگئی جس میں لڑکیوں سے متعلق اہم انکشافات ہوئے ہیں۔
انکوائری کمیشن رپورٹ کے مطابق والد نے لڑکیوں کے گھر چھوڑنے سے 2 روز بعد 22 مارچ کو فارم ب کی درخواست دائر کی جس میں دونوں کی تاریخِ پیدائش 2006 درج کی گئی۔ اسکول میں ہونے والی رجسٹریشن کے مطابق ایک لڑکی کی تاریخِ پیدائش 2002 اور دوسری کی 2003 ہے، 2008 میں دونوں بہنیں پہلی جماعت کی طالبہ تھیں، لڑکیوں کے والد ہری لال کے 10 بچے ہیں مگر نادرا کے پاس صرف تین کا ہی ریکارڈ ہے۔
انکوائری رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ لڑکیوں کے شوہر پہلے سے شادی شدہ ہیں، برکت علی کے تین بچے جبکہ صفدر علی کے چار بچے ہیں، یہ بات علم میں ہونے کے باوجود لڑکیوں نے شادی کے لیے رضا مندی ظاہر کی۔
واضح رہے کہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے گھوٹکی کی دو لڑکیوں کے بھائی اور والد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئی تھیں جن میں انہوں نے دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان کی دو بیٹیوں کو اغوا کر کے ان پر اسلام قبول کرنے کےلئے دباﺅڈالا جارہا ہے تاہم ساتھ دونوں لڑکیوں کی ویڈیوز بھی سامنے آئی تھیں جس میں وہ کہہ رہی ہیں کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا۔
وزیر اعظم عمران خان نے 24 مارچ کو لڑکیوں کے مبینہ اغوا اور ان کی رحیم یار خان منتقلی کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کو واقعے کی فوری تحقیقات کا حکم دیا تھا۔
بعدازاں لڑکیوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرتے ہوئے موقف اپنایا تھا کہ انہوں نے اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا لیکن منفی پروپیگنڈے سے جان کو خطرات لاحق ہیں لہٰذا عدالت حکومت کو ہمیں تحفظ فراہم کرنے کے احکامات صادر کرے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نومسلم لڑکیوں کو سرکاری تحویل میں دینے کا حکم دیتے ہوئے ڈپٹی کمشنر اسلام آباد اور ڈائریکٹر جنرل ہیومن رائٹس کے حوالے کردیا تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ 21 مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے گھوٹکی کی 2 نومسلم بہنوں کے تبدیلی مذہب درست قراردیتے ہوئے دونوں لڑکیوں کی تحفظ فراہم کرنے کی ہدایت دی تھی۔