قائد اعظم محمد علی جناح نے قیامِ پاکستان کے دو ہی ماہ بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں پہلی تعلیمی کانفرنس کا جو پیغام دیا تھا اس میں کہا تھا : ’’تعلیم اور صحیح قسم کی تعلیم کی اہمیت پر جتنا بھی زور دیا جائے کم ہے۔ تقریباً ایک صدی کے دورِ غلامی میں قوم کی تعلیم کا سوال صحیح توجہ سے محروم رہا اور اگر ہمیں صحیح معنوں میں جلد از جلد اور معتدبہ ترقی کرنی ہے تو اس مسئلے کے حل کی طرف جلد متوجہ ہو جانا چاہیے اور اپنی تعلیمی پالیسی اور پروگرام کو ایسا بنانا چاہیے جو اہلِ ملک کے مزاج کے مطابق اور ہماری تاریخ و ثقافت سے پوری طرح ہم آہنگ ہو۔ البتہ اسی کے ساتھ ساتھ یہ ضرور مدنظر رہے کہ جدید اقدار حیات اور جدید ترقیات علمی بھی کسی صورت نظرانداز نہ ہوں۔‘‘ اس کے بعد اس پیغام میں قائد اعظم نے صنعتی اور سائنسی تعلیم اور توسیع صنائع وغیرہ پر زور دیا اور یہ ارشاد فرمایا کہ ’’صحیح قسم کی تعلیم کے ذریعہ سے ایسی روح پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ ہر پاکستانی نوجوان اخلاقی ذمہ داری اور اعلیٰ سیرت و کردار کا مکمل نمونہ بن سکے۔‘‘ لیکن یہ کس قدر دُکھ او ر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کی روح آج بھی یعنی قیامِ پاکستان کے بعد ۷۳ سال گزر جانے پر بھی بڑی حد تک بدیس ہے۔ اس روح کو ابھی تک ان چیزوں سے مغائرت ہے جن کے بغیر تہذیب و ثقافت کے الفاظ بے معنی ہو جاتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ہم اپنے ذہن میں پھر اس بات کو تازہ کریں کہ ہمارا مقصود اور نصب العین کیا ہے اور اسے حاصل کرنے کے لیے ہم نے اب تک کیا کچھ کیا ہے۔ جہاں تک تعلیمی نظام کا تعلق ہے اپنا احتساب کرنے پر ہمیں یہ نظر آئے گا کہ ہم نے اب تک جوکچھ کیا ہے وہ بالکل ناکافی ہے۔
خیر جووقت ضائع ہو گیا اس پر افسوس کرنے کے بجائے ہمیں حال اور مستقبل کی فکر کرنی چاہیے کہ اب ہم کس طرح قائد اعظم کے بتائے ہوئے راستے پر چل سکتے ہیں۔ جیسا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں پاکستان ایک نظریاتی مملکت ہے جس کی بنیاد اسلام پر رکھی گئی ہے، اس لیے پاکستان کا کوئی فلسفہ خواہ وہ تعلیمی ہو کہ سیاسی یا اقتصادی یا معاشرتی، دین کے عنصر سے خالی نہیں ہو سکتا۔ لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم نے اب تک تعلیم کے نظام و نصاب اور فلسفے میں دین کو وہ اہمیت نہیں دی ہے جو دینی چاہیے۔دین کا مرکزی نکتہ ہے عقیدہ یا ایمان، چنانچہ اسلام کے عقائد و اقدار و افکارپر یقین و ایمان پیدا کرنا ہماری تعلیم کا مرکزی مسئلہ ہونا چاہیے۔یہ سمجھنا کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہمارے بچے مسلمان ہیں لہٰذا اسلام پر ایمان تو ایک امر تسلیم شدہ ہے، سوائے خوش فہمی اورخود فریبی کے اورکچھ نہیں۔ ایمان یا اعتقاد اس کو کہتے ہیں جو عمل میں ظاہرہو نہ کہ محض زبان پر ہو۔ اس معیار سے اپنے اوراپنے بچوں کے عمل پر نظر ڈالیے، آپ کو پتا چل جائے گا کہ اسلام پرہمارا ایمان کس پیمانے کا ہے۔ میری رائے میں محض فقہ و اسلامیات کی تعلیم لازمی قرار دے کرہم اپنا مقصد حاصل نہیں کر سکتے، اسلامی عقائد و اقدار، تعلیمات و افکار کو طالب علموں کے دلوں میں اُتارنا بھی ضروری ہے۔ اس کا مؤثر ترین طریقہ میری ناچیزرائے میں یہ ہے کہ انہیں سوانح و سیرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحیح تعلیم دی جائے ۔ مختلف درجوں کے طلبہ کے لیے ان کی ذہنی سطح کے مطابق سوانح و سیرت رسول اکرمؐ پر ایسی کتابیں، کتابچے، مضامین اور مقالات مرتب کروانے چاہئیں جن میں آپ کے فضائل و محاسن آپ کی زندگی کے واقعات کے حوالے سے پیش کیے گئے ہوں۔ اُمید رکھنی چاہیے کہ آپ کی سیرت و سوانح کا مطالعہ طلبہ میں آپؐ کی ذات سے عقیدت و محبت ضرور پیدا کرے گا۔ رسول اکرمؐ کی سیرت، جسے کہ حضرت عائشہؓ نے مجسم قرآن قرار دیا ہے، اگر طلبہ کے دلوں پر نقش ہو جائے تو وہ زندگی کے ہر مرحلے پریہ سوچ کرقدم اُٹھانے پرمائل ہو جائیں گے کہ اس معاملے میں ہمارے کردار و اخلاق اور قول و عمل کی حیثیت اسوئہ رسولؐ کے حوالے سے کیسی ہے۔ حضور اکرمؐ کی پیروی سے جو ذوق ِ زندگی پیدا ہوتا ہے وہ انسانی راحت وغم کے معیار بدل دیتا ہے۔ جدید دور میں مغربی اثرات کے تحت خوشی کا ذریعہ مال و دولت اور حسیاتی لذتیں سمجھی جاتی ہیں۔ یہ خوشی داخلی نہیں، خارج سے حاصل ہوتی ہے۔ حضورؐ کی سیرت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ خارجی راحتوں اور نعمتوں پر اللہ کا لاکھ لاکھ شکر واجب ہے، لیکن سچی خوشی اور طمانیت قلب کے لیے خارجی وسائل کافی نہیں۔ اس کے بغیر بھی سچی خوشی حاصل ہوتی ہے اوریہ حاصل ہوتی ہے عبادت و اطاعت الٰہی، خدمت خلق، ہمدردی بنی نوع انسان اور اس فقر و استغنا اور سادگی سے جو زندگی کی خارجی ضرورتوں کو کم کرنا سکھاتی ہے۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38