واپڈا کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل(ر) مزمل حسین نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں کہا کہ بھاشا ڈیم پاکستانی کنسلٹنٹ کمپنیوں کی زیر نگرانی تعمیر کیا جائے گا۔ ان کے اس بیان نے آبی ماہرین کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ بھاشا ڈیم دنیا کا سب سے اونچا کنکریٹ ڈیم ہے۔ اس نوعیت کے منفردکنکریٹ ڈیم کی تعمیر کے لیے مہارت اور استعداد کسی پاکستانی کمپنی اور ریاستی ادارے کے پاس موجود نہیں ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق بھاشا ڈیم کی تعمیر کی فنی نگرانی کے لیے ملکی اور غیر ملکی بہترین کمپنیوں کے ماہرین پر مشتمل بین الاقوامی گروپ تشکیل دیا جانا چاہیئے جو مشترکہ طور پر بھاشا ڈیم کی تعمیر کی نگرانی کرے اور کسی قسم کے رسک کا احتمال باقی نہ رہے۔ اب جبکہ بھاشا ڈیم کی تعمیر کا آغاز ہونا ہے اس مرحلے پر واپڈا چیئرمین کا یہ بیان کہ بھاشا ڈیم کی تعمیر ملکی کمپنیوں کی نگرانی میں کی جائے گی حیران کن اور تشویشناک ہے۔ آبی ماہرین کے مطابق اگر بھاشا ڈیم کی تعمیر مقامی کمپنیوں کی نگرانی میں کرانے کا رسک لیا گیا تو اس قدر تباہی ہوسکتی ہے جس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ خدانخواستہ تکنیکی خامی کی بناء پر پاکستان کا پورا آبی نظام ہی تباہ ہوسکتا ہے۔ واپڈا کے چیئرمین مہم جوئی سے گریز کریں اور دنیا کے سب سے اونچے کنکریٹ ڈیم کی تعمیر بہترین اور معیاری، ملکی و غیر ملکی ماہرین کی نگرانی میں کرائیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ملکی و غیر ملکی پاکستانیوں سے چندے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے اپنے مختصر پیغام میں چیف جسٹس پاکستان کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ جو قومی ذمے داری سیاسی قیادت نے پوری کرنی تھی اسے چیف جسٹس نے پورا کردکھایا ۔ ان کی اپیل پر پاکستانیوں نے دو ارب روپے بھاشا ڈیم فنڈ میں جمع کرائے ہیں۔ جب چیف جسٹس پاکستان نے حب الوطنی پر مبنی وژن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھاشا ڈیم کی تعمیر اور بیرونی قرضوں سے نجات کو اپنا مشن بنایا اس وقت بھی عوام دشمن حلقوں کی جانب سے اعتراضات اُٹھائے گئے مگر چیف جسٹس پاکستان اپنی زندگی کے مقدس مشن پر ثابت قدم رہے اور اب انہوں نے خوش آئند اعلان کیا ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بھاشا ڈیم کی تعمیر تک اپنا مقدس مشن جاری رکھیں گے۔ وزیراعظم پاکستان نے چیف جسٹس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بھاشا ڈیم کے لیے عزم اور تعاون کا اظہار کیا ہے تو بعض حلقوں نے ’’تنقید برائے تنقید‘‘ کے اُصول پر عمل کرتے ہوئے فنڈریزنگ کی مخالفت شروع کردی ہے حالاں کہ بھاشا ڈیم ایک متفقہ قومی منصوبہ ہے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ احسن اقبال نے فون پر راقم کو بتایا کہ بھاشا ڈیم پر قومی اتفاق رائے مسلم لیگ(ن) کے دور حکومت میں پیدا کیا گیا۔ ڈیم کے لیے زمین کی خریداری اور مقدمے بازیوں پر اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ چاروں صوبوں نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ترقیاتی فنڈ میں سے حصہ ڈالنے کے لیے رضا مندی ظاہر کی۔ بھاشا ڈیم کی تعمیر کے آغاز کے لیے اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی۔
پانی کے لیے عطیات جمع کرنے کا آغاز محسن انسانیت اور رحمتہ الالعالمین حضور اکرمﷺ نے کیا تھا جب مسلمان مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ پہنچے تو پانی کا واحد کنواں یہودی کی ملکیت تھا جسے خریدنے کے لیے آپﷺ نے مالی تعاون کی اپیل کی اور اس کے عوض جنت کی بشارت دی۔ حضرت عثمانؓ نے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا۔
