مغربی میڈیا کے یر غمالی مغربی شہری
9/11 اور ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے بعد سے مسلم ممالک سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کے لئے اکثر یورپی ممالک میں آزادانہ سرگرمیاںدشوار ہو چکی ہیں۔ دنیا میں بالعموم اور امریکہ و مغرب میں بالخصوص جہاں کوئی تخریب کاری یا دہشت گردی کا واقعہ رونما ہوتا ہے امریکی و مغربی حکام اور میڈیا بلا تحقیق و تفتیش چشم زدن میں اس کا ذمہ دار ’’مسلم بنیاد پرستوں‘‘، ’’مسلم انتہا پسندوں‘‘، اور ’’مسلم عسکریت پسندوں‘‘ کو ٹھہرا دیتے ہیں۔ واقعہ کے رونما ہوتے ہی مہذب مغرب کی روادار مقامی آبادی مسلم تارکین وطن کے گھروں ، کاروباری مراکزاور عبادت گاہوں پر حملہ آور ہونا ’’بین الاقوامی دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ کا ایک حصہ تصور کرتی ہے۔ 7جولائی2005ء کے لندن بم دھماکوں کے بعد برطانیہ میں بھی مسلم تارکین وطن کو مقامی آبادی اور حکومتی مشینری کے منافرانہ لیکن بلا جواز رد عمل سے دوچار ہونا پڑا۔ اہل مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ نسل پرستی کے سب سے بڑے مخالف ہیں لیکن 9/11اور 7/7کے بعد حالات نے عالمی برادری کے سامنے تصویر کا انتہائی بھیانک رخ پیش کیا۔ برطانیہ اور نیوز ی لینڈ میں مساجد اور اسلامی سینٹروں پر حملوں کے واقعات سامنے آئے۔ تب اس پر حکومت پاکستان نے بھی اظہار افسوس کیا تھا۔ پاکستانی حکام ایک سے زائد بار مغربی میڈیاکو بتایاتھا کہ ‘‘ اسلام کا مطلب امن و سلامتی ہے اور یہ بین العقائد ہم آہنگی اور بین المذاہب برداشت کا درس دیتا ہے ‘‘ نیویارک میں ’’نائن الیون سانحہ‘‘ اور لندن میں ’’سیون سیون حادثہ‘‘ کے بعد امریکہ و مغربی دنیا کے ذرائع ابلاغ نے ایک لحظہ کا توقف کئے بغیر’’ اسلامی انتہا پسندی ‘‘ ’’اسلامی بنیاد پرستی‘‘ اور ’’اسلامی دہشت گردی ‘‘ کی گھسی پٹی راگنی دوبارہ الاپنا شروع کردی تھی۔ امریکی و مغربی حکام، تھنک ٹینکس اور ذرائع ابلاغ کی یہ روش عالم اسلام کے شہریوں کے لئے یقینا تشویش و اضطراب کے گراف میں اضافے کا موجب بن رہی ہے ۔ اس کی بازگشت اب بھی اس میڈیا میں گونج رہی ہے۔یہ اسی پراپیگنڈہ کا نتیجہ ہے کہ لندن بم دھماکوں کے فوری بعد رد عمل برطانیہ اور نیوزی لینڈ میں شر پسندوں کی جانب سے کئی مساجد پر حملوں، توڑ پھوڑاور انہیںنذر آتش کرنے کی شکل میں سامنے آیا۔ اسلامی سینٹروں اور مسجدوں پر حملوں کے دوران نسل پرست اور بنیاد پرست برطانوی شہریوں نے پٹرول بم استعمال کئے ۔ نیوزی لینڈ کے شہر آک لینڈ میں شر پسند وں نے ایک ہی دن میں تین مساجد اور مسلمانوں کے ایک ثقافتی مرکز پر حملے کئے ۔ ان حملوں کو’’ لندن دھماکوں کا ردعمل‘‘ قرار دیا گیا جو کسی بھی طور درست نہیں۔ یہ کہاں کا انصاف ہے کہ لندن دھماکوں کے دُکھ کا مداوا مغرب میں مقیم مسلم کمیونٹی اور ان کی عبادت گاہوں کو دہشت گردی اور تشدد و تعصب کا نشانہ بنا کر کیا جائے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ یورپ میں مسلمانوںکی تعداد کسی بھی طور کروڑوں سے کم نہیں۔ یورپ میں مقیم مسلم کمیونٹی انتہائی پر امن انداز میں کئی عشروں سے مختلف مغربی ممالک کی اقتصادی اور شہری ترقی میں اہم کردار ادا کر رہی ہے ۔ دنیا بھر کو روا داری ، برداشت اور بین المذاہب ہم آہنگی کا درس دینے والے مغربی معاشروں میں تنگ نظری کی انتہا کا عالم یہ ہے کہ محض رنگ و نسل اور عقیدہ و مذہب کے اختلاف کو جواز بنا کر ایشیاء کے مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلم شہریوں کو ہراساں کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیںجانے دیا جاتا ۔