ہفتہ‘ 23 محرم الحرام 1442ھ‘ 12 ؍ ستمبر 2020ء
پرائیویٹ ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی(پیرا) کا آڈٹ کرنیوالے افسر نے اپنی ہی بیٹی بھرتی کرا لی
ملک کے سرکاری و غیر سرکاری محکموں ، مختلف قومی و نجی اداروں اور ہمارے معاشرے میں طرح طرح کے ’’کردار‘‘ پائے جاتے ہیں جو نہ صرف بااثر ہوتے ہیں بلکہ اپنے کام میں اس قدر یکتا و ماہر ہوتے ہیں کہ ’’آسمان میں تھگلی لگانا ‘‘ ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے اور ’’محرم‘‘ کو ’’مجرم‘‘ بنانے کا فن بھی خوب جانتے ہیں۔ پٹواری ، گرداور ، قانون گو، تحصیلدار، مختلف محکموں کے کلرک اور آڈٹ آفیسر و اہلکار جن کی ’’آئو بھگت‘‘ کے لیے کئی سرکاری ، غیر سرکاری و حکومتی عہدیدار ہر وقت تیار رہتے ہیں اور ان کو بڑی بڑی ’’پیشکشیں‘‘ بھی کرتے رہتے ہیں۔ اب اسلام آباد کے آڈٹ افسر واصف زیدی نے اگر دوران آڈٹ متعلقہ حکام سے ’’گِٹ مٹ‘‘ کر کے اپنی بیٹی کو پرائیویٹ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز ریگولیٹری اتھارٹی (پیرا) میں بھرتی کرا لیا ہے تو کیا بُرا کیا ہے۔ عین ممکن ہے محکمہ نے خود ہی ان کو ’’پیشکش‘‘ کی ہو۔ ورنہ وہ ڈیلی ویجز پر اپنی بیٹی کو بھرتی کراتے؟ تاہم ایک ’’معمولی‘‘ سا فائدہ اُٹھانے پر آڈٹ افسر واصف زیدی کو کئی اطراف سے طعن وتشنع کا سامنا کرنا پڑا ہو گا کہ…؎
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا
وگرنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی تھا
٭٭٭٭
سی سی پی او لاہور نے 2 ایس ایچ او معطل کر دئیے ، ناشتے والے سے بدتمیزی پر تھانیدار اور 2 کانسٹیبل حوالات میں بند
’’سرمنڈاتے ہی اولے‘‘ پڑنے والا محاورہ آج کل آئی جی پنجاب انعام غنی اور سی سی پی لاہور محمد عمر شیخ پر پوری طرح صادق آتا ہے کہ ان کے چارج سنبھالتے ہی موٹروے پر خاتون سے زیادتی کا شرمناک واقعہ پیش آیا جس پر پورے ملک میں صدائے احتجاج بلند ہو رہی ہے تاہم پولیس اپنی ساکھ بچانے کے لیے کوشاں ہے ، لگتا ہے سی سی پی او لاہور کا بھرپور ’’اِن ایکشن‘‘ ہونا بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ انہوں نے ایس ایچ او ملت پارک ملک شہباز اور ایس ایچ او مصطفی آباد عمران کو مقدمات کے اندراج میں تاخیر پر معطل کر دیا جبکہ تھانہ نواں کوٹ کی حدود میں نان چنے بیچنے والے سے بدتمیزی پر اے ایس آئی اور 2 کانسٹیبل حوالات میں بند کر دئیے۔ اب دو ہی صورتیں ہیں کہ یا تو پولیس کا ’’بگڑا ہوا آوے کا آوا‘‘ ٹھیک ہو جائے گا یا سی سی پی او محمد عمر شیخ کے نام پر کرپشن کے ریٹ اور بڑھ جائیں گے۔ بدقسمتی سے ہم جس نہج پر پہنچ گئے ہیں اس میں اصلاح کی گنجائش و اُمید بہت کم ہے جبکہ بگاڑ کا خدشہ بہت زیادہ ہے۔ اس لیے ڈر ہے کہ کہیں پولیس ناکوں پر اور تھانوں میں افسر و اہلکار اپنی آمدن بڑھانے اور اس کو ’’جائز و حلال‘‘ کرنے کے لیے ’’سی سی پی او فنڈز‘‘ کے نام پر وصولیاں نہ شروع کر دیں۔
آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔
سابق ایکسائز انسپکٹر کے گھر سے 33 کروڑ روپے اور پرائز بانڈ برآمد
سابق ایکسائز انسپکٹر کا اگرچہ گریڈ 16 تھا لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ’’اوپر‘‘ کی کمائی نے بڑے بڑے 21ویں‘ 22ویں گریڈ والوں کو بھی پچھاڑ کر رکھ دیا۔ ویسے اس ایکسائز انسپکٹر کوداد دینی چاہئے جس نے ثابت کر دیا کہ اس ملک میں لوٹ مار پر سب کا ’’مساوی حق‘‘ ہے۔ اس لیے اگر سابق ایکسائز انسپکٹر کے گھر سے 33 کروڑ برآمد ہوئے ہیں تو اس میں اچنبھے کی کیا بات ہے۔ کیا اس سے پہلے کئی اعلیٰ افسروں کے گھروں سے بھاری رقوم برآمد نہیں ہوتی رہیں۔ ایکسائز انسپکٹر خواجہ وسیم کے 22 کروڑ کے اثاثوں کے بھی شواہد نیب نے حاصل کر لیے ہیں اسی لیے تو بہت سارے ’’حامیان رشوت ستانی و بدعنوانی‘‘ نیب کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ ویسے اس ایکسائز انسپکٹر کی اس حد تک ’’دیانتداری‘‘ کی بھی تعریف کرنی چاہئے کہ اس نے جو کچھ مال و متاع تھا ’’جائز‘‘ طریقے سے اپنے ہی گھر میں رکھا ہوا تھا۔ 33 کروڑ روپے کسی فالودے یا رکشے والے کے اکائونٹ میں تو نہیں رکھے۔ ویسے یہ کیسا نالائق اور نکما ایکسائز انسپکٹر ہے کہ جس نے ایمنسٹی سے فائدہ اُٹھایا نہ کنسٹرکشن کے کاروبار میں پیسہ لگایا ورنہ سب کچھ ’’جائز ، درست‘‘ اور ’’رزق حلال‘‘ قرار پاتا۔ کیونکہ آثار و شواہد یہی بتاتے ہیں کہ…؎
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی
وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی
٭٭٭٭
وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے ’’رویت ہلال ایپ‘‘ تیار کر لی
پاکستان میں ’’رویت ہلال ‘‘ ہمیشہ پیچیدہ اور متنازعہ مسئلہ رہا ہے۔ موجودہ حکومت میں فواد چودھری کی ’’رویت ہلال‘‘ میں ’’مداخلت‘‘ نے اس کو مزید ’’اُلجھا‘‘ دیا تھا جس وجہ سے اسلامی نظریاتی کونسل اور رویت ہلال کمیٹی کی وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کے ساتھ ’’سردجنگ‘‘ جاری تھی۔ پچھلی دو عیدیں بھی انہی ’’سہ فریقی شکوک و شبہات‘‘ میں منائی گئی تھیں۔ تاہم فواد چودھری اپنے موقف پر ڈٹے رہے جس پر ان کی وزارت نے نہ صرف ’’رویت ہلال ایپ‘‘ متعارف کرا دی بلکہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے بھی ان کی تعریف کی اور کہا کہ فواد چودھری سے ملاقات کے بعد میری بہت ساری غلط فہمیاں دور ہو گئی ہیں۔ فواد چودھری نے مفتی منیب اور پوپلزئی کو بھی ’’رویت ہلال ایپ‘‘ کا ’’نظارہ‘‘ کرنے کی دعوت دے دی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ ’’چاند چڑھانے‘‘ میں کس کو کامیابی ملتی ہے اور ’’رویت ہلال‘‘ کا مسئلہ مستقل بنیادوں پر حل ہوتا ہے یا وزارت سائنس و ٹیکنالوجی کی کاوش کے بعد کوئی اور وزارت بھی اپنی ’’رویت ہلال ایپ‘‘ متعارف کراتی ہے کیونکہ ’’چاند‘‘ پر تو کسی کا اجارہ نہیں بلکہ
؎چاند ہرجائی ہے ہر گھر میں اُتر جاتا ہے
٭٭٭٭