ہزاروں سال قبل ایک بادشاہ جولیس سیزر ہوا کرتاتھالیکن دلوں اور غریبوں کا بادشاہ جولیس سالک بھی تاریخ کی نظروں سے ابھی گزررہاہے پاکستان کی تاریخ کا ایک کامیاب ترین شخص جس کو لوگ جے سالک کے نام سے جانتے ہیں میرا ان سے واسطہ ایک صحافی اور کالم نگارکی حیثیت سے کراچی کی ایک افطارپارٹی میں ہوا تھا جہاں پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی نمائندگی موجود تھی اس سے قبل میں اپنے تایارائورشید حسین کے حوالے سے انہیں جانتاتھاکیونکہ رائورشیدحسین (بارے خاں) لاہور میں جے سالک کے ابتدائی دوستوں میں شامل تھے ،جے سالک نے اپنے سیاسی کیئرکا آغازایک ایسے مشن کے ساتھ کیا تھا جس کی کہانی میں کئی ایسے دلچسپ موڑ آجاتے ہیں جنھیں پڑھنے اور سننے والا دنگ رہ جاتاہے ۔جے سالک لاہور میں جس محلے میں رہا کرتے تھے وہاں ان کی ایک صابن کی فیکٹری ہواکر تی تھی اور اس محلے میں صرف ایک ہی مسیحی خاندان تھا اور وہ تھی جے سالک کی فیملی۔ یہ ایک نہایت پڑھی لکھی فیملی تھی ۔ اس زمانے میں چھوٹے چھوٹے ہوٹل جے سالک کی فیکٹری کے ثابن تو خریدلیتے تھے مگر ان کے ساتھ سخت تعصب اور اچھوتوں والا سلوک بھی کیا جاتاتھا، اس زمانے میں آٹاگوندھ کر گھروں سے ہوٹل پر جاکر روٹیاں لگوانے کا رواج تھا جس کی بنیادی وجہ لکڑیوں کا جلانااور گھروں میں سوئی گیس کا نہ ہونابھی تھا،ہوٹل پر روٹیاں لگانے والوں کا ایک وطیرہ یہ ہوتاتھا کہ وہ روٹیاں لگاتے ہوئے کچھ آٹے کے پیڑے نکال کر ر کھ لیتے تھے مگر اس قدرپڑھی لکھی اور ایک صابن کی فیکٹری کی ملکیت رکھنے والی فیملی کے آٹے کو ہاتھ تک نہ لگایاجاتاتھا یعنی جے سالک کے گھر سے آئے ہوئے گندھے ہوئے آٹے کے تھال کو واپس کردیاجاتا۔ایک دن اتفاق ایسا ہوا کہ جلدی جلدی میں جے سالک نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ کو کہا کہ جائو اور جاکرتندور سے روٹیاں لگوالائوجس پر چھوٹی بہن نے کہاکہ تندوروالا ہم سے تعصب رکھتاہے اور ہماراآٹا واپس کردیتاہے اس دن جے سالک نے کہاکہ آج تو تم ضرور جائو اور میں دیکھتا ہوں کہ وہ آٹاواپس کرتاہے یا نہیں ؟۔مگر جلد ہی چھوٹی بہن روتی ہوئی واپس آگئی اور کہنے لگی ؛ بھائی جان وہ روٹیاں لگاکر نہیں دے رہا ۔۔جسے سن کر جے سالک کو بہت غصہ آیااور اس نے فیصلہ کیا کہ میں آج ہوٹل والے کو مار ہی دونگا۔۔جس پر غصے میں آکر وہ گھر سے نکلااور تندوروالے کے سامنے جاکر کھڑاہوگیاجے سالک اس آس میں تھا کہ تندور والا کوئی ایسی بات کرے جس سے جھگڑے کا جوازپید ہوامگر تندور والا جوایک عمر رسیدہ آدمی تھا غصے میں بھرے جے سالک کے تیور سمجھ چکاتھاجے سالک دوگھنٹے تک اس تندور والے کے سامنے کھڑارہااور پھر گھر واپس آگیااس طرح مسلسل دوروز تک وہ تندوروالے کو دوگھنٹے تک گھورتارہااور تندور والانظریں جھکائے اپناکام کرتارہا۔آخر کار جے سالک کے ضمیر نے ملامت کیا وہ سوچنے لگاکہ ماردینے اور جھگڑاکرنے سے کیا تعصب کرنے کاسلسلہ ختم ہوجائے گا؟ اس دن اللہ پاک نے جے سالک کو راہ دکھائی کیونکہ معاملہ صرف ایک تندور کا نہیں تھا بلکہ کئی تندورایسے تھے جہاں یہ تعصب موجود تھا جنھوں نے مسیحی لوگوں کے برتن تک الگ سے رکھے ہوئے تھے اور تو اور بعض ہوٹلوں پر لکھا ہوتا تھا کہ "مسیحی برادری کے لوگ پہلے مطلع فرمائیں"اس دن جے سالک نے فیصلہ کیاکہ وہ جہاں رہتاہے وہاں کے جوانوں کواکٹھاکرکے ایک ایسی ویلفیئربنائینگے جو امن اور بھائی چارے کے فروغ کے لیے کام کریگی اور ذات پات رنگ ونسل کے فاصلوں اور دوریوں کو نزدیکیوں میں بدل دے گی،اس مقصد کے لیے میرے تایا رائورشید حسین پیش پیش تھے جبکہ ان کے بڑے ہی قریبی ساتھیوں میں مشتاق ناز،غلام مرتضیٰ سمائ،طالب حسین جیسے دوستوں کا ساتھ میسر تھااس گروپ کے بن جانے سے ہوٹل والا بہت متاثرہوااور اس کا تعصب خوبخود ہی ختم ہوگیااسکے علاوہ ایک چائے کا ہوٹل بھی ہواکرتاتھاجس نے مسیحی لوگوں کے لیے چائے کے برتنوں کو الگ کیاہواتھاوہ بھی اس اچھوتے پن سے باہر نکل آیاجبکہ طالب حسین جو نائی کاکام کیا کرتھے اس نے بھی نوجوانوں کی اس تنظیم کا حصہ بن کرتولیہ الگ سے رکھنا بندکردیاتھا،کیونکہ ان تمام نوجوانوں کے دلوں میں یہ بات گھرکرگئی تھی اسلام میں چھوت ،نفرت اور تعصب کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔اور پھر یہاں سے جے سالک کی سیاست کا حقیقی آغازہوااوروہ پہلی بار مارشل لاء کے دور میں1979ء میں آزاد حیثیت سے لاہور سے کونسلر منتخب ہوا،اور آتے ہی مارشل لاء کے خلاف ڈٹ گیا ،اس وقت پورے پاکستان میں ہزاروں کونسلر تھے مگر وہ اکیلا ہی مارشل لاء کے خلاف کھڑا تھا جے سالک کی ہمت کو دیکھتے ہوئے بارہ کونسلر اور بھی میدان میں آگئے اور استعفیٰ دیدیا۔ایک تحریک کاخدشہ پنپے لگاتوآرڈیننس کا واپس ہوناایک مجبوری بن چکاتھاان وقتوں میں صحافیوں اور ڈاکٹروں پر بھی کوڑے برستے تھے اس آرڈیننس کی ہی وجہ سے کچھ صحافیوں کو کمر پر کوڑے کھانے پڑے جن میں ایک دبنگ قلم کار خاور نعیم ہاشمی بھی شامل تھا۔ (جاری)
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024