7/7کے بعد بتایا گیا تھاکہ’’ لندن میں اقلیتی شہریوں کی عبادت گاہوں پر سکیورٹی میں اضافہ کردیا گیا ہے‘‘ تاہم یہ خبر عالمی برادری کو بالعموم اور مسلم شہریوں کو بالخصوص تشویش و اضطراب میں مبتلا کر رہی ہے کہ لندن بم دھماکوں کے بعد صرف تین دنوں میں مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے 80 افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا ۔اسی پر بس نہیں، نسل پرست جنونیوں نے دو ایشیائی خواتین کو بھی اغواء کرلیا ۔ برطانیہ میں سر گرم عمل ایک نسل پرست جماعت بی این بی کے گورے کارکنوں نے دیگر نسلوں سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو نفرت بھرے پیغامات بھیجنے کے عمل کو اپنا وتیرہ بنا لیا۔ ان پیغامات میں مسلمانوں کو برطانیہ چھوڑ نے کی دھمکیاں دی گئیں۔برطانیہ میں مسلمانوں کی نگرانی کیلئے انٹیلی جنس کے خصوصی یونٹ کی تشکیل کا منصوبہ بنایا گیا، حالانکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ بیروز گاری ، اقتصادی پسماندگی، نسل پرستی اور اسلام سے نفرت کے سد باب کیلئے اقدام کئے جاتے۔ ایک طرف لندن پولیس کے سابق سربراہ لارڈ سٹیونز یہ دعویٰ کرتے رہے کہ ’’حملہ آور یا ذمہ دار غیر ملکی یا غیر ملکی ایجنٹ تھے ‘‘ یہ ’’رد عمل‘‘ اس امر کا جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ امریکی ریاستوں اور مغربی ممالک کے شہریوں کو مغربی ذرائع ابلاغ نے ڈس انفارمیشن کے ٹارچر سیل میں محصورکر رکھا ہے۔ امریکہ اور مغرب کے یہ سادہ لوح شہری ذہنی ، فکری، نفسیاتی، اعصابی ، حسیاتی اور نظریاتی سطح پر اسلام بیزار اور مسلم مخالف الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کے’’لاچار یرغمالی‘‘ ہیں۔عالم اسلام کے ارباب خبر و نظر کے نزدیک یہ میڈیا ڈس انفارمیشن کا ایکسپرٹ اور اسپیشلسٹ ہے۔ گزشتہ15 برسوں میں اس امر کی ضرورت شدت سے محسوس کی گئی ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا کے شہریوں کو اس یکطرفہ پراپیگنڈہ کی قید سے آزاد کروایا جائے۔ وقت کا اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ ان شہریوں تک اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے حقائق پہنچانے کے لئے ایک طاقتور ابلاغیاتی مرکز اور اس کے ماتحت سیکڑو ں الیکٹرانک چینلز کا نیٹ ورک قائم کیا جائے۔
یہ امر یورپ میں مقیم پاکستان اور عالم عرب کے شہریوں کے لئے انتہائی پریشانی کا موجب ہے کہ بعض مغربی ایجنسیاں بلا سوچے سمجھے ہر دہشت گردانہ واقعہ کا ملبہ عرب یا یورپ میں ابھرتے ہوئے مسلم گروپوںپر ڈال دیتی ہیں۔ یہ سراغ رساں ادارے ایسا کرتے ہوئے جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ عالم اسلام کے اکثر ممالک کے حکام اور شہریوں نے بے گناہ اور معصوم شہریوں کیلئے جان لیوا ثابت ہونیوالے دہشت گردانہ واقعات کی ہمیشہ مذمت کی ۔سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبد العزیز الشیخ دو ٹو ک الفاظ میں عالمی ذرائع ابلاغ کو بتا چکے ہیں کہ ’’ اسلام میں معصوم افراد کی جان لینے کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ،بعض عناصر گھنائونے جرائم کو اسلام سے منسلک کر کے طے شدہ حکمت عملی کے تحت اسلام کے حقیقی تشخص کو مجروح کر رہے ہیں‘‘۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں کسی ایک شخص کا قتل پوری انسانیت کا قتل تصور کیا جاتا ہے۔اس کے باوجود یورپی ممالک میں موجود نسل پرست دہشت گرد مافیاز کی جانب سے مسلمانوں کی عبادت گاہوں، اسلامی سینٹروںاور قبرستانوںپر حملے اس امر پر دال ہیں کہ تہذیب، ترقی ، برداشت، روا داری اور انسانی حقوق کے احترام کے بلند بانگ دعووں کے باوجود امریکا اور مغرب میں بنیاد پرستی ، انتہا پسندی اور مذہبی حوالے سے جنونی منافرت عروج اور اوج پر ہے۔ان کا میڈیا اور حکمران نسل پرست گورے مذہبی جنونیوں کی تہذیب کرنے میں ناکام رہے ہیں۔محسوس ہوتا ہے کہ یورپ پہلے میلینئیم کی صلیبی جنگوں کے جنونی دور سے آج بھی آزاد نہیں ہو سکا ۔