مسلم لیگ ضیاء الحق کے سربراہ اعجاز الحق نے کہا ہے 18 ویں ترمیم بلیک میلنگ اور بارگیننگ کی دستاویز ہے۔ ضیاء الحق کا نام آئین سے کوئی نہیں نکال سکتا۔
کہیں اعجاز الحق کا مستقبل میں صدر بننے کا ارادہ تو نہیں جو وہ 18ویں ترمیم کو ایک بیکار دستاویز سمجھنے لگے ہیں۔ باقی جہاں تک ان کے والد کا نام آئین سے نکالنے کا تعلق ہے تو پاکستان کا آئین کسی کی میراث نہیں۔ 18 ویں ترمیم آئین میں شامل کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کا اور بالخصوص صدر زرداری کا کارنامہ ہے جنہوں نے اپنے اختیارات کی قربانی دے کر وزیراعظم کو آل ان آل بنا دیا ہے، پارلیمنٹ کو بھی وزیراعظم کے اختیارات میں شامل کردیا ہے اور پارٹی سربراہ کی حیثیت سے وزیراعظم کو تبدیل کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا ہے البتہ ہمیں اعجاز الحق کی یہ بات بڑی اچھی لگی ہے کہ وہ مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کیلئے پھر میدان میں آگئے ہیں اور وہ اس سلسلے میں تیز تر کوششیں کر رہے ہیں اگر وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نظریاتی پاکستان کے حق میں بڑا سنگ میل ثابت ہوگا اور قائداعظم کی روح خوش ہوگی باقی پیپلز پارٹی نے 1973ء کے آئین کو بحال کرکے اور 18 ویں ترمیم کا اضافہ کرکے ایک اچھاکام کیا ہے اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں تنقید برائے تنقید ترک کردیں ان کی ایک بات وزنی ہے کہ 18 ویں ترمیم میں سیاسی جماعتوں کے الیکشن کو نکال دیا گیا ہے اور اس معاملے کو سپریم کورٹ لے جائیں گے۔ پارٹیوں میں انتخابات کا عمل جمہوری عمل کی اساس ہے۔ خدا کرے ان کی یہ کوشش بارآور ثابت ہو۔
٭…٭…٭…٭
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے وزیراعظم امریکہ سے ڈالروں کی بجائے عافیہ صدیقی کو واپس لائیں۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، پاکستان ڈالروں کی خاطر اپنی بیٹی کو بھول گیا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک پاکستان کے عوام کو امریکی ڈالروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا وگرنہ آج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی کہ پورے ملک میں بلیک آئوٹ ہے۔170 روپے کلو دال بک رہی ہے جسے کبھی کوئی پوچھتا نہ تھا۔ عافیہ صدیقی کو امریکہ نے جھوٹے مقدمے میں الجھا کر اپنی قید میں رکھا ہوا ہے اور اسے اذیتیں پہنچائی جا رہی ہیں یہ ڈالرز تو چند جیبوں میں چلے جائیں گے مگر عافیہ صدیقی کی واپسی ایک ایسا کارنامہ ہوگا جس سے پاکستان کا ہر شہری خوش ہوگا ہمارے وزیرداخلہ جن کی آنیاں جانیاں بندر سے مشابہہ ہیں اور ان کی کارکردگی صفر یہی حال ہماری وزارت خارجہ کا ہے اگر یہ دونوں وزارتیں ڈالروں کو ٹھوکر پر رکھ کر اوباما سے صرف عافیہ صدیقی کی واپسی کا مطالبہ کردیں اور یہ بھی کہہ دیں کہ ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید شمولیت اب اس شرط پر ہوگی کہ پاکستان کی بیٹی اس کو لُوٹا دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ عافیہ باعافیت اپنے وطن نہ پہنچ جائے اور ثانیہ کی طرح اس کو بھی سونے کا تاج پہنایا جائے کہ وہ بھی پاکستان کی ایک ہیروہے ہمارے عوام کو بھی چاہئے کہ عافیہ صدیقی کی واپسی کا مطالبہ اجتماعی طور پر کریں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ عافیہ صدیقی کو بہرصورت واپس لائیں۔
