جمعرات ‘ 12 ؍ محرم الحرام 1441ھ ‘ 12ستمبر 2019 ء
2020ء انتخابات کا سال ہے۔ پرویز رشید
خدا جانے یہ خیال کہاں سے پرویز رشید کے ذہن نارسا میں در آیا۔ ان کے کان میں کس نے پھونک دیا کہ 2020ء یعنی اگلا سال الیکشن کا سال ہو گا۔ دو چار سال بعد کی بات کرتے تو لوگ اِدھر اُدھر اڑا دیتے۔ اگلے سال کا مطلب ہے 3 یا 4 ماہ بعد الیکشن کا بگل بجے گا اور پرویز رشید لنگر لنگوٹ کس کر پھر میدان میں اتریں گے۔ بس دھیان رہے کہ یہ وہی میدان ہے جو 2018ء کے الیکشن میں بلے بازوں نے بڑی مہارت سے جیتا تھا۔ شیر کی وحشی دھاڑ اور تیروں کی برسات بھی ان بلے بازوں کو روک نہ سکی۔ اب کوئی لاکھ ھیاں ھواں کہے یا کرے وہ کس نے سننی۔ فی الحال تو دور دور تک سوائے مولانا فضل الرحمن کے اور کسی کی طرف سے حکومت کے خلاف میدان میں آنے کی بات سننے میں نہیں آ رہی۔ سب اپنی اپنی جان بچانے کے چکروں میں ہیں۔ ایسے میں نجانے پرویز رشید کو کیا سوجھی ہے کہ وہ 2020 ء میں الیکشن ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بڑوں نے کہا ہے کہ دن کے خواب جھوٹے ہوتے ہیں فی الحال تو مولانا فضل الرحمن بھی لاک ڈائون پر باقی سیاسی جماعتوں کو منانے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان جماعتوں میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی بھی شامل ہیں۔ مگر ان کی طرف سے زبانی کلامی اقرار نما انکار ہی سامنے آ رہا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں بھی ذرا بچ کے سنبھل کے اِدھر اُدھر دیکھ کر چلنے کی سوچ رہی ہیں تو ایسے میں 2020ء تو ’’ہنوز دہلی دور است‘‘ والا معاملہ لگتا ہے۔
٭٭٭٭
ممبئی میں کشمیری گلوکار عادل گریزی کو مکان سے بے دخل کر دیا گیا
امید ہے اسکے بعد ان کشمیریوں کی بھی عقل ٹھکانے آ گئی ہو گی جو ہنوز بھارت اور ہندوئوں سے پیار کی امید رکھتے ہیں۔ عادل گریزی جسے ہمارا میڈیا غلطی سے گردیزی لکھتا ہے۔ دو تین سالوں میں ممبئی کی گیت سنگیت کی دنیا پر آیا اور چھا گیا۔ سانولہ سلونا یہ دیہی نوجوان مقبوضہ کشمیر کی جنت نظیر وادی گُریز سے تعلق رکھتا ہے۔ اسکی آواز اور خوبصورتی نے بہت جلد ممبئی میں جگہ بنا لی تھی۔ اس کا پہلا اردو نغمہ پیار کشمیر دا اورپھر رفتہ رفتہ بعد میں کشمیری نغمہ ڈپٹہ نیو نم اور مہاراز شوبھان جیسے نغمات نے اسے کشمیریوں کا مقبول نوجوان گلوکار بنا دیا جو بھارت کی فلمی دنیا ممبئی میں اپنی شناخت بنا بیٹھا۔ بس یہی بات بھلا انتہا پسند کب برداشت کرتے۔ بالآخر موجودہ حالات میں جب کشمیریوں پر بھارت کی زمین تنگ ہو رہی ہے عادل گُریزی کو بھی بھارت سے پیار کا مزہ ویسے ہی چکھنا پڑ رہا ہے جیسے نیشنل کانفرنس والوں یا پی ڈی پی والوں کو ۔ خود ہمارے بھارتی اور پاکستانی گانے بجانے والے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ اب کیا کہیں گے اس بارے میں کہ عادل گُریزی جیسے نوجوان کا سامان اسکے کمرہ سے یہ کہہ کر باہر پھینکا گیا کہ وہ کشمیری ہے اور اسے کوئی کرایہ کا کمرہ نہیں مل سکتا تو اس کا صاف مطلب ہے اب گُریزی جیسے لاکھوں کشمیریوں کو تہیہ کرنا ہو گا کہ وہ بھی کشمیر میں زبردستی داخل بھارتیوں کا سارا سامان اسی طرح کشمیر سے باہر نکال پھینکیں گے۔ جیسے عادل گُریزی کا پھینکا گیا۔
٭٭٭٭٭
کلثوم نواز کی پہلی برسی منائی گئی
