پاکستان کی کاٹن اسیسمنٹ کمیٹی کے مطابق پاکستان میں رواں سیزن 2020-21میں 86لاکھ 97ہزار بیلز پیدا ہوں گی امریکن ایگری کلچرل ڈیپارٹمنٹ (USDA)10اکتوبر کی تازہ ترین ماہانہ رپورٹ کے مطابق رواں سیزن پاکستان کی پیداوار 78لاکھ بیلز ہیں پاکستان کے کاٹن جنرز کے مطابق رواں سیزن کی پیداوار 60لاکھ بیلز سمجھ کر کام کر رہے ہیں پاکستان کے کاشتکار اور بیوپاری حضرات کا کہنا ہے کہ کپاس ملک میں تباہ ہوگئی ہے اور سفید مکھی سب چٹ کر گئی ہے اس لئے پاکستان میں رواں سیزن 55لاکھ بیلز کی پیداوار ہو گی ان تمام اندازوں کی کشمکش میں ایک کام مسلسل ہو رہاہے وہ یہ ہے کہ ہر اسٹیشن پر کاٹن کا معیار گر رہاہے آلودگی میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے جس سے ٹیکسٹائل سیکٹر کی دلچسپی لوکل مارکیٹ میں کم جبکہ امریکہ اور برازیل کی روئی میں زیادہ ہے کاٹن کے اہم سٹیک ہولڈرز کاشتکار اور جنرز یہ بات سمجھ لیں صرف کوالٹی مل کو لوکل مارکیٹ میں دلچسپی بنائے رکھنے پر مجبور کر سکتی ہے اگر کوالٹی نہیں تو فوری ادائیگی والی ملیں بھی نہیں اس وقت ٹیکسٹائل مصنوعات کی ایکسپورٹ میں اضافہ ہو رہاہے جس کی وجہ سے معیاری کاٹن ٹیکسٹائل سیکٹر کی ضرورت ہے جبکہ ملک میں فصل کم ہونے کی وجہ سے جنرز چاہتے ہوئے بھی معیار قائم نہیں رکھ سکتا کیونکہ مڈل مین (بیوپاری)نے اندھیر مچایا ہوا ہے پھٹی میں ہر قسم کی آلودگی بیوپاری مکس کر رہاہے تاکہ زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جائے دوسری طر ف پھٹی کی قیمت 10سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے پنجاب میں معیاری پھٹی 5500روپے من تک جبکہ بلوچستان میں 6100روپے فی من تک فروخت ہو رہی ہے اور جیسے حالات ہیں اس میں مزیداضافہ ہوگا سندھ میں بھی 5100تک کپاس کا دام ہے جس سے کاشتکاروں کو فائدہ ہو رہاہے لیکن جن کی فصلیں تباہ ہیں وہ سخت پریشان ہیں پاکستان میں سیڈ پر دو دہائیوں سے کوئی کام نہیں ہوا 600سے زائد سیڈ کمپنیاں پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں جو اپنی مرضی سے سیڈ ملٹی پلائی کر رہی ہیں 6سال سے پاکستان میں بڑے کاٹن سیڈ (موٹے بنولہ)والی قسم کا طوفان آیا ہوا ہے اور سیڈ کمپنیاں یہ موٹے بنولے والی کپاس کا سیڈ تیار کر رہی ہیں جس سے چار بڑے نقصان ہو رہے ہیں سب سے پہلے گرمی کی شدت میں موٹے بنولے والی قسم خراب ہو جاتی ہے بنولہ میں مطلب کاٹن سیڈ میں آئل ہو تاہے اور گرمی سے یہ متاثر ہوتاہے، دوسرا کاٹن کی پیداوار کم ہو جاتی ہے انڈیا میں 40کلو کپاس میں سے 16سے22کلو کپاس نکلتی ہے جبکہ پاکستان میں 40کلو میں سے مشکل سے 7سے8کلو کپاس نکلتی ہے جنرز اپنی ریکوری پوری کرنے کیلئے ٹریش اور نمی بڑھاتے ہیں لیکن اس سے بھی 11سے13کلو سے زیادہ کن نہیں آتا ،تیسرا اس کا بڑا نقصان یہ ہے کہ گلابی سنڈے جیسے کیڑے اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بنولہ بڑا ہونے