محرم الحرام : درسگاہ آزادی و حریت دین مصطفوی کے تحفظ کی جہد مسلسل
آغا سید حامد علی شاہ موسوی
اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام کے مہینے سے ہوتا ہے اور اختتام ذوالحجہ پر جبکہ قربانیوں سے لبریز داستان حرم کی ابتدا ذوالحجہ میں ہورہی ہے اورکمال ہجری سال کے آغاز محرم میں پہنچ رہا ہے ۔مسلمان پہلے مہینے سے لیکر آخری مہینے تک ان قربانی کی یادگاروں کو آج بھی زندہ رکھے ہوئے ہیں اور ان قربانیوں کی یاد زندہ ہونے کے طفیل اسلام کے گرد جذبوں کا ایک ایسا حصار قائم ہے جسے شیطانی قوتیں صدیوں سے جاری اپنے حملوں کے باوجود نہیں گراسکیں اور کبھی گرابھی نہیں سکتیں ۔قربانی ہی وہ جذبہ اور عمل ہے جو نہ صرف حج کے مناسک بلکہ حرمین الشریفین اور نظام الہی کی حفاظت کا ضامن ہے ۔
اسماعیل کی قربانی کی یاد رکھنے کا انتظام اللہ نے خود فرمایااور قربانی کی سنت کو حج کے دوران واجب عمل قرار دے دیا گیااورامام حسین ؓ کی وہ قربانی جسے مفسرین نے قربانی ابراہیم و اسماعیل کی تفسیرقرار دیا ہے کی یاد بھی نظام الہی کے تحت باقی اور جاوداں ہے کہ اللہ نے قرآن میں ارشاد فرمایا،
(تر جمہ )ہم نے (اسماعیل ) کا فدیہ ذبح عظیم کو قرار دیا۔امام حسین ؑ اسماعیل کے فدیہ کی صورت ذبح عظیم قرار پائے ۔
نواسہ رسول امام حسین ؓکی شہادت کے بعد 1379محرم گزر چکے ہیں۔ ہر محرم کے قریب آتے ہی ایسے لگتا ہے جیسے نبی کے لاڈلے نے آج ہی اسلام کے تحفظ کیلئے رخت سفر باندھا ہے فرزند رسول کی پردرد داستان سن کرآنسو ہیں کہ رکتے ہی نہیں ہر صاحب درد رسول کے گھرانے کی قربانی کا ذکر سن کر ایک ولولہ ، ایک جذبہ ، ایک قوت حاصل کرتا ہے۔ شہدائے کربلا کے خون کی لافانی تاثیر ہی ہے کہ جتنے آنسو آج تک اس واقعے پر بہائے گئے، اگر ان کو جمع کیا جائے تو آنسو¿وں کا سمندر وجود میں آ جائے گا۔حسین ؑ کی یاد ایک المیہ داستان نہیں بیمار اقوام کیلئے نسخہ اکسیر ہے ۔
بقولِ مولانا ابوالکلام آزاد ”جس واقعہ نے اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے، وہ ان (امام حسینؓ ) کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے۔ بغیر کسی مبالغہ کے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پر نسلِ انسانی کے اس قدر آنسو نہیں بہے ہیں ۔امام حسین ؓکے جسم خونچکاں سے دشتِ کربلا میں جس قدر خون بہا تھا، اس کے ایک ایک قطرہ کے بدلے دنیا اشک ہائے ماتم و الم کا ایک ایک سیلاب بہا چکی ہے۔“ اتنا ہی نہیں جتنا حسین پر آنسو بہے اتنا ہی حسین پر لکھا گیا جس قدر علماء و فضلا شعراءاور اہل قلم حضرات نے کربلا کی یاد میں تاریخ کے صفحات پر روشنائی بکھیری ہے، وہ روشنائی ان آ آنسووں کے سمندر سے کسی قدر بھی کم نہیں ہے۔حسین ؓ کی شہادت پر جتنا لکھا گیا اور جو پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ایک مکمل درس گاہ کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔حسین عزم و عمل کا استعارہ بن چکا ہے ۔بقول مولانا ظفر علی خان
