موجودہ مسلم لیگ ن کی حکومت اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے جو اگلے ماہ 31۔ مئی کو ختم ہو رہی ہے یو ں آئندہ عام انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ کے حصول کے لئے متوقع امیدواروں نے اپنے رابطے مختلف سیاسی پارٹیو ں کے مرکزی راہنمائو ں سے بڑھانا شروع کردیئے ہیں جبکہ عوامی سطح پر بھی مقامی سیاسی راہنما سرگرم دکھائی دیتے ہیں کون سی جماعت آئندہ مسند اقتدار پر براجمان ہو گی ابھی اس سلسلے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیو نکہ پاکستان کی سیاست گرگٹ کی طرح رنگ بدلتی ہے اسی طر ح سیاسی پنچھی بھی اپنے مفاد کی خاطر اور اقتدار کے حصول کے لئے اڑان بھرنے میں دیر نہیں لگاتے ضلع لودہراں میں بھی سیاسی صورتحال فی الحال غیر یقینی سی ہے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آ ئی یہاں ہونے والے پے درپے ضمنی الیکشن میں ایک دوسرے کو نیچا دکھا چکی ہیں ایک ضمنی الیکشن پی ٹی آئی جیتی تو اگلا مسلم لیگ ن نے جیت لیا لیکن اس میں ضلع کے مضبوط ترین بلدیاتی سیاسی گروپ’’ شہید کانجو گروپ ‘‘ کا کردار اہم رہا ہے 2013ء کے عام انتخابات میں بھی اس آزاد گروپ نے ضلع کی دو قومی سمیت پانچو ں صوبائی نشستوں پر کلین سوئپ کرکے قومی سیاست میں نئی تاریخ رقم کی تھی پورے ملک میں لو دہراں واحد ضلع تھا جس میں آ زاد گروپ تمام سیٹوں پر بھاری اکثریت سے کامیاب ہوا جو بعد ازاں مسلم لیگ ن میں شامل ہو گیا اس گروپ کی سربراہی دو مرتبہ ضلعی ناظم رہنے والے موجودہ وزیر مملکت عبدالر حمن خا ں کانجوکرتے ہیں جن کی بلدیاتی سیاست پر گرفت بہت مضبوط ہے انہیں ضلع کی سیاست کا ’’کنگ ‘‘ بھی کہا جا تا ہے ادھر ضلع لو دہراں میں سب سے زیادہ دوڑ پی ٹی آ ئی کے ٹکٹ کے لئے لگی ہوئی ہے ایک ایک حلقہ میں پی ٹی آ ئی کے دو سے تین امیدوار ہیں جن میں اس وقت سخت مقابلہ ہے مثال کے طور پر سابقہ حلقہ پی پی 207جس کا اب نمبر تبدیل ہو کر پی پی 227ہو چکا ہے اس میں چوہدری زوار حسین وڑائچ جو 2013ء میں مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہو لڈر تھے اور اس حلقہ سے کامیاب شہید کانجو گروپ کے امیدوار عامر اقبال قریشی سے سات سو تیس ووٹوں کے فرق سے ہار گئے تھے اب پی ٹی آ ئی کی ٹکٹ کے لئے پر امید ہیں جبکہ 2008ء میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہونے والے سابق تحصیل ناظم میا ں محمد شفیق آرائیں بھی پیپلز پارٹی کو خیر باد کہہ کر پی ٹی آ ئی کے ٹکٹ کے لئے کو شاں ہیں یو ں اس حلقہ میں جو دنیا پور شہر سمیت دیگر بڑے قصبو ں قطب پور ، جلہ آ رائیں ، مخدوم عالی ، کوٹ مصری خا ں اور د رجن کے قریب بڑے چکوک پر مشتمل ہے پی ٹی آ ئی کو امیدوار کے انتخاب کے سلسلے میں سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیو نکہ چوہدری زوار حسین وڑائچ اور میا ں شفیق آ رائیں دونو ں کو پی ٹی آئی کے مضبوط دھڑوں کی حمایت