پتنگ بازی یا موت کا کھیل
محمد عرفان چودھری
پتنگ بازی ایک مشہور کھیل ہے جو کہ بہت عرصے سے لوگوں بالخصوص مردوں کے لئے پسندیدہ مشغلہ بنا ہوا ہے۔ پتنگ بازی ایک سستا شوق بھی ہے جو کہ ہر کسی کی پہنچ میں ہے۔ پتنگ اڑانے کا کھیل چین سے شروع ہوا اور جاپان سمیت دنیا بھر کے لوگوں میں بہت مقبول ہو گیا۔ جاپان میں بھی یہ کھیل بہت مشہور ہوا۔ مشرقی ممالک میں بھی یہ کھیل بہت پسند کیا گیا۔ خاص طور پر برصغیر پاک و ہند میں لوگ دن رات کا فرق کئے بغیر یہ کھیل کھیلا کرتے۔ تقسیم ہند کے بعد بھی یہ کھیل پاکستان میں بہت مقبول رہا۔ پاکستان میں بھی پتنگ بازی کو موسم سرما کے آخر میں اور بہار کی آمد پر خاص تہوار کی صورت میں منایا جاتا تھا جسے بسنت کہتے ہیں۔ بسنت پاکستان کا مقبول تہوار تھا اور لوگ اسے بہت جوش و خروش سے مناتے تھے۔ بسنت کے دن آسمان رنگ برنگی پتنگوں سے بھرا ہوتا تھا۔ ان خوبصورت پتنگوں کو ڈور اور مانجے سے آسمان میں اڑایا جاتا تھا۔ بسنت کا تہوار منانے کے لئے دنیا بھر کے سیاح پاکستان کا رخ کرتے تھے۔ خاص طور پر بیرون ملک مقیم پاکستانی بسنت کے موقع پر پاکستان ضرور آتے تھے۔
یہ تہوار ہر عمر کے لوگوں کو یکساں طور پر خوشی کا موقع فراہم کرتا تھا‘ جگہ جگہ بسنت پارٹیز کا انتظام کیا جاتا تھا اور پتنگ بازی کے مقابلے منعقد کئے جاتے تھے۔ مزیدار کھانوں‘ موسیقی اور آتشبازی کا انتظام بھی کیا جاتا تھا۔ شہر لاہور خاص طور پر اس تہوار کی رونقوں کے حوالے سے بہت مشہور تھا۔ پچھلے کئی برسوں سے پاکستان میں پتنگ بازی پر پابندی لگا دی گئی ہے اور بسنت کا تہوار اب منایا نہیں جاتا جس کی بنیادی وجہ کیمیکل ڈور کے استعمال کی وجہ سے بے شمار قیمتی جانوں کا ضیاع ہے۔ پتنگ بازی جو پہلے کبھی عوام کو خوشی پہنچانے کا باعث تھی اب لوگوں کے لئے موت کا پروانہ بن چکی ہے کیونکہ اب جرائم پیشہ لوگ کیمیکل والی ڈور کا استعمال کر کے معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں اور آئے دن ہمیں پتنگ بازی کے نتیجے سے اموات کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دنوں لاہور کے مختلف علاقوں کوٹ عبدالمالک‘ سبزہ زار اور مغلپورہ میں تین مختلف واقعات میں ڈور پھرنے سے ایک موٹرسائیکل سوار جاں بحق اور چار شدید زخمی ہو گئے۔ حکومت کی طرف سے پابندی کے باوجود لاہور اور گرد و نواح میں پتنگ بازی کا ہونا انتظامیہ کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دکاندار پابندی کے باوجود قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چھپ چھپا کر پتنگ اور ڈور فروخت کر رہے ہیں۔ شہریوں کے جان و مال کی حفاظت انتظامیہ کا فرض ہے۔ اس لئے غیر قانونی طور پر پتنگیں اور مہلک ڈور تیار کرنے والوں کے ساتھ ساتھ پتنگ بازی کا سامان فروخت کرنے والوں اور پتنگ بازی کرنے والوں کے خلاف بھی سخت ایکشن لینا ہو گا تاکہ لوگوں کی جان کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے ورنہ نجانے کتنے اور لوگ اس قاتل ڈور کا شکار بنیں گے۔