کرتی رہے گی پیش شہادت حسین ؓکی آزادی حیات کو یہ سرمدی اصول
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
ہر محقق مفکر مفسر اور دانشور نے امام عالی مقام کی عظمت کو سلام پیش کیا ہے آپ کے حق پر ہونے تائید کی ہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح نے امام حسین کو سلام پیش کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ حسین ؓنے شہادت قبول کرلی پیاس برداشت کی لیکن ظالموں کے سامنے سرنہ جھکا یا۔جرمن مستشرق (Brockelmann, Carl) کا کہنا ہے: سرزمین کربلا کا تذکرہ،جسے فرزند پیغمبر کے خون سے رنگین کیا گیا ایک بے حس شخص کے اندر بھی ولولہ پیدا کرنے،مردہ ضمیروں کو جھنجوڑنے،اس کے بعد ہر قسم کی مشکلات اور خطرات کو مول لینے اور جان کی بازی لگانے کے لیے آمادہ کرنے کے لیے کافی ہے۔
برطانوی فلاسفر اور مورخ جوزف آرنلڈ تائن بی، کا کہنا ہے: رسول کے نواسے کو مظلومانہ شہید کیا گیا۔مہاتما گاندھی کا کہنا ہے: میں نے کتاب کربلا کے مختلف صفحات پر غور کیا تو مجھ پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ اگرہندوستان کو ایک فاتح ملک بنانا ہے تو ہمیں امام حسین ؓ کو اپنے لیے نمونہ عمل قرار دینا ہوگا۔
فرانس سے تعلق رکھنے والے انسائیکلو پیڈیا کے مولف کا کہنا ہے امام کی مظلومیت پر مسلمانوں کی سب سے بڑی دلےل آپ کا اپنے دودھ پیتے بچوں کو قربان کرنا ہے، تاریخ میں ایسی مثال کہیں نہیں ملتی کہ کوئی شخص دودھ پیتے بچے کو پانی پلانے لایاہو اور سرکش قوم نے اسے پانی کی جگہ تیر سے سیراب کیا ہو، دشمن کے اس کام نے امام کی مظلومیت کو ثابت کیا، آپ اور آپ کی اہل بےت کی عظیم قربانی نے دین محمدی میں ایک نئی روح پھونک دی۔
مشہور برطانوی مستشرق براو¿ن کا کہنا ہے:کیا کسی ایسے دل کا پانا ممکن ہے کہ جس کے سامنے واقعہ کربلا کا تذکرہ ہو لیکن اس کے باوجود وہ دل غم سے نڈھال نہ ہو، اس اسلامی جنگ نے جو روح کو پاکیزگی عطا کی ہے اس سے غیر مسلم بھی انکار نہیں کرسکتے۔ امریکی مورخ واشنگٹن قیام امام حسےن کے حوالے سے رقمطراز ہیں: امام حسےن ؓ ،یزید کے سامنے سرتسلیم خم ہوکر اپنے آپ کو نجات دلاسکتے تھے، لیکن اسلام کے پیشوا ہونے کے ناطے یہ ذمہ داری آپ کو اجازت نہیں دیتی تھی کہ آپ یزید کو خلیفے کے طور پر قبول کریں۔ آپ نے اسلام کو بنی امیہ کے چنگل سے نجات دلانے کے لیے ہر قسم کی سختیوں اور مشکلات کو سینے سے لگالیا۔ عرب کی خاردار ریتلی صحرامیں تیز دھوپ کے سائے میں حسےن ؓ کی روح لازوال ہوگئی۔
جرمن دانشور ماربن (Monsieur Marbin) کا کہنا ہے: حسینؓ وہ منفرد شخصیت ہیں جنہوں نے 14 قرن پہلے ظالم و جابر حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا۔ وہ مورد جسے ہم نادیدہ قرار نہیں دے سکتے یہ ہے کہ حسینؓ وہ سب سے پہلی شخصیت ہیں کہ جن کی مانند آج تک کوئی ایسی مو¿ثر ترین سیاست انجام نہ دے سکے۔ ہم دعوے کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ تاریخ بشریت میں کوئی بھی آپ جیسی فداکاری کا نہ آج تک مظاہرہ کرسکا ہے اور نہ کبھی کرسکے گا۔
