خودکشی کے اسباب اور محرکات پر غور وقت کی اہم ضرورت ہے‘ ڈاکٹر رضا الرحمان
کراچی (نیوزرپورٹر) ہر سال دنیا بھر میں لگ بھگ آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرکے اپنی زندگی داؤ پر لگادیتے ہیں‘ یعنی ہر چالیس سیکنڈ میں ایک زندگی خودکشی کی بھینٹ چڑھائی جاتی ہے‘یہ تناسب ایک لاکھ افرادکی آبادی میں گیارہ اعشاریہ چار بنتا ہے جبکہ پاکستان میں اس کی شرح نسبتاً کم ہے یعنی ایک لاکھ کی آبادی میں سے دو افراد خودکشی کے سبب موت کو گلے لگاتے ہیں۔ماہرین کے مطابق اس کی وجہ یہ نہیں کہ پاکستان میں خود کشی سے اموات کی شرح کم ہے بلکہ معاشرے میں بدنامی کے ڈر سے ایسی اموات کو ریکارڈ پر نہ لایا جانا ہے عام طور پر خودکشی سے اموات کو حادثاتی موت‘ آنر کلنگ یا دیگر اسباب سے جوڑ کر دوسرا رنگ دیدیا جاتا ہے لیکن اب وقت آگیا ہے کہ اس مسئلے کو سنگین سماجی مسئلے کے طور پر لیا جائے‘ ان خیالات کا اظہارڈاؤ یونیورسٹی کے شعبہ نفسیات کے چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر رضا الرحمان نے خودکشی کی روک تھام کے عالمی دن کے موقع پر کارروانِ حیات کے تحت منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہاکہ اقوام متحدہ کے 25ممبر ممالک میں بشمول پاکستان خود کشی ایک جرم تصور کیا جاتا ہے جبکہ بیس ممالک ایسے ہیں جہاں شرعی قوانین کے تحت خود کشی جیسے اقدام پر جیل جانے کی سزا بھی دی جاتی ہے۔ ممتاز ماہر نفسیات پروفیسر ڈاکٹر ظفر حیدر نے اپنے لیکچر میں خودکشی کے محرکات پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ ڈپریشن اس کا بنیادی سبب ہے‘اس کی شرح معاشی طور پر مستحکم ملکوں میں زیادہ ہے جہاں خودکشی کے 50 فیصد واقعات میں ڈپریشن بنیادی سبب ہوتا ہے۔