حافظ سعید نے کہا ہے پاکستان اور بھارت میں آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی۔
امیر جماعت الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے وہ بات کی ہے جو وقت کی پکار ہے اور ایک مجاہد کی للکار ہے دراصل دیکھا جائے تو بھارت کا پانی بند کردینے کا عمل ہندو بنیئے کی جانب سے پاکستان کو جنگ پر مجبور کرنا ہے تاکہ وہ دنیا کو بتلا سکیں کہ دیکھو جی ہم چین سے بیٹھے تھے کہ پاکستان نے ہم پر حملہ کردیا اور بیرونی دنیا کو ہمارے نااہل سفارت کار یہ نہیں سمجھا سکیں گے کہ یہ حملہ دراصل بھارت کی طرف سے پاکستان پر ہے اس لئے کہ روٹی کے بغیر تو پھر بھی گزارہ ہوسکتا ہے مگر پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں۔ ہمارے دریا پانی کی لکیریں بن کر رہ گئے ہیں اور بعض میں تو اتنی تیزی بھی نہیں کہ جس سے پائوں کا جوتا گیلاہوسکے۔ سندھ طاس معاہدے کو گولی مار کر پاکستان کو اپنا پانی چھڑوانا چاہئے اور انڈیا کو بتا دینا چاہئے کہ سندھ طاس معاہدہ کالعدم ہے بھارت پاکستان کو ریگستان بنانے کیلئے بلاضرورت ڈیم پر ڈیم بنائے جارہا ہے اس نے 62 ڈیم بنا لئے ہیں اور ان کی دیواریںاتنی اونچی کردی ہیں کہ پاکستان کی طرف جانے والے دریائوں میں کم سے کم پانی جائے دریائے نیلم پر سرنگ مکمل کرکے دریائے نیلم کا بھی 3حصے پانی پاکستان سے چھین لیا گیا ہے اوراب بھی اپنے جنگلات صاف کرکے مزید کئی ڈیم بنانے کا پروگرام شروع کرچکا ہے جس سے اس کے ڈیموں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جائے گی۔ بھارت کے شیر کو بلی سمجھو مگرشیر تو شیر ہے بلی بھی مجبور و مغلوب ہو جائے تو حملہ کردیتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان اور اسکے عوام دونوں کی حالت ایک جیسی ہوگئی ہے دونوں تڑپ رہے ہیں دونوں کمزور ہو رہے ہیں دونوں غیرمحفوظ ہیں دونوں کی خودمختاری دائو پر لگی ہوئی ہے دشمن اندرون و بیرون ملک دندنا رہے ہیں پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے جس میں اسرائیل بھارت امریکہ تینوں کا ہاتھ ہے اورچوتھے وہ اللے تللے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کو بڑے عزیز ہیں اب 18ویں ترمیم منظور ہوگئی ہے تو بجائے اس کے سب دو دو رکعت شکرانے کے نفل پڑھیں ایوان صدر میں جشن منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اس طرح حکمران اپنے ملک کی گلیوں میں پھر کر بدحال عوام کا حال پوچھنے کے بجائے بیرونی ملکوں کے دورے پے دورے کرتے ہیں جن پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں ان کو نہ فکر فردا ہے نہ غم دوش میں عیش و نشاط میں ہیں ۔ان کے چہروں کی چمک دمک اور گاڑیوں کی آمد و رفت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فقط حکمرانی والے پروٹوکول انجوائے کرنے کیلئے عوام کے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں اگر یہی حالت رہی تو ہمارے جمہوری ایوان فقط جم خانہ کلب بن کر رہ جائیں گے ابھی کل کی بات ہے کہ سینٹ کے ایک ممبر گیلری میں ایک دوشیزہ سے اس قدر محو کلام پائے گئے کہ چیئرمین سینٹ کو مجبوراً انہیں جھاڑ پلانی پڑی تاکہ اخبار نویس اعتراض نہ کریں۔