سکاٹس فلاسفرکارلائل تھامس (Thomas Carlyle) کا کہنا ہے: سانحہ کربلا سے جو بہترین درس لے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ حسین ؓ اور آپ کے اصحاب خدا پر مضبوط ایمان رکھتے تھے،آپ لوگوں نے اپنے عمل سے اس حقیقت کو ثابت کردیا کہ حق و باطل کے معرکے میں افراد کی تعداد اہمیت کے حامل نہیں، حسین ؑنے اپنے کم اصحاب کے ذریعے جو کامیابی حاصل کی وہ میرے لیے حیرت کا باعث ہے۔
مشہور تاریخ دان (Gibbon) کا کہنا ہے: آنے والی صدیوں میں مختلف ممالک میں واقعہ کربلا کی منظر کشی اورحسین ؓکی شہادت کی وضاحت سنگ دل ترین قارئین کے دلوں کو موم بنانے کا سبب ب بنے گی۔(Frederick James) کا کہنا ہے: امام حسینؓ اور ہر شہید کا بشریت کے لیے پیغام یہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ باقی رہنے والی عدالت، رحم وکرم، محبت و سخاوت جیسے ناقابل تغییر اصول موجود ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ پیغام بھی دیتے ہیں کہ جب بھی کوئی ان ابدی اصولوں کے لیے مقاومت دکھائے اور استقامت کا مظاہرہ کرے تب ایسے اصول ہمیشہ دنیا میں باقی رہیں گے اور ان میں پائیداری آجائے گی” آج بھی دنیا کی موجودہ یزیدیت کو سرنگون کرنے کے لیے کردار حسینی کے حامل افراد کی ضرورت ہے۔ مسلمانوں کی تمام مشکلات کا بنیادی سبب پیغام حسینی سے دوری اختیار کرکے یزید صفت استعماری طاقتوں کے سائے میں پناہ لینا ہے۔حسینی کردار کے حامل افراد اگر پیدا ہوجائیں تو معاشرے میں موجود تمام یزیدی افکار کو سرنگو ں کرکے حسینی افکار کو زندہ کیا جاسکتا ہے۔
ہر مفکر دانشور حسینی شہادت کے فیوض کے سمندر میں غرق نظر آتا ہے ۔حسینؓ کا ذکر شہادت آسمانی کتابوں میں بھی موجودتھا اور انبیاءکے تذکروں میں بھی ۔نبی کریم نے ام المومنین حضرت ام سلمی کو کربلا کی مٹی دے کر شہادت حسین ؓ کی خبر سنائی تھی تو جبرائیل نے قربانی اسماعیل کے وقت حضرت ابراہیم کے سامنے امام ھسین ؑ کی شہادت کا تذکرہ کیا تھا۔یہ ذکر انسانی طاقت و صلاحیت کوتوانائی اور طاقت بخشتا ہے ، دلوں کو سوز حریت بخشتا ہے اور کشمیر ہو یا فلسطین وہاں مائیں ہنس ہنس کر اپنے بیٹوں کو شہادت کے میدانوں میں روانہ کرتی ہیں اس کے پیچھے جو جذبہ کر فرما ہے وہ کربلا ہے ۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ذکر شہادت ؓامت مسلمہ کیلئے ایک نعمت اور آب حیات کی حیثیت رکھتا ہے اور جسے ہمیشہ باقی رکھا گیا ۔ جب جب محرم کا چاند نکلے گا آپ کا ذکر مزید تروتازہ ہو جائے گا شہادت کی داستان میں مزید تاثیر پیدا ہوجا ئے گی ظالموں کے سامنے حرف انکار بلند کرنے کی جرات میں مزید اضافہ ہوگا، اسلام پر مر مٹنے کا جذبہ فداکاری مزید جوان ہوتا رہے گا۔۔۔۔