کراچی میں اگست 2020ء کی مون سون بارشیں تاریخ میں سب سے زیادہ ہوئیں اور کراچی کی کچی آبادیاں تو پہلے ہی معمولی بارش میں بھی ڈوب جاتی تھیں لیکن اس بار کراچی کے پوش ترین علاقے ڈیفنس‘ کلفٹن اور پی ای سی ایچ ایس بھی ڈوب گئے اور کئی روز تک ان علاقوں میں پانی کھڑا رہا اور بجلی غائب رہی۔ یہاں کے مکینوں نے ہوٹلوں اور دوسرے علاقوں میں مقیم رشتہ داروں کے ہاں پناہ لی۔کراچی کو آفت زدہ تو بارشوں کے بعد قرار دیا گیا حالانکہ بارشوں سے پہلے ہی کراچی آفت زدہ شہر بن چکا تھا اور جگہ جگہ کچرے کے ڈھیر‘ سیوریج کا پانی اور ساتھ ہی بچی کھچی کسر واٹر بورڈ اور کے الیکٹرک کی مہربانیوں نے پوری کررکھی تھی لیکن طوفانی بارشوں کے بعد کراچی میں تباہی کا منظر ہے اور سندھ بھر میں لوگوں کا بہت نقصان ہوا ہے۔
الیکشن 2018ء میں کراچی کی نمائندگی حکمراں جماعت کے حصے میں آئی اور کراچی کے لوگوں نے تبدیلی کے نعرے پر لبیک کہتے ہوئے تحریک انصاف کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا لیکن اس وقت صورتحال بہت زیادہ خراب ہے اور کراچی کی میں سب سے پہلے سیوریج‘ صفائی ستھرائی‘ بجلی کی فراہمی‘ سڑکوں کی تعمیر‘ پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل‘ صاف پانی کی فراہمی سمیت تمام بنیادی مسائل موجود ہیں اور گزشتہ 12سالوں سے براجمان سیاسی قیادت ان مسائل کے حل میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے یا شاید ان مسائل کے حل میں ان کی دلچسپی ہی نہیں اور اب لوگوں نے وفاقی حکومت سے امید لگارکھی تھی لیکن تاحال وفاق بھی کراچی کے متعلق زبانی جمع خرچ کے علاوہ عملی طور پر کچھ کرنے میں مکمل ناکام نظر آرہا ہے۔
کراچی میں طویل عرصے سے پیپلزپارٹی کی حکومت ہے لیکن شہر کھنڈرا ت میں تبدیل ہوتا چلا جارہا ہے اور عوام بدترین لوڈشیڈنگ‘ پانی کی شدید قلت‘ گندگی و غلاظت میں رہنے پر مجبور ہیںحالانکہ کراچی ملک کی معاشی شہہ رگ ہے اور کراچی کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کا مطلب پاکستان کو کھنڈرات میں تبدیل کرنا ہے۔ اس لئے کراچی کے حالات میں بہتری کیلئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر کراچی کے لوگوں کو بیک آواز ہوکر کراچی کو بچانے کے لئے باہر آنا ہوگا ورنہ کراچی کے مسائل میں صرف اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے ۔کراچی کا درد رکھنے والے تمام اسٹیک ہولڈرز روایتی نظام سے بغاوت کریں اور کراچی کے مسائل کے حل کیلئے میدان عمل میں آئیں۔ وفاق‘ سندھ اور تمام جماعتوں سے اپیل ہے کہ خدارا کراچی کے عوام پر رحم کریں اور کراچی کے لوگوں کو گندگی‘ غلاظت‘ پانی و بجلی بحران سے نکالنے کے لئے اپنی تمام تر مثبت صلاحیتیں استعمال کریں اور عوام کو ریلیف دیں۔
