جھرنی
واقعات تیزی سے رونماء ہو رہے ہیں اور ابھی ان میں سے کسی ایک کو موضوع تحریربنانے کے بارے میں سوچ یک سو ہوتی ہے تو ساتھ ہی کچھ نیاء ہو جاتا ہے ،ہر نئی بات پرانی سے ذیادہ اہم لگنے لگتی ہے،ذہن پراگندہ ہو جاتا ہے ،چند روز ہوئے ایک سیاسی جماعت کے دفتر میں چند سیاسی دانش مند جمع تھے، ان میںقدر مشترک یہ تھی کہ وہ ایک دوسرے سے عدم اتفاق پر مکمل اتفاق رکھتے تھے ،کچھ آج کے فاتح اور کچھ ماضی قریب میں عقل کل کی منزل پرفائز سمجھے جانے والے، بحث تھی آج کے واقعات ،ان کے مخاطب بس دو تھے ان میں ایک یہ خاک سار اور دوسرا سیاسی جماعت کا سادہ لوح کارکن تھا،اپنی درگت کا ذکر کسی اور موقع پر چھوڑتے ہوئے سیاسی کارکن کا حال بیان کرنا ذیادہ دلچسپ ہے ، کافی دیر بحث کی سماعت کے بعد اس کے اوسان مختل ہوئے تو معصومی سے کہنے لگا کہ سمجھ نہیں آتی کہ جب دائیں کی سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ یہ درست کہہ رہے ہیں اور جب بائیں کی سنتا ہوں تو لگتا ہے کہ ساراحق اور سچ تو اس جانب ہے ،تو سچ ہے کہاں؟اسے کیا بتاتاکہ سچ یہ ہے کہ یہاں ’’جھرنی‘‘ دینے والے بہت ہیں،بھٹوٹ بھی ہیں، ان کی بھی کمی نہیں ہے جو اعتبار کرکے فریب کھاتے ہیںاور قبر میں اتا ردئے جاتے ہیں،ان کا نشان تک نہیں رہتا ہے ،جھرنی اور بھٹوٹ، ٹھگوں کی اصطلاحات ہیں،جھرنی اس اشارے کو کہتے ہیں جو چیف ٹھگ شکار کو موت کے گھاٹ اتارنے کے لئے کرتا ہے اور بھٹوٹ اس ٹھگ کو کہتے ہیں جو شکار کا قتل کر دیتا ہے،جھرنی اور بھٹوٹ کے حامل معاشروں میںکام کر ناآسان نہیں ہوتا ہے ،پانی کے معاملہ کو ہی لیں،قحط اور خشک سالی کے خطرے کو آنے دیا ،اس کے حل کے لئے کچھ نہیں کیا،کان یہ سن سن کر پک گئے کہ پانی ذخیرہ کرنا ،سستی بجلی،گیس کی وافر دستیابی بڑی ترجیحات ہیں ،آج یہی سب سے بڑے ایشوز ہیں،معلوم نہیں پیسہ کہاںجاتا ہے،وہ ڈیم کہاں ہیں جن کا ذکر ہر سال ملک کے پی ایس ڈی پی میں آتا ہے ،ان کے لئے رقم بھی مختص ہو تی ہے ،ایک تحقیقاتی کمیٹی بنا کر اگر گذشتہ دس سال کے پی ایس ڈی پی کا فرانزک آڈٹ کرا لیا جائے تو بہت سے ہولناک انکشافات ہوں گے ،اس سے ائندہ کے لئے بھی شفافیت آجائے گی ،احتساب کرنا ہے تو سب سے پہلے اس ملک کی منصوبہ بندی کرنے والوںسے شروع کیا جائے ،ساری خرابی ادھرہے ،یہاں ہی سے مالی کرپشن کی جھرنی دی جاتی ہے ، اور بھٹوٹ ٹوٹ پڑتے ہیں ، سارا منصوبہ ڈوب جاتا ہے ،شوکت عزیز کے دور سے نیلم جہلم سرچارج وصول ہو رہا ہے ،پتہ نہیں کیا ہوا، منصوبہ مکمل نہ ہوا اور 500ارب خرچ بھی ہو گئے ،پی ایم آفس میں میڈیا ڈویلپمینٹ کے نام پر اتنا بڑاا منصوبہ نہیںچلا جتنا پلاننگ میںہے ،اب بچت کو زمانہ آیا ہے معلوم نہیں کہ اس بارے کیا پالیسی ہے،وزیر آعظم زرا اس کا بھی پتہ کر لیں،منصوبہ سازی کی خرابی سے بڑے گل کھلتے ہیں،وہ گذشتہ روز معاشی مشاورتی کونسل کا اجلاس ہوا ،اس میں ایک ماہر معیشت شرکاء پر برس پڑے اور کہنے لگے کہ یہاں جو میرے ہمراہ بیٹھے ہیں