صدقہ اور خیرات اسلام کے سنہری اُصول ہیں۔ ماشاء اللہ پاکستان کے شہری خیرات کے سلسلے میں دنیا میں سب سے آگے ہیں۔ انشاء اللہ وہ بھاشا ڈیم کے لیے دل کھول کر چندہ دیں گے اور اپنے بیٹوں، پوتوں اور نواسوں کو قحط سالی سے مرنے نہیں دیں گے۔ قیام پاکستان کے چھ ماہ بعد قومی خزانے میں سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں تھے۔ انگریز کی تربیت یافتہ بیوروکریسی نے قائداعظم کو مشورہ دیا کہ عوام کو نہ بتایا جائے کہ خزانہ خالی ہے۔ قائداعظم نے فرمایا پاکستان کے مالکوں سے سچ کیوں چھپاتے ہو۔ قائداعظم نے عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے ’’پاکستان فنڈ‘‘ قائم کیا۔ پاکستان کے اہل استطاعت شہریوں نے کروڑوں روپے جمع کرادئیے اور پاکستان کو تاریخ کے نازک موڑ پر بھیک نہیں مانگنی پڑی۔ پاکستان کے عوام نے سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی ’’قرض اُتارو اور ملک سنوارو‘‘ سکیم میں بھی اربوں روپے جمع کرائے جن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ پاکستان کے عظیم سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کرکے پاک فوج کی جانب سے بھاشا ڈیم فنڈ کے لیے ایک ارب 59لاکھ روپے کا چیک دیا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار اور وزیراعظم پاکستان عمران خان کی نیت اور دیانت قابل اعتبار ہے اس لیے توقع کی جاسکتی ہے کہ اورسیز پاکستانی بھاشا ڈیم کے لیے چندہ دے کر ایک نئی تاریخ رقم کریں گے اور قرضوں میں ڈوبے ہوئے پاکستان کو بھاشا ڈیم کے لیے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
بدقسمتی سے گزشتہ ستر سالوں کے دوران پاکستان کی قومی دولت کو بڑی بے دردی اور سنگدلی کے ساتھ لوٹا گیا ہے۔ اس لوٹ مار میں جرنیل، جج، بیوروکریٹ، سیاستدان، جاگیردار، تاجر اور مذہبی رہنما سب شامل ہیں۔ پاکستان کے قوانین اپنی ہیئت اور ساخت کے اعتبار سے کرپشن کو نہ صرف پروموٹ کرتے ہیں بلکہ کرپٹ عناصر کو تحفظ بھی فراہم کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ قومی لٹیرے ہمیشہ کڑے احتساب سے بچتے آئے ہیں۔ قوم نے احتساب کے نام پر عمران خان کو مینڈیٹ دیا ہے مگر ان کے راستے میں پہاڑ جیسی رکاوٹ کرپٹ ریاستی نظام اور بیوروکریسی ہے۔عمران خان کو اپنی زندگی کا سب سے بڑا اور کڑا امتحان درپیش ہے۔ پوری قوم ان کی جانب دیکھ رہی ہے کہ وہ اپنے کیے ہوئے وعدوں پر کس طرح عمل کرتے ہیں اور اپنے راستے میں حائل ہونے والی مشکلات سے کسطرح نبرد آزما ہوتے ہیں۔ پاکستان کے نئے منتخب صدر ڈاکٹر عارف علوی تحریک انصاف کے بانی رکن ہیں وہ تحریک انصاف سندھ کے صدر اور سیکریٹری جنرل کے منصبوں پر فائز رہے۔ وہ 2018ء کے انتخابات میں کراچی سندھ سے ایم این اے منتخب ہوئے۔ ڈاکٹر عارف علوی شاید تاریخ کے پہلے صدر پاکستان ہیں جو سیاسی جماعت کے بانی رکن ہیں۔ انہوں نے اپنے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ فعال اور متحرک صدر ثابت ہوں گے۔ نومنتخب صدر اگر کراچی پر خصوصی توجہ دے کر اسے ہر لحاظ سے ماڈل شہر بناسکیں تو یہ ان کی یادگار خدمت ہوگی۔
پاکستان کے ممتاز قانون دان ڈاکٹر بابر اعوان نے وزیراعظم کے پارلیمانی مشیر کے منصب سے مستعفی ہوکر شاندار روایت قائم کی ہے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سزائے موت کے خلاف سپریم کورٹ میں نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کے لیے بھی وزارت قانون سے استعفیٰ دے دیا تھا اور تحریک انصاف میں شمولیت کے وقت سینٹ کی نشست چھوڑ دی تھی۔ حالاں کہ ان کی دوسال مدت باقی تھی انہوں نے خداداد صلاحیتوں اور سرگرم کردار کی بدولت پہلے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید بعد میں آصف علی زرداری اور اب عمران خان کا اعتماد حاصل کرلیا ہے۔ نیب نے ان پر نندی پور پراجیکٹ میں تاخیر کا الزام لگا کر ان کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرینس دائر کیا ہے۔ نیب کے چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال نے بے مثال دلیری اور ایمانی جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے یکساں احتساب کی قابل رشک مثال قائم کی ہے۔ کاش وہ نیب کے مقدمات اور تحقیقات میں غیر معمولی تاخیر کا نوٹس بھی لیں اور جن ریٹائرڈ جنرلوں کے کرپشن سکینڈل نیب میں زیر تفتیش ہیں ان کے ریفرنس بھی احتساب عدالت میں دائر کریں تاکہ ان کا یکساں احتساب کا دعویٰ شک و شبہ سے بالاتر رہے۔ نیب کو اپنے اوقات کار اور سٹاف میں اضافہ کرنا چاہیئے تاکہ قومی لٹیرے جلد اپنے منطقی انجام کو پہنچ سکیں اور ان سے لوٹی ہوئی دولت واپس لے کر پاکستانی قوم کو بیرونی قرضوں کے عذاب سے نجات دلائی جاسکے۔اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان کے سیاسی منظر پر پہلی بار جو محب الوطن ، پرعزم اور عوام دوست ’’ٹرائیکا‘‘ نمودار ہوا ہے اس پر اگلے کالم میں تبصرہ کیا جائے گا۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024