ہفتہ‘ 7؍ شعبان المعظم ‘ 1440ھ‘ 13؍ اپریل 2019ء
زرداری ہائوس میں کھانے کے بعد مولانا فضل الرحمن کی طبیعت ناساز، ہسپتال پہنچ گئے
بدھ کی رات مولانا فضل الرحمن زرداری ہائوس اسلام آباد میں آصف علی زرداری کے کھانے کی دعوت میں شرکت کر بیٹھے، صبح اُٹھے تو طبیعت انتہائی بوجھل، سر چکرانے کی تکلیف کے ساتھ قے کی بھی شکایت ہوئی۔ فوری طور پر نجی ہسپتال منتقل کرنا پڑا۔ ہم ایسے خیر خواہوں کا مولانا کی ناسازیٔ طبع پر مشوش ہونا فطری امر ہے لیکن اُنکے ساتھ اقتدار سے محروم اور نیب زدہ سیاستدانوں کی بہت سی اُمیدیں بھی وابستہ ہیں۔ اللہ نہ کرے اگر اُنہیں کچھ ہو جاتا تو دھرنے اور لانگ مارچ جنم لینے سے پہلے ہی دم توڑ جاتے، جن کا مولانا اکثر وظیفہ کرتے اور مایوس سیاستدانوں کو اُمیدیں دلاتے رہتے ہیں۔ مخالفین تو خوش ہیں۔ کوئی کہتا ہے مولانا زرداری ہائوس کے لذیذ کھانوں سے زیادہ ہی دست درازی کر بیٹھے، کوئی کہتا ہے کہ ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں، تیسرا گرہ لگاتا ہے دستر خوان پرایا تھا ڈھڈ تو اپنا تھا۔ غرضیکہ یاروں کو ایک اُشقلہ ہاتھ آ گیا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اسلام آباد فوڈ اتھارٹی زرداری ہائوس کے کھانوں کا تجزیہ اور کچن کا معائنہ کرنے بیٹھ جائے لیکن اگر کچن کی خرابی یاکھانوں میں گڑ بڑ ہوتی تو دوسرے شرکائے طعام کی حالت بھی ایسی ہوتی۔ بہرحال ہم نیاز مند مولانا سے یہی گزارش کر سکتے ہیں کہ بسیار خوری سے اجتناب کریں، اگر ہو سکے تو خوراک ایک تہائی کر دیں، ’’قوم‘‘ نے آپ سے بڑی اُمیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ اچھے گلوکار بھی اپنی جان کی اتنی پروا نہیں کرتے جتنی اپنے گلے کی حفاظت کرتے ہیں کہ اُن کی کمائی کا سارا دارومدار اسی پہ ہے۔ جناب والا بھی اگر کھاتے ہوئے پیٹ پر ہاتھ پھیرتے رہیں، تو اندازہ رہے گا کہ ہاتھ کب اور کہاں روکنا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق زرداری صاحب نے قبلہ مولانا کی صحت یابی کی دُعا کی ہے۔ دُعا تو ہم بھی کر رہے ہیں لیکن اس فرق کے ساتھ کہ ممکن ہے کہ زرداری صاحب خائف ہوں کہ خدانخواستہ مولانا کو کچھ ہو گیا تو کہیں میں نہ دھر لیا جائوں!
٭٭٭٭٭
پلوامہ واقعہ: 8 سوالوں کے جواب نہ دینے پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کی طلبی، نئے سوال حوالے
پلوامہ واقعہ ہوا تو بھارت نے حسب روایت دھماکے کی گرد بیٹھنے سے پہلے ہی پاکستان کو مورد قرار دے دیا۔ پاکستان نے پیشکش کی کہ ثبوت دیں اگر کوئی ادھر کا بندہ ملوث ہوا تو نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ بھارت کے پاس پاکستان کی اس پیشکش کا کوئی جواب نہیں تھا۔ دُنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ڈوزئیر تیار کیا، ڈوزئیر کیا تھا۔ جھوٹ اورالزام تراشیوں کا پلندہ یا زیادہ رعایت کی جائے تو بھارتی حکومت کے پہلے سے شائع شدہ افسانوں کا مجموعہ تھا۔ البتہ اتنی تبدیلی کی کہ افسانوں کے عنوان بدل دئیے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے حکام نے بڑی عرق ریزی اور دیدہ خوری سے اس کا مطالعہ کیا۔ کچھ نہ برآمد ہوا، پھر پڑھا، مگر بے سود۔ پاکستان نے وضاحت مانگی تو وضاحت کچھ ایسی تھی کہ بس یوں سمجھئے کہ ریاضی کے پرچے کے جواب میں جیومیٹری کا پرچہ حل کر دیا بلکہ بقول وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی ’’بھارتی ڈوزئیر ایسے نعرے جیسا تھا، ’’جب تک سموسے میں آلو رہے گا، لیڈر ہمارا لالو رہے گا۔‘‘ وزارتِ خارجہ نے 8 سوالوں کے جواب نہ دینے پر بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کر کے نئے سوال دے دئیے ہیں۔ مودی سرکار اور بھارتی حکومت کے درجنوں شہ دماغ جس پرچے کو حل کرنے میں ناکام رہے، اُنہیں نیا پرچہ تھما دیا اگر اُنکے پاس کچھ ہوتا تو ڈوزئیر ایسا مرتب کرتے کہ وضاحت طلب امور باقی نہ چھوڑتے۔ بہتر یہ ہے کہ بھارتی ڈوزئیر کو شائع کر دیا جائے تاکہ ہم ایسے نادان بھی بھارتی دانش سے استفادہ کر سکیں۔ ہماری بات لکھ لیں، نئے سوالوں کا جواب پہلے سے بھی زیادہ مہمل آئے گا۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نو مسلم لڑکیوں کو شوہروں کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی
گھوٹکی سے دو ہندو لڑکیوں نے اسلام قبول کر کے دو مسلم نوجوانوں سے شادی کر لی۔ اس سماجی واقعہ پر مقامی لبرلز اور بعض اقلیتی رہنمائوں نے بڑا شور مچایا۔ پہلے تو یہ کہا گیا کہ لڑکیاں نابالغ ہیں چنانچہ میڈیکل بورڈ بیٹھا اُس نے رپورٹ دی کہ آسیہ کی عمر 19 سال اور نادیہ کی 18 سال ہے۔ پھر یہ الزام تراشا گیا کہ زبردستی مذہب تبدیل کرایا گیا لیکن جب آزاد ماحول میں لڑکیوں سے پوچھا گیا تو اُنہوں نے دوٹوک کہا کہ اُنہوں نے مرضی سے اسلام قبول کیا اور مرضی سے شادی کی۔ بھارت نے اس واقعہ کو اس طرح اُچھالا کہ جیسے وہ پہلے ہی اس قسم کی دُرفنطنی کے انتظار میں تھا۔ انتہا پسندوں کی حکومت نے دُنیا بھر میں پھیلا دیا کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ اُن کی لڑکیوں کو زبردستی اُٹھا لیا جاتا ہے۔ مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ۔ اگر اس واقعہ میں تحمل کے ساتھ تحقیق کر لی جاتی تو یہ سکینڈل بن ہی نہیں سکتا تھا۔ حب الوطنی کا تقاضا یہ ہے کہ منہ کھولنے سے پہلے یہ سوچ لیا جائے کہ حرمتِ وطن کو تو گزند نہیں پہنچے گی۔
٭٭٭٭٭
بھیک مانگنے سے بہتر ہے فٹ پاتھ پر بیٹھ کر فٹ بال بنائوں۔ عابدہ پروین
عابدہ پروین کا تعلق اسلام آباد سے ہے۔ اس کا رشتہ اُس طبقہ سے ہے جو غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ بعض لوگ بھیک پر گزارا کرتے ہیں۔ بعض کو صدقہ و خیرات زندہ رکھے ہوئے ہے اور کچھ عابدہ پروین ایسے لوگ ہیں ، جن کے بارے میں علامہ اقبال نے کہا تھا …؎
گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ منعم کو گدا کے ڈر سے نہ تھا بخشش کا یارا
عابدہ پروین نے خدا کی دی نعمتوں ہاتھ پائوں اور آنکھوں کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا اور فٹ پاتھ پر بیٹھ کر اپنے اور اہل خانہ کے لیے قوتِ لایموت کا سامان کرنے کی ٹھانی اور فٹ بال بنانے لگی۔ ایسے باہمت لوگ قومی سطح پر حوصلہ افزائی کے سزا وار ہیں۔ بلکہ پولیس کو چوکوں سے گداگروں کو اُٹھا کر عابدہ پروین کی شاگردی میں دے دینا چاہیے کہ اس سے کئی زندگیاں سنور جائیں گی۔ پاکستانیوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دُنیا میں سب سے زیادہ مخیر لوگ ہیں۔ اس بات میں شبہ نہیں۔ بہت سے ادارے، دینی مدارس اور بھکاری خیرات پر پل رہے ہیں لیکن روزی وہی بابرکت اور حلال ہوتی ہے جو دست و بازو سے کمائی جائے۔ عابدہ پروین اُن نوجوانوں کے لیے رول ماڈل ہیں جو بے روزگاری کا رونا روتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ باہمت لوگوں کے لیے بے شمار راہیں کھول دیتا ہے۔ کوئی بعید نہیں کہ عابدہ پروین کا کام چل نکلے اور وہ فٹ پاتھ سے اُٹھ کر کسی کھوکھے اور پھر کسی ورکشاپ اور وہاں سے ہوتی ہوئی ایک دن کسی کارخانے کی مالک بنی بیٹھی ہو۔ بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ ٹاٹا کمپنی (جو دُنیا کی چند بڑی کمپنیوں میں ہے اور جس کے کھربوں ڈالر کے اثاثے ہیں ) کے بانی جمشید جی ٹاٹا نے فقط 21 ہزار روپے سے کاروبار شروع کیا تھا۔ !