منگل ، 5 ربیع الاول 1443ھ12 اکتوبر 2021ء
سرکاری ریٹ مقرر ہونے کے باوجود چینی کی قیمت کم نہ ہو سکی
جی ہاں! 16 جولائی کے بعد 3ماہ میں تیسری مرتبہ حکومت نے چینی کی نئی قیمت مقرر کی۔ مگر کیا مجال ہے جو کہیں بھی چینی سرکاری نرخوں پر دستیاب ہو۔ عام بازار اور مارکیٹوں کی بات چھوڑیں۔ بڑے بڑے سپرسٹوروں کی بھی بات نہ کریں۔ حکومت کے اپنے یوٹیلٹی سٹورز پر ہی دیکھ لیں چینی کس بھائو بک رہی ہے۔ حکومت بڑے کروفر سے 90روپے فی کلو کا اعلان کرتی پھر رہی ہے۔ مگر کراچی سے گلگت تک۔ گوادر سے اسلام آباد تک چینی حکومتی نرخوں کا منہ چڑھاتے ہوئے 110 سے 115 روپے اور کئی علاقوں میں 120 روپے تک نہایت دھڑلے سے بک رہی ہے۔ حکومت شوگر مافیاز کے سامنے مکمل طور پر بے بس نظر آ رہی ہے ، ان کا کچھ بگاڑ نہیںسکتی۔ یوں عوام کی زندگی میں جو چینی کی وجہ تھوڑی بہت مٹھاس تھی ، اب وہ بھی کڑواہٹ میں بدلنے لگی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر جگہ حکومت کی ایسی تیسی کی جا رہی ہے۔ مگر حکمران بھی
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
ڈھٹائی سے ہنستے ہوئے عوام کے غصے کا تمسخر اڑا رہے ہیں۔ اگر یہی حال رہا تو بہت جلد چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گا۔ کیونکہ حکمران کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت مہنگائی کم ہے تو پھر
’’نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز‘‘
٭٭٭٭٭٭
ریمبو اور عائشہ کا ملزمان سے رہائی کے بدلے پیسے بٹورنے کا انکشاف
ہمارے اخلاقی زوال کی انتہا تو دیکھیں۔ مینار پاکستان پر یوم آزادی کے موقع پر جو شرمناک حرکت ہوئی اس کے بعد بھی ہماری غیرت نہیں جاگی۔جی ہاں۔ ٹک ٹاکر عائشہ اور اس کا پارٹنر ریمبو دنیا میں پاکستانیوں کا سر شرم سے نیچا کروا کے بھی سکون سے نہیں بیٹھے۔ عدالت میں یہ کیس چل رہا ہے۔ پولیس نے گزشتہ روز اس کیس میں ایک نئی آڈیو ٹیپ پیش کی جس نے اس کیس کو ایک نیا رخ دیا ہے۔ اس سے قبل بھی اس کیس کی مرکزی کردار دوسرے ساتھی پر بدنامی کی سیاہی مل چکی ہیں۔ نازیبا ویڈیو بنا کر بلیک میلنگ کے الزام لگا چکی ہے مگر اب اس موبائل فون کی گفتگو سے لگتا ہے یہ دونوں اندر سے ایک ہی ہیں۔ اس موبائل فون کی ریکارڈنگ سے پتہ چلتا کہ یہ دونوں اس کیس میں گرفتار 6 یا 7 ملزمان سے ان کی رہائی کے بدلے فی کس 5 لاکھ روپے وصول کرنے کی منصوبہ بندی کررہے تھے کیونکہ ان کے بقول تمام گرفتار شدگان غریب ہیں اس سے زیادہ ادا نہیں کرسکیں گے۔ اب یہ ریکارڈنگ پولیس نے عدالت میں دے کر اسے بھی کیس کا حصہ بنا دیا ہے۔
اب اس سے اندازہ کریں کہ ہمارے ہاں مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے کس حد تک اخلاق باختہ ہوچکے ہیں۔ ذلت کی کس پستی میں گرے ہوئے ہیں۔ فیصلہ کرنا عدالت کا کام ہے مگر فیصلہ ایسا ہو کہ آئندہ کوئی بھی مجرمانہ ذہنیت رکھنے کے باوجود ایسا کرنے کی ہمت نہ کرسکے۔
٭٭٭٭٭٭
