بھارت کی کٹھ پتلی بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی خون آشامی تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔ پاکستان سے اس کی شدید نفرت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اپنے مربی بھارت کی ایماء پر وہ 1971ء میں مشرقی پاکستان کے بحران کے دوران متحدہ پاکستان کے حامیوں کو چن چن کر انتقام کا نشانہ بنا رہی ہے۔ ایسا کیوں نہ ہوں‘ اس کی رگوں میں اس شخص (شیخ مجیب الرحمن) کا خون دوڑ رہا ہے جو پاکستان کو دولخت کرنے کے ذمہ دار کرداروں میں سے ایک ہے۔ دسمبر 1971ء اور اس سے قبل کے 8مہینوں میں مکتی باہنی کے روپ میں بھارت کی مسلح افواج کا جن پاکستانیوں نے پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ مقابلہ کیا تھا‘ انہیں حسینہ واجد آزادی کے دشمن قرار دیتی ہے۔ ان محب وطن پاکستانیوں سے انتقام لینے کی خاطر اس نے چند سال پہلے ایک نام نہاد انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل بنایا تھا۔ یہ ٹربیونل انتہائی غیر شفاف انداز میں کام کررہا ہے۔ اس کی تشکیل اور طریق کار عالمی قوانین سے متصادم ہے۔ یہ غیر مصدقہ شواہد کی بناء پر متحدہ پاکستان کے حامیوں کو سزائے موت یا عمر قید سنارہا ہے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے ضعیف العمر رہنما اس ٹربیونل کا خصوصی ہدف ہیں۔ ان کے علاوہ حزب اختلاف کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے چند رہنما بھی اس کا شکار ہوچکے ہیں۔ اب تک جماعت اسلامی کے 6سرکردہ رہنمائوں کو تختۂ دار پر لٹکایا جاچکا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ انہیں اپنے دفاع کا موقع بھی فراہم نہیں کیا جاتا اور ناکافی ثبوتوں پر سزا سنا دی جاتی ہے۔ چند روز قبل بھی اسی ٹربیونل نے جماعت اسلامی کے چار اور حزب اختلاف کے ایک رہنما کو قتل‘ اغوائ‘ جلائو گھیرائو‘ لوٹ مار اور زیادتی کے الزامات کے تحت ان کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی ہے۔ اس تین رکنی ٹربیونل کی سربراہی جسٹس شاہین الرحمن کررہے ہیں۔ جن رہنمائوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے‘ ان میں 66سالہ شیخ محمد عبدالمجید‘67سالہ محمد عبدالخالق تعلقدار‘ 70سالہ محمد کبیر خان‘ 68سالہ عبدالسلام بیگ اور 70سالہ نورالدین شامل ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کی حمایت کے الزام میں بنگلہ دیش کی موجودہ حکومت جماعت اسلامی پر پہلے ہی پابندی عائد کرچکی ہے اور وہ سیاست میں حصہ لینے کی مجاز نہیں ہے۔شیخ حسینہ واجد کا پاکستان مخالف جنون انصاف اور اخلاق کی تمام حدیں عبور کرتا جارہا ہے۔ وہ اپنے باپ شیخ مجیب الرحمن کے عبرتناک انجام سے سبق سیکھنے پر تیار نہیں ہے جو اپنے ہی فوجیوں کے ہاتھوں قتل ہوگیا تھا اور اس کی لاش کئی روز تک اس کے گھر کی سیڑھیوں پر لاوارث پڑی رہی تھی۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ اس عورت کی خون آشامی پر حکومت پاکستان نے بھی چپ سادھ رکھی ہے حالانکہ اسے عالمی فورمز بالخصوص اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے پلیٹ فارم پر یہ مسئلہ اٹھانا چاہیے۔ پاکستان کو چاہیے کہ دنیا بھر کی عالمی حقوق کی تنظیموں کی بھی توجہ اس ناانصافی کی طرف مبذول کرائے کیونکہ متحدہ پاکستان کے ان حامیوں کو جن الزامات کی بنیاد پر سزا دی جارہی ہے‘ ان کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ان کا اصل قصور تو یہ ہے کہ اُنہوں نے پاکستان کے خلاف بھارتی جارحیت کے مقابلے میں پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ مادرِ وطن کا دفاع کیا تھا اور بین الاقوامی قوانین کے تحت وہ ایسا کرنے میں بالکل حق بجانب تھے۔ جہاں تک مکتی باہنی کی مزاحمت کا تعلق ہے‘ وہ درحقیقت بھارتی فوج ہی تھی۔ موجودہ بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی نے خود ڈھاکہ جاکر اس کا بڑے فخر سے اعلان کیا کہ بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے بھارتی فوج نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ کسی بھی زاویے سے دیکھا جائے‘ مذکورہ ٹربیونل کی کارروائی اور سنائی جانے والی سزائیں انصاف اور قانونی تقاضوں سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتیں۔ شیخ حسینہ واجد کو شاید معلوم نہیں کہ بنگلہ دیشی عوام کی بھاری اکثریت آج بھی پاکستان سے شدید محبت کرتی ہے۔ پاک بھارت کرکٹ میچوں میں وہ کھلم کھلا پاکستانی ٹیم کی حمایت کرتے ہیں جس سے یقینا شیخ حسینہ واجد کے سینے پر سانپ لوٹ جاتے ہوں گے۔ اگر پاکستان سے محبت جرم ہے تو پھر بھارت کی یہ کٹھ پتلی کتنے بنگلہ دیشیوں کو پھانسی پر لٹکائے گی؟ اسے ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور بے قصور انسانوں کی جانیں لینے سے باز آجانا چاہیے ورنہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں دیر تو ہے مگر اندھیر ہرگز نہیں ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38