کئی دن، ہفتے، مہینے اور دو سال سے زائد وقت گذر چکا ہے۔ مہنگائی پر لکھتے لکھتے، حکومت کی توجہ دلاتے دلاتے اب تو لگتا ہے کہ دو سال پرانا کالم بھی بارہ ستمبر دو ہزار اکیس میں شائع ہو جائے تو کوئی فرق محسوس نہیں ہو گا صرف اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں ردوبدل کرنا پڑے گا جن میں ہر گذرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بہرحال یہ نہایت تکلیف دہ امر ہے کہ عام آدمی کی بنیادی ضروریات پوری نہیں ہو رہیں اور حکومت اس طرف توجہ دینے یا ان مسائل کو حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے۔ پنجاب میں وزارت صنعت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ مہنگائی کی ایک قسم مصنوعی ہے، ایک قسم بدانتظامی سے پیدا ہوتی ہے ایک قسم ناجائز منافع خوری ہے۔ ان تمام پہلوؤں کو سمجھے اور زمینی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی بہتری کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ وزارت صنعت کو وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بھرپور سپورٹ کیا انہیں واضح ہدایات جاری کیں اور کام کرنے مکمل آزادی بھی دی لیکن پھر بھی مہنگائی اور اشیاء خوردونوش کے حوالے سے کوئی بہتری نہیں ہو سکی۔ پرائس کنٹرول کمیٹیوں کا کوئی وجود نظر نہیں آتا نہ ہی وہ متحرک اور فعال کردار ادا کر رہی ہیں یوں عام آدمی حالات کے رحم و کرم پر ہے۔ کوئی حکومت اس کے دکھوں کا مداوا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اب پنجاب کی ایک متعلقہ وزارت نے فیصلہ کیا ہے کہ مہنگے داموں چیزیں فروخت کرنے والوں کو جرمانے کے بجائے ایک ہفتے تک دکان بند کر دی جائے گی اس فیصلے کے تباہ کن اثرات سامنے آئیں گے کیونکہ جب حکومت دکانداروں کو چیزوں کی فراہمی کی پابند نہیں ہے تو وہ انہیں اپنی مرضی کی قیمتوں کا پابند کیسے کر سکتی ہے کوئی بھی دکاندار سو روپے فی کلو چینی خرید کر پچانوے روپے کیسے بیچ سکتا ہے۔ اڑھائی سو روپے کلو مرغی خرید کر دو سو روپے کیسے بیچ سکتا ہے۔ یا حکومت تمام دکانداروں کے لیے مقرر کردہ نرخوں پر اشیاء کی فراہمی کو یقینی بنائے پھر ناجائز منافع خوری پر کارروائی کرے اس کے ساتھ ساتھ بجلی، پانی، گیس، ادویات، تعلیم و صحت کی سہولیات کو بھی آسان بنائے تاکہ لوگ اپنی ضروریات آسانی سے پورا کر سکیں جب حکومت کچھ کر ہی نہیں سکتی تو پھر مہنگائی کے طوفان میں ہر کوئی اپنی ضروریات پورا کرنے کے لیے جو کر سکتا ہے وہ کرتا رہے گا۔ دکانداروں کو قید کریں، دکانیں بند کریں، جرمانے کریں لیکن جو وزراء کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں انہیں جرمانہ کون کرے گا۔ جن کے غلط فیصلوں کا خمیازہ کروڑوں لوگ بھگت رہے ہیں ان کا احتساب کون کرے گا، کیا کوئی یسا راستہ موجود ہے کہ ناکام وزراء کو بھی مخصوص مدت تک کسی وزارت سے دور رکھنے کی سزا دی جائے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کہتے ہیں ملک میں مہنگائی کی شرح 13.64فیصدتک پہنچنے سے محسوس ہوتا ہے کہ حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ میں واضح طور پر مہنگائی کی شرح 13.64فیصد بتائی گئی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ کرونا کے باعث دنیا بھر میں مہنگائی بڑھی ہے لیکن پاکستان ایک زرعی ملک ہے اس میں مہنگائی کی شرح میں اس حد تک اضافہ ناقابل فہم ہے۔یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ تین سال کے دوران حکومت مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مہنگائی کے باعث متوسط طبقے کی قوت خرید بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کے لیے خاندان کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے اور یوٹیلٹی بلوں کی ادائیگی کی طاقت ختم کر دی ہے۔اشیاء خوردونوش کی مہنگائی تو ہو ہی رہی ہے اس پر ظلم یہ کہ حکومتی ادارے نیپرا نے بجلی کی قیمت میں ایک روپے 38 پیسے فی یونٹ اضافہ کر دیا۔بجلی جولائی کی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں مہنگی کی گئی اور اضافہ ستمبر کے بلوں میں وصول کیا جائے گا۔سی پی پی اے نے بجلی ایک روپے 47 پیسے مہنگی کرنے کی درخواست کی تھی۔لوگ اب یہ پوچھ رہے ہیں کہ حکومت ان کو کن شرائط پر بجلی کے بل ادا کرنے کے لئے قرضہ دے گی کیونکہ ان حالات میں ان کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ وہ بجلی کے بل ادا کر سکیں اب صورتحال یہ ہو گئی ہے کہ کھانا کھائیں یا یوٹیلیٹی بل ادا کریں۔بڑے سٹوروں پر اشیاء انتہائی مہنگی ہیں۔ حکومتی اداروں کی رٹ جب بھی کمزور ہو ئی تو ناجائز منافع خوری شروع ہو جاتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کے تین سالہ دور اقتدار میں حکومتی مشینری مہنگائی پر قابو پانے میں مکمل ناکام نظر آتی ہے جس کی واضح مثال ملک میں آٹے کی قیمت میں اضافہ ہونا ہے اور اس کی پرچون قیمت 1230 روپے کی انتہائی بلند سطح پر پہنچ گئی پنجاب حکومت نے اس سال گندم کی قیمت 1800روپے من مقرر کی اس وقت 20کلوآٹے کی قیمت 1060روپے تھی جب حکومت پنجاب نے گندم کی سرکاری بند کی اور فلور ملوں کو گندم کی خریداری کی اجازت ملی تو اس وقت اوپن مارکیٹ میں گندم کی قیمت 1950روپے سے 2000روپے ہو گئی اس وقت آٹے کا 20 کلو تھیلا 1080روپے سے 1090 روپے کا تھا پھر 18 اگست کے بعد آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور اس کی قیمت 1230روپے سے 1240 روپے ہو گئی کیونکہ اوپن مارکیٹ میں ایک من گندم کی قیمت2330روپے تک پہنچ گئی تھی۔سوال یہ ہے کہ محکمہ خوراک کیا کر رہا ہے کیا اس کی ذمہ داری صرف سالانہ گندم کی خریداری یا فلور ملوں کو سرکاری گندم تک محدود ہے اوپن مارکیٹ میں جب گندم مہنگی ہونا شروع ہوئی تو اسے کنٹرول کرنے کے لئے کیوں نہیں اقدام کئے گئے محکمہ خوراک کے حکام کے مطابق سرکاری گندم کا اجرا اکتوبر سے ہو گا اس کا مافیا نے فائدہ اٹھایا اور گندم کی قیمتوں میں اضافہ شروع کر دیا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ آٹے کے نرخ آج تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔مجوزہ گندم ریلیز پالیسی کے حوالے سے وفاقی حکومت کی گائیڈ لائنز کی روشنی
