ادارے کسی بھی قوم کی فکری و معاشرتی تاریخ میں بڑی قدر و منزلت کے حامل ہوتے ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اقوام کے نشیب و فراز اداروں کے عروج و زوال کے ساتھ مشروط رہے ہیں۔ مغرب کی ترقی کا سنجیدہ تجزیہ واضح کرتاہے کہ مغربی معاشرہ کے استحکام و ترقی کا راز ادارہ سازی میں پوشیدہ ہے ۔ مغرب نے صدیوں کی ریاضت سے اپنے سیاسی، معاشرتی، فکری اور تعلیمی اداروں کو مضبوط بنایا ہے۔ تعلیم و تربیت کا اعلیٰ نظام سماجی حیات میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی ستمبر2002ء میں ایک ایسے ہی ادارے کی تشکیل کا آغاز ہوا جس کا اوّلین مقصد پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرکے روح عصر سے ہم آہنگ اور قومی تقاضوں کا حامل بنانا تھا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن نے گذشتہ ایک عشرے میں اپنے فعال، متحرک اور نتیجہ خیز کردار سے قومی تفاخر میں اضافہ کیا ہے۔
وطن عزیز کی معاشرتی، معاشی اور تکنیکی پیش رفت کیلئے یونیورسٹی نظام تعلیم کی اہمیت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک بالخصوص وفاقی نظام حکومت کی حامل ریاستوں میں اعلیٰ تعلیم کے نظام کی نگرانی اور انہیں مربوط رکھنے کیلئے بین الجامعاتی اداروں کے قیام کی مستحکم روایت کو اپنایا گیا، ترکی، بھارت، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، سری لنکا جیسے ممالک اس فہرست میں شامل ہیں۔کسی بھی ملک میں ڈگریاں عطا کرنے والے سرکاری و نجی اداروں کی تعداد میں اضافے، انکے تدریسی پروگرام کے تنوع، نصابی مضامین کی کثرت اور قومی تقاضوں کی حساسیت کی وجہ سے ایسے نگران اداروں کی ناگزیریت مسلمہ ہے جو اپنے عمل و کارکردگی سے قومی ضرورتوں میں باہمی مطابقت پیدا کریں اورخود وفاق کا نمائندہ بھی ہوں۔ پاکستان جیسے کثیر الجہتی سماج میں قومی مسائل کے ادارک اور انکے حل کیلئے تعلیم باالخصوص اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور مطابقت کیلئے ایسے ثمر آور ادارے کی ضرورت آغاز ہی سے محسوس کی جانے لگی تھی۔ تاہم مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی میں پنہاں تعلیمی نظام کی ابتری کے کردار کی بناء پر یہ احساس بڑھ گیا۔ سقوط ڈھاکہ کی کوکھ سے یہ احساس بھی پیدا ہوا کہ تعلیم ہی وہ بنیاد ہے جس پر صوبوں یا علاقوں کی ترقی کا انحصار ہے۔ 1973ء کے دستور سے پہلے تعلیم صوبائی معاملہ تھا تاہم دساتیر کی مشترکہ فہرست میں پالیسی و معیار کے حوالے سے موجود شقوں کی موجودگی بھی لازم سمجھی گئی۔ 1974ء میں جامعات کی کارکردگی کی نگرانی کیلئے یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا قانون منظور ہوا تو وفاق پاکستان نے اعلیٰ تعلیم کو مربوط کرنے، تحقیق و تدریس کو بہتر کرنے اور اداروں کی کارگزاری کی صلاحیتوں کو بڑھانے کیلئے پالیسی سازی کا اختیار حاصل کر لیا۔ تا ہم بیسویں صدی کے آخری عشرے میں اعلیٰ تعلیم کے اداروںکی کارکردگی کے حوالے سے بحث زور پکڑ گئی اور یو جی سی کے حوالے سے تنقید میں شدت آگئی تو اس ادارے، تنظیم کو صوبوں کے حوالے کرنے کی تجویز گردش کرنے لگی۔ اسی کے نتیجہ میں1992ء میں پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے حوالے عالمی بنک کی رپورٹ میں اس تنظیم کو مستحکم کرنے کی تجویز آئی اور برطانیہ کی یو جی سی کے سابق سربراہ نے یو جی سی کی ضرورت کو ناگزیر قرار دیتے ہوئے یہ بھی لکھ دیا کہ اگر یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا وجود نہ بھی ہوتا، پھر بھی اسے ایجاد کرنا پڑتا۔ ایسے ہی ماہرین کی تجاویز کے نتیجے میں 2002ء میں وزارت تعلیم کے زیر انتظام پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی ترقی کیلئے ماہرین کی کمیٹی قائم ہوئی جس نے پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر میں اعلیٰ تعلیم کے معیار و ثمرات کو بہتر بنانے کیلئے ایک مرکزی ادارے کی ضرورت کو کلیدی قرار دیا اور اس ادارے کو ’’ہائر ایجوکیشن کمیشن ‘‘ کے نام سے تجویز کیا۔ ماہرین کی سفارش کو منظور کرتے ہوئے حکومت پاکستان نے گیارہ ستمبر 2002ء کو آرڈی نینس جاری کیا جس کے تحت’’کمیشن برائے اعلیٰ تعلیم‘‘HECکا قیام عمل میں آ گیا اور یونیورسٹی گرانٹس کمیشن کا ایکٹ مجریہ 1974ء منسوخ قرار پایا۔
