آج کل دنیا کے تمام ممالک کسی نا کسی بحران میں الجھے ہوئے ہیں اور ان سے نپٹنے کیلئے ہر وقت کسی نا کسی طرح کوشش میں لگے ہے۔ پہلے دنیا کو صرف قتل و غارت گری اور لوٹ مار کا سامنا تھا مگر وقت کے ساتھ ساتھ ان جرائم میں جہاں کمی واقع ہوئی وہیں ’’وائٹ کالر کرائم ‘‘نے سر اُٹھا لیا۔ان جرائم میں دھوکہ دہی، فراڈ ،رشوت خوری، قومی اثاثوں میں خورد برد اور اس جیسے دیگر جرائم شامل ہیں۔ اور ان جرائم کو کرنیوالے عموماً ہمارے معاشرے کے بڑے اور معزز افراد شامل ہوتے ہیں۔ٹیکس چوری، قرضے معاف کرانا اور غیر قانونی طریقوں سے پیسے کو ملک سے باہر بھجوانا بھی انہی جرائم کا حصہ ہے۔ اور اصل بات یہ کہ ان جرائم کو کیا اتنی مہارت سے جاتا ہے کہ آپ جتنی مرضی کوشش کر لیں آپ ان جرائم کی گھتیوں کو سلجھانے سے قاصر رہے گے۔حالیہ سالوں میں پاکستان میں ایسے بہت سارے جرائم سامنے آئے جن میں سابق حکمرانوں کو بھی قانون کا سامنا کرنا پڑا اور سزائیں ہوئے مگر جن جرائم کی سزا سنائی گئی وہ اتنی مہارت اور کمال منصوبہ بندی سے کئے گئے تھے کہ آ ج تک ان اصل تانے بانے نہیں جوڑے جا سکے۔ اور آئے دن کوئی نا کوئی نیا انکشاف ہوتا رہتا ہے۔
معاشرے میں یہ سب جرائم انتشار اور فساد کو بڑھاوا دے رہے ہیںاور آئے دن ہم نئے نئے دل دہلا دینے والے جرائم کے بارے میں سنتے ہیں۔ مگر ان میں سے بہت سارے ایسے ہیں جن کو معمولی سی محنت
اور قانون کے عملدرآمد سے روکا جا سکتا ہے۔دو روز قبل ایسا ہی دلخراش واقعہ دیکھنے کو ملا جس میں ایک عورت کو اس کے بچوں کے سامنے زیادتی کا نشانہ بنا دیا گیا اس وقت کہ جب اس کی گاڑی موٹر وے پر پیٹرول ختم ہو جانے کے باعث رک گئی۔واقعے کے بعد نا معلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر بھی درج ہو گئی ہے اور پولیس کی جانب سے موقف بھی سامنے آگیاہے مگر کیا کسی نے یہ بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت وہاں کوئی موٹر وے پیٹرولنگ پولیس پارٹی کیوں موجود نہ تھی؟ میں ہر مہینے میں کئی بار اس نئی موٹر وے پر سفر کرتا ہوں اور بلاشبہ یہ عوام کیلئے بہت بڑی سہولت ہے مگر دوسری جانب یہ بھی سچ ہے کہ آج تک میں نے اس موٹر وے پر کبھی بھی پیٹرولنگ پولیس کی گاڑی ، سپیڈ چیکنگ کیمرے یا پھر اور کسی طرح سے پولیس کو اس سڑک پر نہیں دیکھا۔ اسکے علاوہ ایک سال گزر جانے کے باوجود اس موٹروے پر ابھی تک کوئی ریسٹ ایریا یا پیٹرول پمپ نہیں بنایا گیا۔شام کے بعد یہ موٹر وے حقیقتاً بہت سنسان اور ویران ہوتی ہے اور دیکھا جائے تو یہ بہت خطرناک صورتحال ہے اور اب اگر اس پر اعلی حکام نے کوئی توجہ نا دی اور آئندہ دنوں میں ایسے مزید واقعات بھی پیش آ سکتے ہیں۔اسکے علاوہ پاکستان میں دوسری چیز جو جرائم پیشہ افراد کو شہ دینے کے مترادف ہے وہ ہے ہمارا قانون، ہمارے آئین میں ایسے جرائم کیلئے جو سزائیں ہیں وہ بہت معمولی ہیں اور سزا سے پہلے ان جرائم کو ثابت کرنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ پھر تفتیشی بھی ان معاملات کو اتنا لٹکا دیتے ہیںکہ مجرم کھلے عام دندناتے پھرتے ہیں ۔ پولیس ایک ایسا ادارہ ہے جو عوام کی جان و مال کا رکھوالا ہے مگر دیکھا جائے تو آئے دن ایسے پولیس افسروں کی تصویریں سوشل میڈیا پر عام ملتی ہیں جو خواتین یا کم عمر لڑکیوں کے سامنے دھوتی پہنے یا انتہائی بیہودہ لباس میں بیٹھے ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ تھانوں کے اندر بھی ان کا خاص پہناوا ہوتا ہے جو ہر لحاظ سے نا قابل قبول ہے۔ کچھ سالوں سے حکومت نے اساتذہ کی مانیٹرنگ کیلئے پنجاب بھر کے تمام اساتذہ پر نظر رکھنے کیلئے گورنمنٹ سکولوں میں کیمرے لگا ئے اور اسکے علاوہ ریٹائر ڈ فوجیوں کو بطور چیکررکھا جو روز ان سکولوں میں جا کر وہاں خود سکول کی حاضری اور دیگر رپورٹیں حاصل کرتے ہیں۔ میری وزیر اعلی سے گزارش ہے کہ پنجاب بھر کے تھانوں میں بھی ایسے ہی سیکورٹی کیمرے لگائے جائیں اور انہیں ایک مرکزی جگہ سے کنٹرول کیا جائے اور کچھ ریٹائرڈ اساتذہ کو بھی بطور چیکر ان تھانوں کی نگرانی کیلئے رکھ لیںجو روز کی بنیاد پر جا کر دیکھیں کہ کتنے جوان اور افسر حاضر ہیں اور کتنے غائب ہیں اور عوام کے مسائل کو کیسے حل کیا جا رہا ہے ۔ وردی پہنی ہے یا دھوتی ۔
اسکے علاوہ قوانین اور سزاووں کو سخت کیا جائے ۔اگر ہزار روپے کے چلان کے ڈر سے لوگ اپنی گاڑی کی سپیڈ کنٹرول کر سکتے ہیں تو بچوں اور خواتین سے زیادتی کرنے والوں کو بھی ایسی ہی شدید سزائیں دینی چاہیں ۔ اس حوالے سے زینب کی دوسری برسی پی ایک بل پاس تو کیا گیا مگر ابھی سر عام پھانسی کسی ملزم کو دی نہیں گئی۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38