ان میں سے آدھے تو سابق حکومت کی معاشی پالیسیوں کے ذبردست حامی ہوا کرتے تھے، سارا کیا دھرا ان کے مشوروں کا ہے ،ان کی اس بات پر کوئی جواب نہ آیا،ہمیں سیاست سے کیا لینا دینا بس یہ عرض کئے دیتے ہیں کہ اگر ملک کی معاشی منصوبہ بندی درست کرنا ہے تو منصوبہ بندی کمشن کا سربراہ بیدار مغز لایا جائے ،ایسا سنا جا رہا ہے کہ ایک مشیر اور کچھ وزیر اس پوزیشن پر اپنا بندہ لانے کے لئے کوشاں ہیں ،وزیر آ عظم کو اس منصب کے لئے کسی کی نہیں سننی چاہئے،وہ خود چھان پھٹک کریں ،انٹیلی جنس سے مدد لیں،اور خود کسی شخصیت کا انتخاب کر لیں ،ان کا آدھا سفر آسان ہو جائے گا،پانی دینا ہے یا گیس ،علاج دینا ہے یا روزگار چند ’’غریب نواز‘‘ منصوبے فرق ڈال سکتے ہیں،اوپر کے اشارے سے رات سمری بننا اور صبح اس کی منظوری سے ہی قوم کی دولت ضائع ہوتی ہے ،بس اس کی روک تھام کر لی جائے تو وسائل ملنا شروع ہو جائیں گے ،اسی طرح ایف بی آر،اور دوسرے اداروں میں ’’جھرنی‘‘ دینے والوں سے نبٹنا ہو گا،ڈیم کی تعمیر کے لئے سرکاری اپیل آگئی ہے ،اس میں ڈالر جتنے بھی آئیں اس سے ملک کے زرمبادلہ میں اضافہ ہو گا ،اور یہ قرض بھی نہیں ہے ،اس کی علامتی اہمیت ذیادہ ہے اور اس طرح بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ملک کی ترقی میں ہم رکاب کرنے کو کوشش کی گئی ہے ،اس میں مدد دینے کا سب سے انوکھا طریقہ شیخ رشید نے اختیار کیا کہ ریلوے کے ٹکٹ پر دس روپے فنڈ کے لئے رکھ دئے ،ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان ہی کی تحریک پر 35روپے کی ٹی وی فیس قوم کی گردن پرلادی گئی جو آج بھی بجلی بلز پر لی جاتی ہے ،اس طرح کے عمل سے احتراز کیاجاتا تو اچھا تھا،اس کے قانونی مضمرات بھی ہیں،خسارے کے حامل اس ادارے کو کسی نئے مسلے میںنہ ہی ڈالا جائے تو بہتر ہو گا،ایک نہیں دس ڈیم بننے چاہئیں،اس کی درست راہ ریاست کے مالی وسائل کو بڑھانا ہے ،اس کی ابتداء ملک کی منصوبہ بندی کو علم پر استوار کرنا ہے ،جب علم پر مبنی غریب نواز منصوبہ سازی ہو گی تو باقی جزو بھی بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے،جیسا کہ علامات ہیں کہ رواں مالی سال کا پہلا منی بجٹ آنے والا ہے ،اس میں نئے بوجھ ڈالنے کی تیاری کی جارہی ہے ،اس میں جو اصل کام کرنا چاہئے وہ یہ ہے کہ اسے پانی،توانائی اور برآمدات کی ترجحات سے ہم آہنگ کیا جائے ،ایف بی آر کے ریونیو ہدف کو عقلی بنایا جائے،جب بڑے ہدف دے کر توقعات بڑھا لی جاتی ہیں تو وہی ہوتا ہے جو گذشتہ پانچ سال میں ہوتا آیا ہے ،سالانہ ریونیو ہدف حاصل نہیں ہوتا اور اس سے صوبے بھی پریشان ہوتے ہیں،منصوبے روکنے پڑتے ہیں اور مسائل میں اضافہ ہو جاتا ہے ،اس وقت جو قانونی چارہ جوئی میں ریونیو پھنسا ہوا ہے اس کی کوئی سکیم ساتھ آجائے تو کم از کم ری فنڈ جتنی رقم آ سکتی ہے،اس کا کوئی نہ کوئی حل ہو جانا چاہئے۔یہ کہنے کی ضرورت نہیںہے کہ اس ادارے میں جھرنی دینے والوںکا صفایا سب سے ذیادہ ضروری ہے۔