عمران خان کی حکومت نے بھی گزشتہ حکومتوں کی طرح سمندر پار پاکستانیوں کو ملک کے اہم معاملے ڈیمز کی تعمیر کیلئے مالی حصہ ڈالنے کیلئے آواز دی ہے۔ مرحبا! سمندر پار پاکستانی ہمیشہ بغیر کوئی سوال کئے دل و جان سے ملک سے آنے والی آواز پر لبیک کہتے ہیں ۔ عمران خان کی آواز ملک کیلئے توانائی اور دریاؤں کے پانی کیلئے ڈیمز بنانے کی ہے، جس پر ایک مرتبہ پھر قوم اور خاص طور پر بیرون ملک پاکستانی حکومت کے ساتھ تمام سیاسی اختلاف بالائے طاق رکھ کر تیار ہوچلی ہے، مگر ملک کے اندر عوام پہلے ہی بے روزگاری، مہنگائی کا شکار ہیں جن کے پاس دولت ہے انکے پاس اولیت ترجیح اپنی دولت کو ملک سے باہر رکھنا ہے، اب رہ جاتے ہیں سمندر پار پاکستانی جنکی فلاح و بہبود کیلئے کسی بھی حکومت نے کوئی مربوط پروگرام نہیں دیا وطن عزیز کیلئے زرمبادلہ کما کر ملک کی معیشت کا سہارا بننے والوںکو جب بھی ملک عزیز نے آواز دی وہ اپنی جمع پونچی لیکر ملک کے قدموں میں نچھاور کر دیتے ہیں۔ پاکستان ڈیمز اور متوقع پانی کی کمی، بھارت کی ریشہ دوانیوں سے ہمارے دریائوں کا سوکھنا اس پر آوازآج سے نہیں گزشتہ تیس سال سے جب سے میں نے نوائے وقت سے وابستگی اختیارکی ہے بلند کی۔ مرحوم مجید نظامی نے اپنی ہر تقریر میں اس مسئلہ کو موضوع بنایا ہے اور سمینار منعقد کئے ہیں مگر ہماری سیاسی قیادت نے اسے صوبوںکا مسئلہ بنا کر متنازع بنا دیا ہے، یہاں تک کہ فوجی آمر جن سے کوئی سوال نہیں کر سکتا تھا وہ بھی اپنے اقتدار کو طول دینے کیلئے منافقت کا شکار ہوتے تھے اور آج بھی ملک سب سے اہم ضرورت کالا باغ ڈیم پر سیاسی کھینچا تانی کا شکار ہے، اگر بڑا نہیں تو چھوٹے ڈیمز پر سرگرمیاں شروع ہوئیں تھیں۔ ڈیمز بنانے کیلئے حکومت کی موجود ہ اپیل کو چندہ، فنڈز، عطیات کا نام نہ دیا جائے بلکہ یہ پاکستانی عوام کی ذمہ داری ہے۔ ایک روشن پاکستان کیلئے جہاں توانائی مسئلہ دریائوںکی خشکی کا مسئلہ ہے۔ سرسبز پاکستان جو ہم اپنی آنے والی نسل کو دینگے۔ آج اس پر کام شروع نہ ہوا تو آئندہ پچاس سال بھی نہ بنے گا، اس سلسلے میں آزادی کشمیر بھی نہائت ضروری ہے جس پر قبضہ دراصل بھارت کا کشمیر کی زمین پر ہی قبضہ نہیں بلکہ پاکستان کے لئے پانی کو روکنے کا در پردہ ایجنڈہ ہے جس پر وہ نہایت کامیابی سے کاربند ہے اور ہم گزشتہ ستر سالوں سے بھارت پاکستان دوستی کا راگ الاپ رہے ہیں۔ سمندر پار پاکستانی وطن عزیز کیلئے ہر آواز پر لبیک کہنے کو تیار ہیں ہر دفعہ کی طرح اس امید کے ساتھ کہ کوئی حکومت انکے معاملات پر توجہ دے گی، بے شمار معاملات ایسے ہوتے ہیں سفارت خانوں، قونصل خانوں میں جہاں سمندر پار پاکستانی انکی کارکردگی پر شاکی ہیں ۔ معمولی معاملات ان سفارت کاروں کی تھوڑی ایماندارانہ توجہ سے حل ہو سکتے ہیں مگر وزارت خارجہ سے تعینات لوگ ’’بابو‘‘ ہوتے ہیں انکا رویہ قیام پاکستان سے آج تک وہی ہے۔ اگر کوئی کمیونٹی کی فلاح و بہود پر توجہ دیتا ہے تو وہ ایک انفرادی فعل ہوتا اسکی طبیعت میں دوستی اور ملک کے لئے محبت ہوتی مگر یہ دیکھا گیا ہے کہ اکثریت جو عوام کے ٹیکسوں سے تنخواہیں لیکر محب وطنی کا کردار اداکرتی ہے وہ ان محب وطنوں کے مسائل کے حل میں دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتی جو بغیر تنخواہ لئے رضاکارانہ اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اسکے بہتر مستقبل کیلئے ہر قدم اور ہر قربانی کیلئے تیار رہتے ہیں۔ اگر کوئی شکایت کسی حکومت وقت تک پہنچ بھی جائے تو وہ پھر تحقیقات اسی نوکر شاہی سے کراتی ہے جس سے پاکستانی کو شکایت ہوتی ہے اور اپنی بہتر کارکردگی دکھاتے ہوئے نوکر شاہی وہ کہانی گھڑتی ہے کہ سائل قصور وار نظر آتا ہے۔ عمران خان سے پاکستان اور پاکستانیوں کو بڑی امیدیں وابستہ ہیں وہ اس روش کو بدلیں تاکہ سمندر پاکستانی اپنے آپ کو محفوظ ہاتھوں میں تصور کریں۔ اکثر قونصل خانوں اور سفارت خانوں میں بقیہ محکموں کے افسران مثلا اطلاعات، تجارت، ویلفیئر وغیرہ اپنے متعین کردہ کام آزادی سے نہیں کر سکتے چونکہ اس میں دخل اندازی وزارت خارجہ کے افسران کی ہوتی ہے۔ جس سے ان افسران کی یقیناً حوصلہ شکنی ہوتی ہوگی۔ عمران خان کی شخصیت وزیراعظم بننے سے قبل بھی ایک معروف شخصیت تھی، بیرون ملک انکی آواز کوئی اجنبی آواز نہیں بلکہ مانوس آواز ہے وہ دوست ممالک جاکر وہ کام کر سکتے ہیں جس کیلئے سمندر پار پاکستانی طویل عرصے منتظر ہیں کہ ہمارے پاسپورٹ کی عزت ہو، ہماری تجارت میں اضافہ ہو تاکہ ملک کو زرمبادلہ حاصل ہو، سمندر پاکستانیوں کی فلاح بہبود کیلئے جدہ میں پہلے تین قونصلرز کام کرتے تھے جبکہ اب غالبا صرف ایک محنتی شخص دن رات کام کرتاہے۔ سمندر پار پاکستانی اس بات پر بھی شکوہ کرنے میں حق بجانب ہیں کہ سمندر پار پاکستانیوںکو ملکی معشیت میں ریڑھ کی ہڈی کہنے والے، ڈیمز اور ضرورت کے وقت سمندر پار پاکستانیوں کو آواز دینے والی موجودہ حکومت نے بھی ابھی تک کسی سرگرم اور محنتی شخص کو وزیر سمندر پار پاکستانی متعین نہیں کیا، جو نوکر شاہی کی نہیں بلکہ پاکستانیوں کی سنے۔ سعودی عرب پاکستان کا بہترین قریب ترین دوست ہے یہاں تجارت میں ہم بہت پچھلی نشستوں پر ہیں کمرشل سیکشن میں کمرشل قونصل اپنے طور ذرائع کی کمی کے باوجود پاکستان اور سعودی عرب کی تجارت میں اہم کردار ادا کررہا ہے مگر قریب ترین دوست ہونے کے باوجود ہم اپنا شیئر لینے میں کامیاب نہیں ہیں اسکی وجہ انکے پاس ذرائع کی کمی رہی ہوگی، سعودی عرب سے تاجروں کے پاکستان دورہ کرنے کی ضرورت ہماری ہے سعودیوںکی نہیں مگر یہاں ہم ان سے چھ ہزار ویزہ کی فیس لیتے ہیں اسکی وجہ کوئی بھی ہو مگر ضرورت ہماری ہے، ہمیں دیکھنا ضروری ہے اور فیسوں کی کمی سے سعودی تاجر از خود بھی پاکستان مارکیٹ جائے گا تجارت کے نتیجے میں متوقع زرمبادلہ ویزہ فیس سے کہیں زیادہ ہوگا۔
پنجاب حکومت نے پیر کو چھٹی کا اعلان کر دیا
Mar 28, 2024 | 17:38