کراچی میں حالیہ دنوں میں 18-20گھنٹے کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے کراچی کے عوام کو ذہنی مریض بنادیا ہے اور عوام کے احتجاج پر سندھ کی صوبائی حکومت میں موجود پیپلزپارٹی کی قیادت نے واضح کہا ہے کہ K-Electricکے معاملات وفاق کے پاس ہیں اور اس ادارے کو راہ راست میں لانے کے لئے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کو چاہئے کہ K-Electric کو فوری طور پر لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کا پابند بنائے اور اگر K-Electric کو لوڈشیڈنگ کے مکمل خاتمے کے لئے گیس اور فرنس آئل کی ضرورت ہو تو وفاقی حکومت پہلی ترجیح میں اسے پورا کرے اور اگر K-Electric تمام بنیادی ضروریات اور وسائل کی دستیابی کے باوجود ’’کسی وجہ‘‘ سے کراچی کے عوام کو ذہنی مریض بنارہی ہے تو وفاق فوری طور پر K-Electric کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے تاکہ مستقبل میں کسی بھی صورت عوام کو پریشان نہ کیا جاسکے۔ بہرحال کراچی کی عوام کی نظریں وفاقی حکومت کی جانب ہی ہیں جو کراچی میں پانی‘ بجلی اور صفائی ستھرائی کے مسائل حل کرے کیونکہ عوام نے 2018ء کے الیکشن میں تحریک انصاف کو ہی ووٹ دیا تھا۔ K-Electric کے معاملے میں اب دوٹوک اور فیصلہ کن اقدام کرنا وفاق کی ذمہ داری ہے۔
کراچی کے لئے 1100ارب روپے کے پیکج پر ہر ایک اپنی رائے دے رہا ہے اور سندھ کی صوبائی حکومت اس میں سے بھاری رقم صوبائی حکومت کی جانب سے دیئے جانے کے دعوے کر رہی ہے لیکن سیاسی قیادت صرف پوائنٹ اسکورنگ اور آئندہ متوقع بلدیاتی الیکشن کے لئے کراچی پیکج کی رقم کو سیاسی فائدے کے لئے استعمال کرنے کی کوشش کرے گی لیکن کراچی کی عوام کے ساتھ ایک بار پھر کھلواڑ نہیں ہونی چاہئے اور کراچی کے بنیادی مسائل کے حل کے لئے آرمی چیف‘ کور کمانڈر کراچی اور ڈی جی رینجرز کی ذاتی دلچسپی بہت ضروری ہے کیونکہ کراچی میں ہر سیاسی جماعت کی اپنی سیاسی مجبوریاں ہیں اور وہ اپنی مجبوریوں میں جکڑی ہوئی ہیں جبکہ کراچی کے عوام اس سیاسی نورہ کشتی میں عذاب بھگت رہے ہیں۔
کے الیکٹرک اور کراچی واٹر بورڈ کو رینجرز کے حوالے کیا جانا بہت ضروری ہے کیونکہ کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ کے معاملات غیر جانبدار عسکری قیادت کے کردار کے بغیر درست نہیں ہوسکتے۔ کے الیکٹرک کے متعلق چیف جسٹس صاحب نے سخت ریمارکس دیئے اور بھاری جرمانے کے احکامات صادر کرنے کے باوجود کے الیکٹرک کی ’’حسن کارکردگی‘‘ برقرار رہی اور کلفٹن جیسے پوش علاقے میں کالم تحریر کرتے وقت بجلی چلی گئی۔کے الیکٹرک میں رینجرز یا فوج کا عمل دخل ضروری ہے اور واٹر بورڈ کے والو آپریشن میں بہت ناانصافی ہے ۔ کراچی کے کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں چوبیس گھنٹے پانی آتا ہے اور کچھ علاقے کربلا کا منظر پیش کرتے ہیں جس کی زیادہ ذمہ داری والو آپریشن میں مخصوص مداخلت یا پانی چوری بھی ہے ۔ کراچی بھر میں پانی کی منصفانہ بلاتعطل فراہمی اور پانی چوری کے سدباب کے لئے بھی رینجرز کی تعیناتی بہت ضروری ہے۔ کراچی پیکج کی رقم اگر درست طریقے سے کراچی پر خرچ کرلی گئی اور انتظامی گرفت درست رکھ کر ایسا نظام وضع کرلیا گیا کہ کراچی کی ترقی و بہتری میں کوئی سیاسی مداخلت نہ ہوسکے تو کراچی چمک اٹھے گا جیسا کہ جنرل مشرف کے دور میں کراچی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا گیا لیکن افسوس کہ جمہوریت کے علمبرداروں نے کراچی کو آفت زدہ شہر اور کھنڈر بناکر رکھ دیا۔
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024