کہیں اعجاز الحق کا مستقبل میں صدر بننے کا ارادہ تو نہیں جو وہ 18ویں ترمیم کو ایک بیکار دستاویز سمجھنے لگے ہیں۔ باقی جہاں تک ان کے والد کا نام آئین سے نکالنے کا تعلق ہے تو پاکستان کا آئین کسی کی میراث نہیں۔ 18 ویں ترمیم آئین میں شامل کرنا پاکستان پیپلز پارٹی کا اور بالخصوص صدر زرداری کا کارنامہ ہے جنہوں نے اپنے اختیارات کی قربانی دے کر وزیراعظم کو آل ان آل بنا دیا ہے، پارلیمنٹ کو بھی وزیراعظم کے اختیارات میں شامل کردیا ہے اور پارٹی سربراہ کی حیثیت سے وزیراعظم کو تبدیل کرنے کا اختیار اپنے پاس رکھ لیا ہے البتہ ہمیں اعجاز الحق کی یہ بات بڑی اچھی لگی ہے کہ وہ مسلم لیگی دھڑوں کو متحد کرنے کیلئے پھر میدان میں آگئے ہیں اور وہ اس سلسلے میں تیز تر کوششیں کر رہے ہیں اگر وہ اپنے اس مشن میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ نظریاتی پاکستان کے حق میں بڑا سنگ میل ثابت ہوگا اور قائداعظم کی روح خوش ہوگی باقی پیپلز پارٹی نے 1973ء کے آئین کو بحال کرکے اور 18 ویں ترمیم کا اضافہ کرکے ایک اچھاکام کیا ہے اس لئے ان کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں تنقید برائے تنقید ترک کردیں ان کی ایک بات وزنی ہے کہ 18 ویں ترمیم میں سیاسی جماعتوں کے الیکشن کو نکال دیا گیا ہے اور اس معاملے کو سپریم کورٹ لے جائیں گے۔ پارٹیوں میں انتخابات کا عمل جمہوری عمل کی اساس ہے۔ خدا کرے ان کی یہ کوشش بارآور ثابت ہو۔
٭…٭…٭…٭
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا ہے وزیراعظم امریکہ سے ڈالروں کی بجائے عافیہ صدیقی کو واپس لائیں۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی، پاکستان ڈالروں کی خاطر اپنی بیٹی کو بھول گیا ہے۔ یاد رہے کہ اب تک پاکستان کے عوام کو امریکی ڈالروں سے کوئی فائدہ نہیں ہوا وگرنہ آج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی کہ پورے ملک میں بلیک آئوٹ ہے۔170 روپے کلو دال بک رہی ہے جسے کبھی کوئی پوچھتا نہ تھا۔ عافیہ صدیقی کو امریکہ نے جھوٹے مقدمے میں الجھا کر اپنی قید میں رکھا ہوا ہے اور اسے اذیتیں پہنچائی جا رہی ہیں یہ ڈالرز تو چند جیبوں میں چلے جائیں گے مگر عافیہ صدیقی کی واپسی ایک ایسا کارنامہ ہوگا جس سے پاکستان کا ہر شہری خوش ہوگا ہمارے وزیرداخلہ جن کی آنیاں جانیاں بندر سے مشابہہ ہیں اور ان کی کارکردگی صفر یہی حال ہماری وزارت خارجہ کا ہے اگر یہ دونوں وزارتیں ڈالروں کو ٹھوکر پر رکھ کر اوباما سے صرف عافیہ صدیقی کی واپسی کا مطالبہ کردیں اور یہ بھی کہہ دیں کہ ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مزید شمولیت اب اس شرط پر ہوگی کہ پاکستان کی بیٹی اس کو لُوٹا دی جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ عافیہ باعافیت اپنے وطن نہ پہنچ جائے اور ثانیہ کی طرح اس کو بھی سونے کا تاج پہنایا جائے کہ وہ بھی پاکستان کی ایک ہیروہے ہمارے عوام کو بھی چاہئے کہ عافیہ صدیقی کی واپسی کا مطالبہ اجتماعی طور پر کریں اور حکمرانوں کو مجبور کریں کہ وہ عافیہ صدیقی کو بہرصورت واپس لائیں۔