حاصل ہے کسی ایک کے پی ٹی آ ئی چھوڑنے سے اس حلقہ میں اس کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے اسی طر ح سابقہ حلقہ پی پی 208جو اب پی پی 228ہو گیا ہے اس میں بھی پی ٹی آ ئی کو امیدوار کے انتخاب کے لئے مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے تاہم یہا ں سے سابق صوبائی پارلیمانی سیکرٹری طاہر حسین ملیزئی جو مسلم لیگ ن کے ٹکٹ ہولڈر تھے انہو ں نے بھی پی ٹی آ ئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی وہ اب ایک مضبوط امیدوار کے طور پر سامنے آ ئے ہیں لیکن یہا ں سے پی ٹی آ ئی کے تحصیل صدر آ فتاب بابر خا ں بھی ٹکٹ کے خواہاں ہیں اور اپنی عوامی رابطہ مہم کافی عرصہ سے جاری رکھے ہوئے ہیں یو ں پی ٹی آ ئی کی قیادت کو ان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا سابقہ حلقہ پی پی 209جو اب پی پی 224کہلائے گا اس میں کہروڑ پکا شہر سمیت دیگر دیہی علاقے شامل ہیں میں سابق ایم پی اے رانا اعجاز نون پی ٹی آ ئی کی ٹکٹ کے مضبوط امیدوار ہیں لیکن سابق ایم این اے اختر کانجو کی پی ٹی آئی میں شمولیت کے بعد ان کی خواہش ہوگی کہ وہ اپنے ساتھ احمد نواز جوئیہ کو ٹکٹ دلوائیں یو ں یہا ں بھی پی ٹی آ ئی کے لئے اس حلقہ میں بھی چوائس کرنا آ سان نہیں ہوگا اگر دیگر صوبائی حلقوں کی بات کی جائے تو پی پی 210جو اب پی پی 225ہو چکا ہے لودہراں شہر اور دیگر قصبو ں اور دیہات پر مشتمل ہے تاہم یہا ں سے پی ٹی آ ئی کو ایک مضبوط امیدوار کی اشد ضرورت ہے اس حلقہ سے اس وقت سابق ایم این اے محمد صدیق بلوچ کے صاحبزادے محمد زبیر بلوچ ایم پی اے ہیں سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق انہیں اس حلقہ سے شکست دینا دیگر امیداروں کے لئے خا صا مشکل نظر آ تا ہے اسی طر ح پی پی حلقہ 211جس کا نمبر تبدیل ہو کر اب 226ہو چکا ہے میں احمد خا ں بلوچ جو مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ٹھکرا کر آزاد منتخب ہو کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوگئے تھے اب بھی خاصے مضبوط دکھائی دیتے ہیں تاہم پیر رفیع الدین شاہ آ ئندہ الیکشن میں کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ اہم ترین ہو گا ادھر اگرلو دہراں کے دو قومی اسمبلی کے حلقوں کی بات کی جائے تو حلقہ این اے 154اب تبدیل ہوکر این اے 161لو دہراں 2ہو گیا ہے یہا ں سے پیر اقبال شاہ نے حال ہی میں سابق ایم این اے جہانگیرترین کے بیٹے علی خا ں ترین کو بھاری مارجن سے شکست دی ہے یہا ں سے آ ئندہ الیکشن میں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ہولڈر کون ہوگا یہ بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ ضمنی الیکشن میں صدیق بلوچ ، احمد خاں بلوچ اور پیر رفیع الدین شاہ کے آ پس کے اختلافات کے باعث مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کا قرعہ فال پیر اقبال شاہ کے نام نکلا تھا اور مشکل وقت میں پیر اقبال شاہ نے حیران کن کامیابی سے سب سیاسی تجزیہ نگاروں کے اندازے اور پشین گوئیاں غلط ثابت کر دکھائی تھیں آ ئندہ الیکشن میں اگر انہیں دوبارہ ٹکٹ دیا جاتا ہے تو کیا صدیق بلوچ ، احمد خا ں بلوچ اور پیر رفیع الدین شاہ ان کا اسی طر ح بھر پور ساتھ دیں گے ؟ جبکہ علی خا ں ترین پی ٹی آ ئی کے متوقع امیدوار ہیں دوسری جانب حلقہ این اے 155جو اب این اے 160لو دہراں ون ہوگیا ہے اس میں وزیر امملکت عبدالر حمن خاں کانجو کے مقابلے میں پی ٹی آ ئی اختر خا ں کانجو کو میدان میں اتارتی ہے یا پھر سابق وفاقی پارلیمانی سیکرٹری نواب امان اللہ خا ں کو یہ بہت اہم ہے اس سلسلے میں پی ٹی آ ئی واضح طور پر دو دھڑوں میں تقسیم دکھائی دیتی ہے اخترخاں کانجو دھڑے کی جانب سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ چونکہ تحصیل کہروڑ پکا زمینداروں کا علاقہ ہے اور یہا ں کانجو خاندان ایک عرصہ سے برسر اقتدار آرہا ہے تو عبدالر حمن خا ں کانجو کا مقابلہ صرف اختر خا ں کانجو ہی کر سکتے ہیںکیونکہ علاقے کے جو ز میندار کسی وجہ سے اگر عبدالر حمن خا ں کانجو سے ناراض ہونگے تو ان کے لئے اختر خا ں کانجو سے بہتر کوئی اور چوائس نہیں ہے ادھر نوا ب امان اللہ خا ں کے حامیو ں کو موقف ہے کہ پی ٹی آ ئی کے ٹکٹ کے وہ اصل حق دار ہیں کیونکہ وہ ابتداء سے پی ٹی آ ئی میں شامل ہیں اور جہا نگیرترین کو علاقے میں متعارف کرانے میں بھی ان کا اہم کردار ہے ان کی پی ٹی آ ئی کو مضبوط بنانے میں بہت زیادہ محنت شامل ہے اس لئے نظریاتی کارکنو ں کی بڑی تعداد ان کے حق میں اگر انہیں ٹکٹ نہیں دیا جاتا تو پی ٹی آ ئی کو نظریاتی کارکنو ں کے رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے یہ صورتحال عبدالر حمن خا ں کانجو کے لئے خوش کن ہے کیو نکہ ان کے مقابلے میں پہلے ہی کوئی ایسی شخصیت حلقہ میں موجود نہیں ہے جو انہیں ٹف ٹائم دے سکے اگر پی ٹی آ ئی انتشار کا شکار ہوتی ہے تو اس کا فائدہ عبدالر حمن خا ں کانجو کو ہی ہو سکتا ہے اگر ملک کی سابق سب سے بڑی پارٹی پیپلزپارٹی کی بات کی جائے تو ضلع میں اب اس کی گرفت کافی کمزور پڑ چکی ہے زیادہ تر جیالے پی ٹی آئی یا شہید کانجو گروپ میں شامل ہوچکے ہیں تاہم پیپلزپارٹی فیڈرل کونسل کے رکن ملک قبال راندو ، ضلعی صدر امداد اللہ عباسی دیگر راہنما نیاز سومرو ، عنایت حسین عرف گوگے خا ں ، کنور محمد سلیم ، رائو محمد نعیم ،محمد فخر خانزادہ ، عبدالمجید شاہ ، ملک مختیار ببلی راندو ،میا ں منشا سکھیرا اور سعید احمد لیلو جیسے جیالے اپنی پارٹی کو زندہ رکھنے اور روٹھے جیالو ں کو واپس لانے کے لئے سر توڑ کوشش کررہے ہیں اس طرح آ ئندہ عام انتخابات میں ضلع لودہراں کے تمام قومی اور صوبائی حلقوں میں دلچسپ مقابلے دیکھنے کو ملیں گے عوام کس سیاسی جماعت کو پذیرائی بخشتے ہیں اس کا فیصلہ انتخابی نتائج سے ہو گا ۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38