کراچی میں ماوا اور گٹکا فروخت کرنے والوں کیخلاف رینجرز کارروائی کرے: عدالت
سچ کہیں تو کراچی میں اس ماوا اور گٹکا نے جو تباہی مچائی ہے‘ اس پر قابو پانے کیلئے ایسا عدالتی حکم بہت پہلے آجانا چاہئے تھا۔ خیر اب بھی دیر آید درست آید۔ اچھا کام جب بھی شروع ہو‘ اس پر نیک نیتی سے عمل کیا جائے تو فائدہ ہی ہوتا ہے۔
پورا کراچی اس گٹکے اور ماوا کی وجہ سے تقریباً گونگا یا توتلا ہوچکا ہے۔ کسی کا منہ حیرت کے مارے بھی پورا نہیں کھلتا ، ہنسی بھی آدھ کھلے منہ میں دبی بلکہ پھنسی ہوئی لگتی ہے۔ یہ سب کرامات ان علتوں کی وجہ سے جابجا نظر آتی ہیں۔ کراچی کیا پورے سندھ میں اب تو خیر سے پنجاب میں بھی یہ دونوں علتیں غضب ڈھانے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ یہاں بھی پان کھانے کے شوقین آہستہ آہستہ ان نشوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ لاہور میں سینکڑوں پان کی دکانوں پر دن رات رش لگا رہتا ہے جہاں ماوا اور گٹکا فروخت ہوتا ہے۔ ہزاروں جوان لاہورکے اس نشے کی لت میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ یہاںپولیس آنکھیں بند کرکے نوٹ کما رہی ہے اور ایسی دکانوںسے منتھلی لے کر ان کو کھلی چھٹی دے رکھی ہے جو چاہے فروخت کریں۔ خدا کرے کراچی میں رینجرز ان نشوں کا کاروبار کرنے والی دکانوں اور ان کے تیار کرنے والے فیکٹری مالکان کو عبرت کا نشان بنائے ورنہ اس نشے کے عادی منہ اور معدے کے کینسر کا شکار ہوکر اپنے گھر والوں کی زندگی عذاب بنا دیں گے۔
٭٭٭٭٭٭
پی ڈی ایم کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی حکمت عملی تیار
مبارک ہو اپوزیشن والے اب پھر نئی حکمت عملی تیار کر کے اپنا دل خوش کرلیں۔ اس سے پہلے جتنی بھی حکمت عملیاں تیار کی گئیں کیا ان میں دم نہیں تھا یا وہ سب ناقص تھیں۔ اب جو حکمت عملی تیار کی گئی ہے اس میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ اپوزیشن والوں کو یقین ہے کہ وہ کامیاب ہوگی۔ پہلے بھی اسی طرح جلسے جلوس اور دھرنے کی تیاریاں ہوئیں۔ اب بھی شادی کے کارڈ کی طرح جس میں سب یکساں پروگرام درجہ ہوتے ہیں اس نئے شیڈول میں بھی نومبر دسمبر میں جلسے جلوس اور لانگ مارچ یا دھرنے کے پروگرام ترتیب دیئے گئے ہیں۔
یہ حکمت عملی دیکھ کر تو حکومت ’’یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ کہنے پر ہی اکتفا کرے گی۔ شاید اپوزیشن بھی یہی چاہتی ہے کہ کوئی اب سیٹ نہ ہو اور نئے الیکشن تک یونہی ٹوپی ڈرامہ چلتے رہے ورنہ وہ بھی جانتی ہے کہ صرف پروگرواموں سے کوئی حکومت نہیں جاتی۔
اس وقت اصل مسئلے پر نہ حکومت توجہ دے رہی ہے نہ اپوزیشن چاہتی ہے کوئی کارروائی ہو۔ اس لئے عوام بھی دونوں سے لاتعلق ہے۔ ان دونوں کی لڑائی میں بیروزگاری، مہنگائی اور غربت مل کر عوام کا کچومر نکال رہی ہے۔ عوام اس وقت سیاسی جنگ سے بے نیاز اپنے پر مسلط عذابوں سے چومکھی لڑائی لڑرہی ہے جو بذات خود ایک بڑا المیہ ہے مگر اس طرف توجہ دینے کی کسی کو فرصت نہیں۔
٭٭٭٭٭