میں اگلے ہفتے سے صوبائی کابینہ سے منظوری کے بعد محکمہ خوراک کی طرف سے چاروں صوبوں میں 1950 روپے من پر ریلیز کا امکان ہے. اس طرح20کلو آٹے کا تھیلا 1100 روپے میں دستیاب ہو گا. جبکہ ٹارگٹڈ سبسڈی والا 10 کلو کا تھیلہ 430 کا ہو گا.اس میں بھی ایک قباحت ہے کہ پنجاب ،خیبر پختون خواہ اور بلوچستان تو تسلیم کر لیں گے لیکن کیا سندھ اسے تسلیم کرئے گا کیونکہ اس نے گندم کی سرکاری خریداری کا ریٹ 2000روپے فی من مقرر کیا تھا اب 1950روپے میں اسے نا صرف 50روپے فی من بلکہ گندم سنبھالنے کے اخراجات کا بھی نقصان ہو گا یہ تمام چیزیں انتظامی امور سے متعلق تھیں اس وقت اگر تمام صوبوں میں قیمتوں پر ہم آہنگی پیدا کر لی جاتی تو اب سرکاری گندم کی یکساں قیمت مقرر ہو سکتی تھی اس میں سیاسی قیادت اور انتظامیہ دونوں برابر کے شریک ہیں۔نوے کی دہائی کے بعد کا جائزہ لوں تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ ایک مشرف دور میں گورنر سٹیٹ بنک ڈاکٹر عشرت حسین نے اور بعد میں مسلم لیگ (ن)کے دور حکومت میں اسحاق ڈار نے ڈالر کو مصنوعی طور پر کنٹرول کیا جس سے وقتی طور پر مہنگائی کنٹرول ہوئی لیکن ملک کی معیشت تباہ ہو گئی بعد کی حکومتوں نے معیشت کو درست کرنے کے لئے آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرضے لیے جس کے نتیجے میں بجلی گیس مہنگی ہوئی ٹیکسز میں اضافہ ہوا اور عام آدمی کی قوت خرید انتہائی متاثر ہوئی۔ مہنگائی ہر قابو پانے کا صرف ایک حل ہے کہ ذرائع آمدنی بڑھائے جائیں،زرعی اور صنعتی پیداوار کو بڑھایا جائے اور برآمدات میں اضافہ کیا جائے لیکن پاکستان کی بدقسمتی رہی ہے کہ اس جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ہماری تمام توجہ قرضوں پر رہی وقتی طور پر تو حالات ٹھیک ہو گئے لیکن بعد میں حالات زیادہ خراب ہوئے اس وقت پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 27ارب 10کروڑ ڈالر سے زائد ہیں لیکن ان کا بیشتر حصہ قرضوں کی رقم پر مشتمل ہے یہ صرف دکھانے کے لئے ہیں ہم ان سے اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے ان کو واپس بھی کرنا ہے اور ان پر سود کی ادائیگی بھی کرنی پڑھے گی اسی طرح رواں مالی سال کے پہلے 2ماہ میں پاکستان کو 7.5ارب ڈار کا تجارتی خسارہ ہوا جو گزشتہ مالی سال کی اتنی مدت کے دوران 3.41ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کے مقابلے میں 119.94فیصد ذائد ہے اس کی بنیادی وجہ درآمدات میں اضافہ ہوا ہے ابھی درآمدات کی تفصیل نہیں حاصل ہوئی لیکن اندازہ ہے کہ پاکستان کے کھانے پینے کی اشیا کے امپورٹ بل میں بھی اضافہ ہوا ہو گا اس کا ذکر میں اپنے اگلے تجزیے میں کروں گا۔ حکومت اور اپوزیشن مل کر مہنگائی پر قابو پانے کے لئے حکمت عملی تیار کریں ورنہ عوام کا ردعمل بہت سخت ہو گا۔ دیکھتے ہیں کہ مشکل حالات کے باوجود جمہوریت کی حمایت کرنے والے ووٹرز کو جمہوری نظام کچھ دیتا ہے یا نہیں۔
قصّہ جونیجو کی وزارتِ عظمیٰ کا
Mar 26, 2024