قاتل کھیل پتنگ بازی پر پابندی کے باوجود صوبائی دارالحکومت میں پتنگ بازی کا سلسلہ سرعام جاری ہے۔ پولیس نے پتنگ بازوں کو پکڑنے کی بجائے چپ سادھ لی اور پولیس منچلوں کو روکنے میں ناکام نظر آرہی ہے بلکہ پولیس پتنگ بازوں اور پتنگ فروشوں کو پکڑ کر روکنے کی بجائے دیہاڑیاں لگانے میں مصروف رہتی ہے۔ پتنگ بازی سے ڈور پھرنے سے ہلاکتوں اور زخمی ہونے کے واقعات آئے روز رونما ہو رہے ہیں۔ منچلے رات کو چھتوں پر سرعام ہوائی فائرنگ اور آتش بازی کرتے نظر آتے ہیں۔
جونہی موسم خزاں کے بادل چھٹتے اور بہار کی آمد شروع ہوتی ہے تو فضا میں بہار کی خوشبو کو نظرانداز کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ شہروں خصوصاً لاہور میں پارک‘ دیہاتوں میں لہلہاتے کھیت اور باغات پھولوں کی خوشبو سے بھر جاتے ہیں اور پرندوں کی چہچہاہٹ سے گونج اٹھتے ہیں۔ کئی طرح کے میلوں اور ثقافتی سرگرمیوں کی بھرمار میں بھی لاہورئیے بسنت کو نہیں بھول پاتے۔
بد قسمتی سے کیمیکل لگی دھاتی ڈور کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کے باعث پنجاب حکومت نے اس ہر دلعزیز میلے پر 2005ء میں پابندی لگا دی تھی۔ کئی لاہوریوں کے لئے بہار کی سچی علامتوں میں مستی بھری موسیقی اور اشتہا انگیز کھانوں کے ساتھ ساتھ پتنگوں بھرا آسمان بھی شامل ہے۔ یہ لوگ ایک ایسی سرگرمی پر پابندی کی منطق سمجھنے سے قاصر ہیں جو محض تفریح کا سامان ہے۔ ان کے نزدیک پتنگ بازی ثقافتی ورثہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ پتنگ بازی محض گلے کاٹنے کا مقابلہ بن کر رہ گئی ہے۔ اس ماں سے پوچھیں جس کا پھول سا بچہ کھلنے سے پہلے ہی مرجھا گیا، اس بچے سے پوچھیں جس کا باپ ڈور پھرنے کی وجہ سے مر گیا اور وہ باپ کی شفقت سے ہمیشہ کے لئے محروم ہو گیا۔ اس کی وجہ سے نہ صرف کئی زندگیاں ضائع ہو جاتی ہیں بلکہ یہ قومی وسائل پر ایک غیر ضروری بوجھ بھی ہے۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دھاتی تار فروخت کرنے والے تاجر اور ان کو استعمال کرنے والے لوگوں کو گرفتار کرے۔ اگر حکومت یا کوئی بھی قانون نافذ کرنے والا ادارہ عزم کر لے تو پولیس کے لئے خونی ڈور کی تیاری اور فروخت کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے سخت اقدامات کرنا کچھ مشکل نہ ہو گا۔ یہ مسئلہ وسائل کا نہیں بلکہ نیک نیتی کے فقدان کا ہے، ذاتی مفادات اور صوبائیت نے ان کے وژن کو بگاڑ دیا ہے۔
معصوم بچوں کے گلے کاٹنے والی قاتل ڈور کا خونی کھیل پھر عروج پر ہے اور پولیس سمیت تمام متعلقہ ادارے اس کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں، سیاسی اثر و رسوخ بھی اس خونی کھیل کے جاری رہنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے‘ شہر میں دن دیہاڑے پتنگ بازی کی جا رہی ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ انتظامیہ کی سرپرستی کے بغیر پتنگیں تیار ہوں‘ مارکیٹ میں فروخت ہوں اور شہر بھر میں اڑائی بھی جائیں۔ حکومت اور انتظامیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ نہ صرف پتنگ بازوں کو گرفتار کرے بلکہ پتنگ سازوں کو بھی پکڑ کر ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائے تاکہ قیمتی جانیں ضائع ہونے سے بچ سکیں۔