دنیا کے موجودہ دور کے سیاسی ماحول کی اگر با ت کی جائے تو تین ممالک ایسے ہیں جن کی حکومتوں کے سربراہوں کا ذہنی میلان امن پسندی نہیں ہے بلکہ انسانیت خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف جاری دکھوں اور مظالم کا مداوہ کرنے کی بجائے اضافہ کرنے کی جانب زیادہ زور ہے۔ جن میں ایک ہندوستان کا وزیر اعظم نریندر مودی ہے دوسرا اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو اور تیسرا امریکہ کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ جہاں تک ہندوستان کے مودی کا تعلق ہے تو جب سے یہ شخص حکومت میں آیا ہے اس وقت سے ہندوستانی مسلمانوں کو اذیت میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ پہلے جب صوبہ گجرات کا وزیر اعلیٰ تھا تو وہاں بھی اس کی سربراہی کے دوران مسلمانوں کو گھروں میں بند کر کے آگ لگا کر زندہ جلا دیا گیا تھا اور اس درندگی کے متعلق جب دنیا میں واویلا مچا تو اس وقت کی امریکی حکومت نے مودی کے امریکہ داخلہ پر پابندی لگا دی تھی پھر جب وہ گزشتہ انتخابات میں بطور وزیراعظم ہندوستان منتخب ہو گئے تو وزیر اعظم نواز شریف کو اپنی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی تو میاں نواز شریف اس لئے وہاں گئے کہ ہو سکتا ہے مودی بڑا عہدہ ملنے پر اور میل ملاقات کرنے سے اپنے اندر تبدیلی پیدا کر لے۔ لہذا اس ملاقات میں طے ہوا تھا کہ باہمی تنازعات حل کرنے کی خاطر سیکرٹریوں کی سطح پر میٹنگ ہو گی بعد ازاں آگے بڑھا جائے گا مگر جب میٹنگ کا ایجنڈہ بنایا گیا تو ہندوستان کی طرف سے کشمیر مسئلہ کو سرفہرست رکھنے کی بجائے آخری نمبروں میں رکھا گیا تھا جس پر پاکستانی حکومت نے اعتراض کیا کہ اصل جھگڑے کی جڑ تو تنازعہ کشمیر ہے اس کے سوا اور کیا حل کرنا ہے لہذا کشمیر کے بغیر باہمی بات چیت بے سود ہو گی۔
اس وقت سے لے کر ہندوستانی فوج مسلسل پاکستان اور کشمیر کی سرحد کے اندر گولہ باری جاری رکھے ہوئے ہے جس کی بنا پر سینکڑوں شہری اور فوجی جوان شہید ہو چکے ہیں۔ ادھر مقبوضہ کشمیر میں برہان وانی کی شہادت نے کشمیری نوجوانوں میں آزادی کی نئی روح پھونک دی ہے جس سے سارا کشمیر ہندوستانی فوج کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہو گیا ہے اور جان کی بازی لگا رہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان کی حکومت حالات کی نزاکت کو کیوں نہیں بھانپ رہی‘ اور کشمیر مسئلہ کا حل کیوں نہیں چاہتی بلکہ حالات مزید خراب کرنے کی خاطر ظلم و بربریت میں اضافہ ہی کر رہی ہے جبکہ ستر سال سے کشمیری روزانہ کی بنیاد پر شہید کئے جا رہے ہیں اب یہ جو تازہ واقعہ میں سینکڑوں نہتے کشمیریوں کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی گئی ہے جس میں سترہ کشمیریوں کو شہید کر دیا گیا ہے اس پر تو ہر درد دل رکھنے والے انسان کے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں اور سوچنے پر مجبور ہیں کہ اس ظلم کا جواب آخر کون دیگا۔
دوسرا ملک اسرائیل ہے جس نے فلسطینیوں کے علاقے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور نہتے فلسطینی اپنے وطن کو آزاد کرانے کی خاطر اسرائیلی فوج کا اسی طرح سامنا کر رہے ہیں جیسے کشمیری ہندوستانی فوج کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ دونوں برادر طویل عرصے سے اپنی قیمتی جانوں کو قربان کر رہے ہیں مگر اسرائیلی فوج کا ظلم و تشدد کم ہونے کو نہیں آ رہا بلکہ مزید بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلی فوج نے چند روز قبل کشمیریوں کی طرح فلسطینیوں کے بہت بڑے اجتماع پر بمباری کر کے سینکڑوں افراد کو زخمی اور شہید کر دیا ہے مگر دنیا میں کوئی ایسا ملک نظر نہیں آتا جو ان دونوں مظلوم برادران کو حوصلہ دے اور ان کی حمایت میں اسرائیل اور ہندوستان کو تنبیہ کرے۔ تاکہ یہ دونوں ممالک ان کے دیرینہ مطالبے کو تسلیم کریں اور حل کریں ۔
قبل ازیں امریکی حکومتیں کسی حد تک فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے نارو اسلوک اور ظلم و جبر کی مذمت کرتے تھے اور اسرائیلی حکومت کو حد سے نہیں گزرنے دیتے تھے مگر جب سے ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے ہیں وہ ان علاقوں کا کوئی مطالبہ ماننا تو درکنار بلکہ سرے سے ہی ان کی کارروائیوں اور مطالبے کو دہشت گردی کے زمرے میں گردان رہے ہیں جیسے کہ ٹرمپ نے امریکہ کا سفارتخانہ بیت المقدس میں منتقل کرنے کا اعلان کیا ہوا ہے تاکہ فلسطینیوں کو احتجاج کرنے کا موقع ہی نہ دیا جائے۔ یہی مشورہ مودی کے سامنے ہے کہ کشمیریوں کو اتنا دباؤ اور تنگ کرو کہ وہ آزادی کا نام لینا بھول جائیں۔
یہاں میں سمجھتا ہوں کہ ان تینوں ممالک کے حکمران کی کتنی بھونڈی سوچ ہے کہ وہ مسلم اقوام کے عزم و استقلال کو سمجھتے ہوئے بھی غلط اندازے لگا رہے ہیں کیونکہ اگر ان جانبازوں نے جذبہ آزادی کو بھولنا ہوتا تو یہ تحریکیں تقریباً ایک صدی پر محیط نہ ہوتیں اور لاکھوں شہیدوں کو بھول جاتے مگر یہ خام خیالی ہے حالانکہ امن تب ہی قائم ہو گا جب ہر مظلوم کو انصاف ملے گا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38