گذشتہ ڈیڑھ عشرے سے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے کمیشن نے جذبے، حوصلے، لگن سے تعلیم و تطہیر کا کام کیا جس کے نتیجے میں اعلیٰ تعلیم کے میدان میں ہماری کارکردگی ہر حوالے سے بہتر ہوئی اور اسے عالمی سطح پر خوب پذیرائی بھی ملی، اس ضمن میں ڈاکٹر عطاء الرحمن کی خدمات اور کاوشیں خصوصی خراج تحسین کی مستحق ہیں۔ اداروں کے زوال کا شکار قوم نے HECکی کارکردگی کو حوصلہ افزاء پایا۔ بلاشبہ اس سے سب کچھ عالمی معیار اور مقدارکا نہ ہو سکا تا ہم بہتری کاگراف ضرور بڑھنے لگا۔ ہمارے ہاں تحقیقی مطبوعات کی تعداد میں اضافہ کو دنیابھر میں دوسرا اہم ترین اضافہ قرار دیا گیا۔ نامساعد حالات کے باوجود پاکستان فی کس آبادی کے لحاظ سے ہندوستان سے زیادہ تحقیقی مقالے شائع کر رہا ہے۔ ہماری جامعات میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل اساتذہ کی تعداد میں قابل رشک اضافہ ہوا ہے۔ ملک بھر میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سکالرز کی انرولمنٹ میں خاطرخواہ اضافہ اعلیٰ تعلیم کیلئے خاص اہمیت کا حامل ہے۔ جامعات کو ملنے والی گرانٹس میں اضافہ نے تعلیمی و تدریسی ماحول کو بہت بہتر بنایا ہے۔ اعداد وشمار سند فراہم کرتے ہیں کہ گذشتہ عشرے میں اعلیٰ تعلیم کے شعبہ میں سرمایہ کاری نفع بخش ثابت ہوئی ہے۔ ان کامیابیوں پر ہر کسی کو مسرور ہونا چاہئے۔ ہائرایجوکیشن کمیشن نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود مثبت اور نتیجہ خیز اصلاحات متعارف کروائیں۔ انفراسٹرکچر کی بہتری کیلئے ہر ممکن کوشش کی اور اعلیٰ تعلیم کی بہتری کیلئے محققین کو ڈیجیٹل لائبریری تک رسائی، اساتذہ کی تربیت ، ممتاز عالمی اداروں کے ساتھ اشتراک اور وظائف کی میرٹ پر تقسیم کے کلچر نے پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کے شعبے میں کوئی انقلاب اگر پیدا نہیں بھی کیا تو اسکی سمت کا تعین ضرور کر دیا ہے۔ صرف ایک دہائی میں پچاس کے قریب نئی یونیورسٹیوں کا قیام کسی کارنامے سے کم نہیں۔ یونیورسٹی کی سطح پر زیر تعلیم طالب علموں کی تعداد میں قابل قدر اضافہ ہوا ہے ۔ڈیڑھ عشرے میں چھ ہزار سے زیادہ لوگ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ورنہ قبل ازیں 55 سالوں میں تین ہزار کے قریب سکالر پی ایچ ڈی تک رسائی حاصل کر سکے تھے۔ اس وقت بھی HEC سے منظور شدہ پونے دو سو تحقیقی جرائد شائع ہو رہے ہیں۔ ہر پی ایچ ڈی کے مقالے کیلئے بیرون ملک یونیورسٹی سے ایک بیرونی ممتحن لازمی قرار پایا ہے۔ہر سال نو ہزار سے زیادہ عالمی معیار کے تحقیقی مقالات کی اشاعت ہوئی ہے ۔ 90کے قریب جامعات میں QECکوالٹی انہانسمنٹ سیل کام کر رہے ہیں اورQAAیعنی کیفیتی تیقن کی ایجنسی بھی قائم کر دی گئی ہے۔ تعلیمی پسماندگی کا شکار علاقوں کیلئے خصوصی فنڈز جاری کیے گئے۔ تمام صوبوں کو یکساں مواقع فراہم کر کے قومی یکجہتی میں متحرک کردار ادا کیا گیا۔ انڈسٹری اکڈیمیا لنکجز اور انٹرپینیورشپ بزنس انکوبیشن سنٹرز جیسے تصورات کو متعارف کروایا گیا۔الغرض اس کمیشن نے گذشتہ پندرہ سال میں ادارے کے کردار کی بہتر مثال قائم کی ہے۔ تمام تر ترقی اور کارناموں کے باوجود یہ ادارہ چند سال شدید دبائو اور تنقید و مباحثے کا بھی شکار رہا اور تنزلی کے خطرات کا سایہ بھی اس پر رہا ، تاہم ڈاکٹر مختار احمد جیسی حوصلہ مند اور پاکیزگیٔ فکر و عمل کی حامل شخصیت کی قیادت نصیب ہونے کے بعد ایک بار پھر اسکی جلوہ افروزئیاں قومی اُفق پر جگمگانے لگی ہیں۔ علمی معیشت اور معلوماتی معاشرت میں برق رفتار تبدیلیوں سے جو قومی چیلنجز نمودار ہو رہے ہیں ڈاکٹر مختار احمد کی راہنمائی میں یہ ادارہ ان کا مقابلہ کرنے کی سعی میں شب و روز مصروفِ عمل ہے۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن ان چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کیلئے شفاف سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی بہتری، کاروباری دنیا اور صنعتی شعبہ سے مضبوط روابط کیلئے قابل عمل پالیسیوں پر گامزن ہے۔ اعلیٰ تعلیم کی ثقافت کو فروغ دئیے بغیر جدیدیت سے آنکھیں نہیں ملائی جا سکتیں۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024