پاکستان کی بے رحم سیاسی دنیا میں کلثوم نواز جیسی سیدھی سادی گھریلو خاتون کا حالات کے جبر میں سامنے آنا اور نازو نعم میں پلی ہوئی خاتون کی بجائے آئرن لیڈی بن کر دکھانا واقعی کمال کی بات ہے۔ ان سے قبل بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو میدان سیاست میں اپنی دھاک بٹھا چکی تھیں۔ مگر یہ دونوں ایک سیاسی خاندان سے وابستہ تھیں۔ انکے پیچھے بھٹو جیسی طلسماتی شخصیت کا اثر تھا۔ پیپلز پارٹی ایک عوامی جماعت تھی اور وہ سڑکوں کی سیاست سے آشنا تھیں۔ اس کے برعکس کلثوم نواز ایک متمول گھر کی لڑکی اور متمول خاندان کی بہو تھی۔ انہوں نے کبھی سیاست کے خارزار میں قدم رکھنے کا سوچا بھی نہ ہو گا۔ مگر حالات و واقعات کسی کو بھی کسی جگہ پہنچا دیتے ہیں۔ سو یہی کچھ کلثوم نواز کے ساتھ بھی ہوا۔ جب ان کے مجازی خدا وزیر اعظم نواز شریف کا تختہ آسمان پر اڑنے والے جہاز میں بیٹھے وردی والے جنرل نے الٹ دیا اور زمین پر بیٹھے محل نشین چشم زدن میں بوریا نشین ہو گئے۔ اس ابتلا کے دور میں یکدم مصلحت اندیشی کو ترک کر کے بیگم کلثوم نواز سیاسی میدان میں وارد ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے مسلم لیگ جیسی ٹھنڈے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کر سیاست کرنے والی جماعت کو انہوں نے جنگجویانہ انداز دے ڈالا، پھر پہلی مرتبہ سڑکوں پر مسلم لیگی کارکنوں کو چشم فلک نے ڈنڈے والوں سے الجھتے د یکھا۔ یوں ایک گھریلو خاتون نے سیاسی رہنما کی جگہ سنبھال لی۔ بعدازاں جب میاں نواز شریف واپس آئے انہوں نے سیاسی میدان سنبھالا تو بیگم کلثوم نواز اسی خاموشی سے دوبارہ گھر کی طرف لوٹ آئیں۔ ورنہ بقول شاعر ’’چھٹتی نہیں ہے منہ کو یہ کافر لگی ہوئی‘‘ سیاست کا چسکا آسانی سے نہیں جاتا مگر 3 مرتبہ خاتون اول کا اعزاز حاصل کرنے والی کلثوم نے یہ کر کے دکھایا۔ ایک سال قبل وہ کینسر کے عارضہ سے لڑتے لڑتے دنیا سے رخصت ہوئیں تو دشمنوں کو بھی شرمندہ کر گئیں جنہوں نے ان کی سنگین بیماری پر بھی انہیں الزامات کی زد میں لیے رکھا۔ پاکستانی سیاست میں ان کا مختصر مگر پرجوش سیاسی سفر عرصہ دراز تک یاد رکھا جائے گا۔
٭٭٭٭٭
10 روپے چوری کے الزام میں مسجد انتظامیہ نے بچے کو درخت سے باندھ دیا
بچوں سے زیادتی، بچوں کا اغوا، بچوں پر تشدد ، ان سے بڑھ کر بچوں کا قتل ہمارے معاشرے میں اسقدر عام ہو چکا ہے کہ اب بڑے بڑے صاحب دل بھی آئے روز ایسی بے شمار خبریں پڑھنے کے بعد صرف آہ بھر کر رہ جاتے ہیں۔ مسجد، مدرسہ، سکول، گھر ، فیکٹری، آفس ، دکان ، ورکشاپ کہاں کہاں ان معصوموں کی آواز نہیں دبائی جاتی۔ ان پھولوں اور کلیوں کو بے دردی سے پامال نہیں کیا جاتا۔ کچلا نہیں جاتا۔ اس کے باوجود ہم پرامن اسلامی معاشرے میں رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگر صرف قانون پر ہی عملدرآمد ہو جائے تو بچوں کیخلاف جرائم میں خاطر خواہ کمی لائی جا سکتی ہے۔ مگر عام طور پر ان کیسوں میں مجرموں کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں وہ بااثر ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے پھر یہ بااثر اور لمبے ہاتھ والے قانون کی موم والی ناک باسانی جہاں چاہیں موڑ لیتے ہیں۔ اب گزشتہ روز ملتان میں صرف 10 روپے چوری کے الزام میں مسجد انتظامیہ نے اس کم سن بچے کو مار پیٹ کر کیڑوں سے بھرے درخت کے ساتھ باندھا کیا ان کے دلوں میں رحم نہیں آیا کہ بچے کو کیڑے کاٹیں گے۔ وہ درد سے بلکتا رہا اور زخمی ہو گیا۔ اب کیا ہو گا۔ مقدمہ درج ہو گا تاریخ پر تاریخ پڑے گی۔ صاحب تقدس ملزمان قانون کی ڈھیل کے مزے لیتے رہیں گے۔ ایسے ملزمان کو تو بروقت قرار واقعی سزا دینی چاہئے جو بچوں پر ترس نہیں کھاتے۔ ویسے بھی ’’جو چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں۔‘‘ والی بات تو سب کو یاد ہو گی۔ کیا موجودہ حکومت اس بچے کو انصاف دلوا کر زیادتی و ظلم کا یہ راستہ بند کرنا پسند کرے گا۔
٭٭٭٭٭