کی وجہ سے یہ زیادہ تیزی سے بڑھتے ہیں مطلب کئی طرح کیڑے فصل پر حملہ آور ہوتے ہیں ،چوتھابڑا المیہ یہ ہے کہ اس سے فی ایکڑ پیداوار کم ہو جاتی ہے پاکستان جہاں 35سے45من کپاس ایک ایکڑ میں لگتی تھی اس بار مشکل سے کئی علاقوں میں 10من آ رہی ہے اس وقت کپاس کا کاشتکار نقصان میں ہے جس کی بڑی وجہ یہ سیڈ ہے موجودہ کاٹن بحران کو دیکھتے ہوئے سیڈ کمپنیوں اور محکمہ زراعت کو اپنی روش تبدیل کرنا ہو گی یہ نہ ہو کہ کاشتکار بلکل ہی کپاس کاشت کرنا بند کر دیں یہ بہت برا المیہ ہو گا پاکستان میں اب انقلابی بنیادوں پر سیڈ تیار کرنے چاہیں تاکہ پاکستان میں کاٹن کی پیداوار میں اضافہ ہو اور مقامی صنعت کو اس کا فائدہ ملے بنگلا دیش کی سالانہ ایکسپورٹ 50ارب ڈالرز کو چھو رہی ہے جو ناقابل یقین لگتا ہے کیونکہ بنگلا دیش میں کپاس پیدا نہیں ہوتی جبکہ دنیا کے یارن ایکسپورٹ کرنے والوں میں بنگلا دیش سرفہرست ہے سب سے زیادہ حیران افغانستان کی کاٹن نے کیا ہے ا س وقت پاکستان میں افغانی کاٹن کی بے پناہ مانگ ہے اپنی بہترین کوالٹی کی وجہ سے پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کو افغانی کاٹن پسند ہے یہی وجہ ہے کہ پہلے جو کاٹن پاکستانی روپیہ میں آتی تھی اور فی کلو کے حساب سے پاکستان لائی جاتی تھی آج افغانی کاٹن انٹرنیشنل اصولوں کے ساتھ امپورٹ ہوتی ہے اور بے قاعدہ LCکھلتی ہے اور ڈالرز میں ڈیلز ہوتیں ہیں مطلب افغانی کاٹن کی بھی اپنی ایک ساکھ اور معیار ہے یاد رہے کہ افغانستان میں کاٹن دس سے پیدا ہونے لگی ہے اس سے پہلے اتنی مقدار میں نہیں ہوتی تھی بلوچستان میں بھی معیاری کاٹن پیدا ہوتی ہے لیکن غیر معیاری سیڈ نے بلوچستان کی کاٹن کے ریشے کو چھوٹا کر دیا ہے آج سے تین سال قبل بلوچی کاٹن کا سٹیپل 1.11ہوتاتھا جو اب سکڑکر 1.05سے1.06ہو گیا ہے اور اگر مزید موٹے بنولے والا سیڈ لگتا رہا تو یہ بھی نہیں رہے گا گذشتہ ہفتہ پاکستان سمیت پوری دنیا میں کاٹن کا عالمی دن منایا گیا پورے ملک میں کانفرنسیںاور پروگرام ہوئے اور پاکستان میں کاٹن کی کو مدر آف کراپ قرار دیا گیا اور پاکستان میں سالانہ دو کروڑ کاٹن بیلز پیدا کرنے کا عزم کیا گیا کاٹن ماہرین کا کہنا تھا حکومت ریسرچ پر پیسہ لگائے اور کاٹن ریسرچرز کو خصوصی مراعات دی جائیں تاکہ پاکستا ن میں کاٹن کی بڑی فصل ھاصل ہو سکے کاٹن سیڈ پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے کاٹن کا پاکستان میں دوبارہ عروج حاصل کرنا ہے تو مندرجہ ذیل کام کرنے ہوں گے
٭معیاری اورزیادہ روئی والے بیج ٭معیاری زرعی دوائی جو کیڑے کو مارے ٭کاشتکار کی تربیت ٭ریسرچ پر سرمایہ کاری ٭پھٹی کی سپورٹ پرائز ٭کاٹن جینگ انسٹیٹیوٹ٭کپاس کی چنائی میں جدت٭ جینگ رولز پر عمل کرانا٭کاٹن بیلٹ پر گنے کی کاشت کو ممنوع قرار دینا٭کپاس کی فصل کا انشورڈ ہونا تاکہ کاشتکار کو تحفظ ملے ۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024