حافظ سعید نے کہا ہے پاکستان اور بھارت میں آئندہ جنگ پانی کے مسئلے پر ہوگی۔
امیر جماعت الدعوۃ پاکستان پروفیسر حافظ محمد سعید نے وہ بات کی ہے جو وقت کی پکار ہے اور ایک مجاہد کی للکار ہے دراصل دیکھا جائے تو بھارت کا پانی بند کردینے کا عمل ہندو بنیئے کی جانب سے پاکستان کو جنگ پر مجبور کرنا ہے تاکہ وہ دنیا کو بتلا سکیں کہ دیکھو جی ہم چین سے بیٹھے تھے کہ پاکستان نے ہم پر حملہ کردیا اور بیرونی دنیا کو ہمارے نااہل سفارت کار یہ نہیں سمجھا سکیں گے کہ یہ حملہ دراصل بھارت کی طرف سے پاکستان پر ہے اس لئے کہ روٹی کے بغیر تو پھر بھی گزارہ ہوسکتا ہے مگر پانی کے بغیر جینا ممکن نہیں۔ ہمارے دریا پانی کی لکیریں بن کر رہ گئے ہیں اور بعض میں تو اتنی تیزی بھی نہیں کہ جس سے پائوں کا جوتا گیلاہوسکے۔ سندھ طاس معاہدے کو گولی مار کر پاکستان کو اپنا پانی چھڑوانا چاہئے اور انڈیا کو بتا دینا چاہئے کہ سندھ طاس معاہدہ کالعدم ہے بھارت پاکستان کو ریگستان بنانے کیلئے بلاضرورت ڈیم پر ڈیم بنائے جارہا ہے اس نے 62 ڈیم بنا لئے ہیں اور ان کی دیواریںاتنی اونچی کردی ہیں کہ پاکستان کی طرف جانے والے دریائوں میں کم سے کم پانی جائے دریائے نیلم پر سرنگ مکمل کرکے دریائے نیلم کا بھی 3حصے پانی پاکستان سے چھین لیا گیا ہے اوراب بھی اپنے جنگلات صاف کرکے مزید کئی ڈیم بنانے کا پروگرام شروع کرچکا ہے جس سے اس کے ڈیموں کی تعداد سینکڑوں تک پہنچ جائے گی۔ بھارت کے شیر کو بلی سمجھو مگرشیر تو شیر ہے بلی بھی مجبور و مغلوب ہو جائے تو حملہ کردیتی ہے۔
٭…٭…٭…٭
پاکستان اور اسکے عوام دونوں کی حالت ایک جیسی ہوگئی ہے دونوں تڑپ رہے ہیں دونوں کمزور ہو رہے ہیں دونوں غیرمحفوظ ہیں دونوں کی خودمختاری دائو پر لگی ہوئی ہے دشمن اندرون و بیرون ملک دندنا رہے ہیں پاکستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہے جس میں اسرائیل بھارت امریکہ تینوں کا ہاتھ ہے اورچوتھے وہ اللے تللے ہیں جو ہمارے حکمرانوں کو بڑے عزیز ہیں اب 18ویں ترمیم منظور ہوگئی ہے تو بجائے اس کے سب دو دو رکعت شکرانے کے نفل پڑھیں ایوان صدر میں جشن منانے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اس طرح حکمران اپنے ملک کی گلیوں میں پھر کر بدحال عوام کا حال پوچھنے کے بجائے بیرونی ملکوں کے دورے پے دورے کرتے ہیں جن پر کروڑوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں ان کو نہ فکر فردا ہے نہ غم دوش میں عیش و نشاط میں ہیں ۔ان کے چہروں کی چمک دمک اور گاڑیوں کی آمد و رفت سے پتہ چلتا ہے کہ وہ فقط حکمرانی والے پروٹوکول انجوائے کرنے کیلئے عوام کے ووٹ لے کر اسمبلیوں میں بیٹھتے ہیں اگر یہی حالت رہی تو ہمارے جمہوری ایوان فقط جم خانہ کلب بن کر رہ جائیں گے ابھی کل کی بات ہے کہ سینٹ کے ایک ممبر گیلری میں ایک دوشیزہ سے اس قدر محو کلام پائے گئے کہ چیئرمین سینٹ کو مجبوراً انہیں جھاڑ پلانی پڑی تاکہ اخبار نویس اعتراض نہ کریں۔